باباجی
محفلین
حُسن کو وسعتیں جو دِیں عشق کو حوصلہ دیا
جو نہ ملے، نہ مِٹ سکے مجھ کو وہ مدعا دیا
ہاتھ میں لے کے جامِ مئے آج وہ مسکرادیئے
عقل کو سرد کر دیا، رُوح کو جگمگا دیا
دل پہ لیا ہے داغِ عشق کھو کے بہارِ زندگی
اک گُلِ تر کے واسطے میں نے چمن لُٹادیا
کچھ تو کہو یہ کیا ہوا، تم بھی تھے ساتھ ساتھ کیا
غم میں یہ کیوں سرُور تھا، درد نے کیوں مزہ دیا
اب نہ یہ مری ذات ہے، اب نہ یہ کائنات ہے
میں نے نوائے عشق کو ساز سے یوں ملا دیا
عکس جمالِ یار کا آئینہ خؤدی میں دیکھ
یہ غمِ عشق کیا دیا، مجھ سے مجھے چھپادیا
حشر میں آفتابِ حشر اور وہ شورِ الاماں
"اصغر" بُت پرست نے "زُلف" کا واسطہ دیا
(اصغر گونڈوی)