محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
حوصلہ افزائی انسانی فطرت
تحریر۔۔۔۔۔ بشریٰ جبیں جرنلسٹ
تجزیہ کار کالم نگار
انسان کی فطری خواہش ہے کہ اس کی تعریف کی جائے، حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے سراہا جائے۔ حوصلہ افزائی زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح گاڑی کے لیے پیٹرول۔ حوصلہ افزائی کے لیے کہے گئے دو بول انسان کو وہ کچھ حاصل کرنے کی طاقت دیتے ہیں جس کے بارے میں پہلے کبھی سوچا تک نہیں ہوتا۔آپ نے خود کو بھی بارہا آزمایا ہوگا کہ شاباش اور حوصلہ افزائی سے جوش و خروش کا جو کرنٹ آپ کے اندر دوڑتا ہے وہ بہتر سے بہتر کی جستجو میں لگادیتا ہے۔
حدیث پاک میں جس تعریف کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد ہے حد سے زیادہ تعریف کرنا، بتکلف تعریف کرنا، خوشامدانہ انداز میں چاپلوسی کرنا یا جھوٹی تعریف کرنا۔ خود سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر متعدد صحابہ کرام کی تعریف فرمائی ہے۔ بزرگانِ دین نے بھی اپنے شاگردوں اور مریدوں کے اچھے کاموں کو ہمیشہ سراہا ہے۔
مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز کاتجزیہ ہے کہ انسان کی فطری خواہش ہے کہ اس کی تعریف کی جائے، اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے سراہا جائے۔ لوگ وہ کام زیادہ شوق سے کرتے ہیں جس کی دوسرے تعریف کردیں۔ تعریف اور حوصلہ افزائی سے انسان اچھا رویہ اختیار کرتا ہے، اس کی خود اعتمادی بھی بحال ہوتی ہے اور تعریف کرنے والے سے اس کا تعلق بھی بہتر ہوتا ہے۔
بہت کم لوگ اتنے اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں کہ دوسروں کو شاباشی دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ نہ جانے کیوں ہم کسی کی تعریف کرنے کو نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ حسد بھی ہوسکتی ہے، کوئی ہم سے آگے کیوں نکل گیا، یہ بات ہم سے ہضم نہیں ہوتی۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے ہمارا ہی نقصان ہے۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں ہماری شخصیت کا اچھا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ایسے رویے سے پرہیز کریں اور اپنے اندر دوسروں کے اچھے کاموں پر ان کی حوصلہ افزائی کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔
جب تک آپ کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اس میں کسی بھی بڑے کام کو کرنے کو حوصلہ پیدا نہیں ہوتا۔دنیا میں بہت سے مشہور لوگ ایسے ہیں جن سے بڑے کام صرف اس وجہ سے سر زد ہوئے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ جب وہ ہمت ہارنے لگتے تو ہمت افزائی کے یہ الفاظ’’ہاں تم کر سکتے ہو!‘‘ ان کو پھر سے کھڑا کردیتے تھے۔
اپنے سے وابستہ ہر فرد کی تعریف اور حوصلہ افزائی کریں۔ ملازم گھریلو ہو یادفتر و فیکٹری کا اس کو باقاعدہ اپنے پاس بلاکر یا خود اس کے پاس جاکر اسے واضح انداز میں سراہیں کہ تم نے یہ کام ہماری توقع سے بھی بہتر انداز میں کیا، آج ہم تم سے بہت خوش ہیں۔ ملازم کے کام کو وقتاً فوقتاً سراہتے بھی رہیں۔ اگر اس نے کوئی کام نہایت محنت و جانفشانی سے کیا ہے تو بشاشت کے ساتھ اسے شاباشی دیں اور پسندیدگی کا اظہار کریں۔ نیا کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں، اس سے ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ تیز ہوتا ہے اور بالآخر ایک دن وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اپنے دوست و احباب کی تعریف کریں، اس طرح ان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہوگا، جب وہ کچھ پا لیں گے تو آپ کے شکرگزار ہوں گے اور جواب میں آپ کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ساس کو بہو کے اچھے کاموں پر تعریف کرنی چاہیے کہ تم نے میرا گھر بھی سنبھالا ہوا ہے، میرا بیٹا بھی اور مجھے بھی اور اپنی بہو کو وقتاً فوقتاً دعاؤں سے نوازے ۔ ایسا کرنے سے بہو کی نگاہ میں ساس کی عزت بڑھتی ہے اور مزید خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ بہو بھی ساس سے کہے کہ آپ میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتی ہیں اور آڑے وقت میں بہت اچھے مشورے دیتی ہیں، اس سے ساس کا بہو پر مان بڑھ جاتا ہے،پھر وہ اسے نہ اپنا بیٹا چھیننے والی سمجھتی ہے نہ گھر پر قبضہ جمانے والی۔
جب کسی کی تعریف کریں تو واضح الفاظ میں کریں تاکہ اسے پتا ہو کہ کس بات پر تعریف ہو رہی ہے مثلاً اچھا ہوا تم نے نماز پڑھ لی، رشوت نہیں لی، اپنا کام ایمان داری سے کیا یا فلاں کے کام آئے۔بجائے اس کے کہ خشک انداز میں منہ بسور کر کہہ دیا کہ ماشاء اللہ!
تعریف کرتے وقت صرف اچھی بات کہیں، اس وقت کوئی تبصرہ یا تنقید نہ کریں، یہ کام کسی دوسرے وقت کے لیے اُٹھا رکھیں۔ تعریف مختصر اور دیانت دارانہ انداز میں کریں مثلاً تم نے فلاں کام میں میری مدد کی، اس پر تمہارا بہت بہت شکریہ۔تعریف کے لیے ایسے عام فہم الفاظ استعمال کریں جو سامنے والے کو سمجھ میں آجائیں مثلاً بچوں کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ آج آپ نے مہمانوں کے سامنے کوئی شور نہیں کیا، کوئی بدتمیزی نہیں کی ، کھانا بھی اچھے طریقے سے کھایا، آپ کو اس کام پر شاباشی دی جاتی ہے۔
تعریف یا ستائش کا مطلب دوسروں کو کچھ دینا ہے۔آپ کسی کو کچھ دیتے ہیں تو آپ کو بھی بہت کچھ ملتا ہے۔ لہٰذا تعریف کرنے میں کبھی کنجوسی نہ کیجیے، اچھا کام کرنے والے کی تعریف کیجیے،وہ آپ کا گرویدہ ہو جائے گا۔
تحریر۔۔۔۔۔ بشریٰ جبیں جرنلسٹ
تجزیہ کار کالم نگار
انسان کی فطری خواہش ہے کہ اس کی تعریف کی جائے، حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے سراہا جائے۔ حوصلہ افزائی زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح گاڑی کے لیے پیٹرول۔ حوصلہ افزائی کے لیے کہے گئے دو بول انسان کو وہ کچھ حاصل کرنے کی طاقت دیتے ہیں جس کے بارے میں پہلے کبھی سوچا تک نہیں ہوتا۔آپ نے خود کو بھی بارہا آزمایا ہوگا کہ شاباش اور حوصلہ افزائی سے جوش و خروش کا جو کرنٹ آپ کے اندر دوڑتا ہے وہ بہتر سے بہتر کی جستجو میں لگادیتا ہے۔
حدیث پاک میں جس تعریف کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد ہے حد سے زیادہ تعریف کرنا، بتکلف تعریف کرنا، خوشامدانہ انداز میں چاپلوسی کرنا یا جھوٹی تعریف کرنا۔ خود سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر متعدد صحابہ کرام کی تعریف فرمائی ہے۔ بزرگانِ دین نے بھی اپنے شاگردوں اور مریدوں کے اچھے کاموں کو ہمیشہ سراہا ہے۔
مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز کاتجزیہ ہے کہ انسان کی فطری خواہش ہے کہ اس کی تعریف کی جائے، اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے سراہا جائے۔ لوگ وہ کام زیادہ شوق سے کرتے ہیں جس کی دوسرے تعریف کردیں۔ تعریف اور حوصلہ افزائی سے انسان اچھا رویہ اختیار کرتا ہے، اس کی خود اعتمادی بھی بحال ہوتی ہے اور تعریف کرنے والے سے اس کا تعلق بھی بہتر ہوتا ہے۔
بہت کم لوگ اتنے اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں کہ دوسروں کو شاباشی دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ نہ جانے کیوں ہم کسی کی تعریف کرنے کو نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ حسد بھی ہوسکتی ہے، کوئی ہم سے آگے کیوں نکل گیا، یہ بات ہم سے ہضم نہیں ہوتی۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے ہمارا ہی نقصان ہے۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں ہماری شخصیت کا اچھا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ایسے رویے سے پرہیز کریں اور اپنے اندر دوسروں کے اچھے کاموں پر ان کی حوصلہ افزائی کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔
جب تک آپ کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اس میں کسی بھی بڑے کام کو کرنے کو حوصلہ پیدا نہیں ہوتا۔دنیا میں بہت سے مشہور لوگ ایسے ہیں جن سے بڑے کام صرف اس وجہ سے سر زد ہوئے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ جب وہ ہمت ہارنے لگتے تو ہمت افزائی کے یہ الفاظ’’ہاں تم کر سکتے ہو!‘‘ ان کو پھر سے کھڑا کردیتے تھے۔
اپنے سے وابستہ ہر فرد کی تعریف اور حوصلہ افزائی کریں۔ ملازم گھریلو ہو یادفتر و فیکٹری کا اس کو باقاعدہ اپنے پاس بلاکر یا خود اس کے پاس جاکر اسے واضح انداز میں سراہیں کہ تم نے یہ کام ہماری توقع سے بھی بہتر انداز میں کیا، آج ہم تم سے بہت خوش ہیں۔ ملازم کے کام کو وقتاً فوقتاً سراہتے بھی رہیں۔ اگر اس نے کوئی کام نہایت محنت و جانفشانی سے کیا ہے تو بشاشت کے ساتھ اسے شاباشی دیں اور پسندیدگی کا اظہار کریں۔ نیا کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں، اس سے ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ تیز ہوتا ہے اور بالآخر ایک دن وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اپنے دوست و احباب کی تعریف کریں، اس طرح ان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہوگا، جب وہ کچھ پا لیں گے تو آپ کے شکرگزار ہوں گے اور جواب میں آپ کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ساس کو بہو کے اچھے کاموں پر تعریف کرنی چاہیے کہ تم نے میرا گھر بھی سنبھالا ہوا ہے، میرا بیٹا بھی اور مجھے بھی اور اپنی بہو کو وقتاً فوقتاً دعاؤں سے نوازے ۔ ایسا کرنے سے بہو کی نگاہ میں ساس کی عزت بڑھتی ہے اور مزید خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ بہو بھی ساس سے کہے کہ آپ میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتی ہیں اور آڑے وقت میں بہت اچھے مشورے دیتی ہیں، اس سے ساس کا بہو پر مان بڑھ جاتا ہے،پھر وہ اسے نہ اپنا بیٹا چھیننے والی سمجھتی ہے نہ گھر پر قبضہ جمانے والی۔
جب کسی کی تعریف کریں تو واضح الفاظ میں کریں تاکہ اسے پتا ہو کہ کس بات پر تعریف ہو رہی ہے مثلاً اچھا ہوا تم نے نماز پڑھ لی، رشوت نہیں لی، اپنا کام ایمان داری سے کیا یا فلاں کے کام آئے۔بجائے اس کے کہ خشک انداز میں منہ بسور کر کہہ دیا کہ ماشاء اللہ!
تعریف کرتے وقت صرف اچھی بات کہیں، اس وقت کوئی تبصرہ یا تنقید نہ کریں، یہ کام کسی دوسرے وقت کے لیے اُٹھا رکھیں۔ تعریف مختصر اور دیانت دارانہ انداز میں کریں مثلاً تم نے فلاں کام میں میری مدد کی، اس پر تمہارا بہت بہت شکریہ۔تعریف کے لیے ایسے عام فہم الفاظ استعمال کریں جو سامنے والے کو سمجھ میں آجائیں مثلاً بچوں کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ آج آپ نے مہمانوں کے سامنے کوئی شور نہیں کیا، کوئی بدتمیزی نہیں کی ، کھانا بھی اچھے طریقے سے کھایا، آپ کو اس کام پر شاباشی دی جاتی ہے۔
تعریف یا ستائش کا مطلب دوسروں کو کچھ دینا ہے۔آپ کسی کو کچھ دیتے ہیں تو آپ کو بھی بہت کچھ ملتا ہے۔ لہٰذا تعریف کرنے میں کبھی کنجوسی نہ کیجیے، اچھا کام کرنے والے کی تعریف کیجیے،وہ آپ کا گرویدہ ہو جائے گا۔