امجد علی راجا
محفلین
علامہ کے بدلتے ہوئے شعری رجحان کو دیکھ کر پہلے حیرت ہوئی، جب معلوم ہوا کہ یہ بدلائو آپ کا کارنامہ ہے تو حیرت مسکراہٹ میں بدل گئی۔ بہت ساری داد قبول فرمائیں۔حُسن اور عشق
جس طرح ڈوبتی ہے
نورِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحر
مہِ تاباں کی وہ سیمیں کشتی
جیسے مفقودِ خبر
چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول
جلوہء طور میں ضُو دینے کو آجائے ہے جیسے یدِ بیضائے کلِیم
موجہء نکہتِ گلزار میں غنچے کی شمیم
ڈوبتا جائے ترے سیلِ محبت میں یونہی دل میرا
تیرا ہمزاد ہوں میں
تو جو محفل ہے تو ہنگامہء محفل میں ہوں
حُسن کی برق ہے تو ، عشق کا حاصل میں ہوں
توسحرہے
تومرےاشک ہیں شبنم تیری
شامِ غربت ہوں اگر میں
تو شفق تو میری
میرے دل پر تری زلفوں کی گھٹا چھائی ہے
حسن کامل ہے ترا، عشق بھی میرا کامل
تیرا جلوہ ہے مرے باغِ سخن کے لیے یوں بادِ بہاری جانم
میرے بے تاب تخیل کو دیا تو نے قرار
جب سے آباد مرے دل میں ہوا عشق ترا
نئے جوہر ہوئے پیدا
مرے آئینے میں
حُسن سے عشق کی فطرت کو ملی ہے تحریک
تجھ سے سر سبز ہوئے
میری امیدوں کے نہال
قافلے نے بھی اسی موڑ پہ منزل پائی
نوٹ:
علامہ اقبال کی ایک غیر مطبوعہ نظم جو حال ہی میں دریافت ہوئی ، علامہ کی زندگی کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہے اور ان کے بدلتے ہوئے شعری رجحان کی آئینہ دار ہے۔