حنیف ؔ شاہجہاں پوری: گردشِ وقت نے سوچا ہے ٹھہر جانے پر ۔۔۔

دل کی جزبندی کو آیا تھا کہ شیرزاۂ زیست
یاد آیا ورقِ گُل کے بکھر جانے پر

مختصر زیست کا ماتم کریں جن کو ہے فراغ!
ہم کو اک گونہ خوشی دن کے گزر جانے پر

وحشتِ دشت کی ہو فکر کیا، دیوار نہ در!
کیا نہ بڑھ جائے گی وحشت مرے گھر جانے پر!

غم نے اس بار قیامت کا بھرا تھا بہروپ
ہم نے پہچانا مسرت کے ٹھٹر جانے پر!

ضوفشانیٔ مہِ حسرتِ دیدار سے کھیل
نہ ملے گی یہ فضا چاند نگر جانے پر!

آپ کے گھر میں حنیف ؔ اس کو ملا ہے آرام
گردشِ وقت نے سوچا ہے ٹھہر جانے پر!
 
Top