justuju
محفلین
غمِ دنیا نہ غمِ دل ہیں مسائل میرے
حمدِ رب، نعتِ محمّد ہیں مشاغل میرے
Neither the Worldly desires, nor the matters of heart and love;
My hobbies are praising prophet Mohammad & the Lord above
جستجو میڈیا، ڈلاس، ٹیکساس: دنیائے اردو کے ایک روشن مینار، پاکستانی نژاد امریکن شاعر سید محمد حنیف اخگرؔ ملیح آبادی ۳۱ مئی کو ڈلاس میں انتقال کرگئے۔ وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں گزشتہ ایک برس سے مبتلا تھے۔ ان کی عمر ۸۱ برس تھی۔ وہ آخر دم تک اردو ادب کی خدمت میں ہمہ تن مشغول رہے۔ جناب اخگر مرحوم ایک صوفی صفت شاعر تھے جو عشق مجازی اور عشق حقیقی کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کرتے، اور ان کا انداز تکلم اور ترنم جگر مراد آبادی کے وقت سے اب تک بے مثال قرار دیا جاتا رہا۔ آپ کے تین مجموعہءکلام شائع ہوچکے ہیں۔ چراغاں، خیاباں، اور خُلق مجسم۔،
امریکہ میں مقیم اخگر خاندان نے جستجو میڈیا کی شراکت سے اخگر مرحوم و مغفور کی یاد میں ایک خصوصی ویب سائٹ لانچ کی ہے۔ اسے مندرجہ ذیل یو آر ایل پر دیکھا جاسکتا ہے ۔۔۔:۔۔
The Legend of Akhgar
akhgars.blogspot.com
ندرتِ خیال
Poetic Excellence
چند منتخب اشعار، "چراغاں" سے ۔۔۔۔ انگریزی ترجمہ کے ساتھ
Translation by:
Mohammad bin Qasim, Justuju Media
خلوتِ جاں میں ترا درد بسانا چاہے
دل سمندر میں بھی دیوار اٹھاناچاہے
Your agony ought to be immersed in the solitude of my soul
The heart wishes to raise walls in the ocean
* * *
تمہاری آنکھوں کی گردشوں میں بڑی مُروّت ہے ہم نے مانا
مگر نہ اتنی تسلّیاں دو کہ دم نکل جائے آدمی کا
Admittedly, your eyes move to show great empathy
But abundance of this solace may cause my death
* * *
کسی کے جورِ مسلسل کا فیض ہے اخگرؔ
وگرنہ درد ہمارے سُخن میں کتنا تھا
Akhgar, it is all due to continued oppression by the beloved
Else, my poetry did not have any effects
* * *
پل بھر نہ بجلیوں کے مقابل ٹھہر سکے
اتنا بھی کم سواد مرا آشیاں کہاں
The lightnings continue to strike my poor abode
But its mettle endures them for sometime
* * *
ہرچند ہمہ گیر نہیں ذوقِ اسیری
ہر پاؤں میں زنجیر ہے میں دیکھ رہا ہوں
Though incarceration is not a universal trait
I see each and every feet in a shackled state
* * *
لوگ ملنے کو چلے آتے ہیں دیوانے سے
شہر کا ایک تعلّق تو ہے ویرانے سے
People flock to see the heart broken insane
The civilization still connects with the desolate
* * *
کوئی ساغر پہ ساغر پی رہا ہے کوئی تشنہ ہے
مرتب اس طرح آئینِ مہ خانہ نہیں ہوتا
While many remain thirsty, some indulge in the drinks
The rules of the bar are not constituted in such a fashion
* * *
جب بھی اُس زلفِ پریشاں کی ہوا آتی ہے
ہم تو خوشبو کی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں
Whenver her disturbed hairs cause a breeze
I venture out of my dwelling like a fragrance
* * *
آئینے میں ہے فقط آپ کا عکس
آئینہ آپ کی صورت تو نہیں
The mirror shows only a reflection
Your image there is no perfection
* * *
دیکھیے رُسوا نہ ہوجائے کہیں کارِ جنوں
اپنے دیوانے کو اک پتھر تو مارے جائیے
Lest my mad love fall in disrepute
Do not forget to stone me before you refute
* * *
نگاہیں پھیرنے والے یہ نظریں اُٹھ ہی جاتی ہیں
کبھی بیگانگی وجہء شناسائی بھی ہوتی ہے
People take a note of those who ignore
At times the alienation results in an association
* * *
عجب ہے عالم عجب ہے منظر ایک سکتہِ میں ہے چشمِ حیرت
نقاب اُلٹ کر وہ آگئے ہیں تو آئینے گنگنارہے ہیں
All the world is in a state of astonishing admiration
As she unveils, the mirrors are humming a happy tune
* * *
آنکھوں میں جل رہے تھے دیئے اعتبار کے
احساسِ ظلمتِ شبِ ہجراں نہیں رہا
Like the lamps, my eyes are glittering with your trust
The dark lonely night's fears are fading away
* * *
جو ہے تازگی مری ذات میں وہی ذکروفکرچمن میں ہے
کہ وجود میرا کہیں بھی ہو مری رُوح میرے وطن میں ہے
The freshness of my soul is reflected in the bouquet of my thoughts
Wherever I may be, my soul floats in my native lands
* * *
جو کشودِ کار طلسم ہے وہ فقط ہمارا ہی اسم ہے
وہ گِرہ کسی سے کھلے گی کیا جو تری جبیں کی شکن میں ہے
The magical key to your emotions is only my name
No one else can un-wrinkle the worries on your forehead
* * *
بزم کو رنگِ سُخن میں نے دیا ہے اخگرؔ
لوگ چُپ چُپ تھے مِری طرزِ نوا سے پہلے
Akhgar, I gave the courage to speak
There was a quiet, before I took the stage
* * *
کافر سہی ہزار مگر اس کو کیا کہیں
ہم پر وہ مہرباں ہے مسلمان کی طرح
She may be a pagan, but what can I say more
She is so kind with me, like a strong believer
* * *
دیکھو ہماری سمت کہ زندہ ہیں ہم ابھی
سچائیوں کی آخری پہچان کی طرح
Look here, towards me, that I am still alive
Like the last signs of eternal truth thrive
* * *
یہ سانحہ بھی بڑا عجب ہے کہ اپنے ایوانِ رنگ و بو میں
ہیں جمع سب مہروماہ و انجم، پتا نہیں پھر بھی روشنی کا
How tragic it is, that in our house of colors of lords
All the suns, moons, and stars are present devoid of illumination
* * *
اظہار پہ بھاری ہے خموشی کا تکلّم
حرفوں کی زباں اور ہے آنکھوں کی زباں اور
Silent communication overrides expressions
Words have a meaning different from exchange of glances
* * *
پوچھتی رہتی ہے جو قیصروکسریٰ کا مزاج
شان یہ خاک نشینوں میں کہاں سے آئی
The courage that challenges the oppressors
How this majesty found itself within the paupers
* * *
Justuju Media
Tel: 92-0-32-32-722-800