طارق شاہ
محفلین
غزل
حُسین انجُم
زُلف خمدار ہے یا ناگ ہیں کالے جیسے
لب و رُخسار ہیں یا پھول ہیں لالے جیسے
مجھ سے پابندِ وفا کو ہے تو شکوہ یہ ہے
تو بھی ویسا ہی تِرے چاہنے والے جیسے
رُخِ روشن پہ ہے اِس طرح سے ریشم کی نقاب
ابر مہتاب کو دامن میں چھپا لے جیسے
سرنگوں یوں ہُوا سبزہ ترے پیروں کے تلے
آگئے دوش سے قدموں میں دوشالے جیسے
گر ہو یہ قُرب، تو ہے حلقہ بگوشی منظور
حّدِ رُخسار میں ہیں کان کے بالے جیسے
یاد ناکامیاں یوں ہیں سن و تاریخ کے ساتھ
ہوں محقّق کی کتابوں میں حوالے جیسے
ایسا پایاب تو انجُم نہ تھا دریائے سُخن
خشک مدّت سے ہوں برسات کے نالے جیسے
حُسین انجُم