حزیں صدیقی حُسن کہاں ہے ایک ہیولہ گلشن کا سرمایہ ہے

مہ جبین

محفلین
حُسن کہاں ہے ایک ہیولہ گلشن کا سرمایہ ہے
عشق کہاں ہے ایک بگولہ فردِ بساطِ صحرا ہے

ذہن سے دل تک دل سے نظر تک ایک تلاطم برپا ہے
جانے دریا میں کشتی ہے یا کشتی میں دریا ہے

جانے شعلہ ہے یا شبنم ، پتھر ہے یا شیشہ ہے
آپ بتائیں آپ نے دل کو ہر پہلو سے پرکھا ہے

جو تھے شناور بحر کی تہ سے موتی چن کر لے بھی گئے
ہم ساحل پر سوچ رہے ہیں پانی کتنا گہرا ہے

خواب کے عالم میں بھی سکّہ چلتا ہے بیداری کا
ہم سوتے ہیں اور ہمارا ذہن سفر میں رہتا ہے

آج زباں پر مُہر لگی ، کل دل پر بھی لگ جائے گی
موت سے ڈر کر جینا گویا موت سے پہلے مرنا ہے

جیون کی تپتی راہوں میں بھَولے راہی چھاؤں کہاں
پگ پگ اپنے ہی قدموں کا گھٹتا بڑھتا سایہ ہے

سوچ کی وادی میں گُم رہنا شام سویرے بے مقصد
فطرت کے مکتب سے حزیں نے اور ہنر کیا سیکھا ہے

حزیں صدیقی
 

نایاب

لائبریرین
بلا شبہ زبردست کلام
کسی اک شعر کو حاصل مطالعہ ٹھہرانا بہت مشکل امر
کلام مسلسل ہے اور آگہی کو جگاتا ہوا ۔
بہت شکریہ شراکت پر محترم بہنا
 
Top