طارق شاہ
محفلین
غزل
حُسین انجُم
مہتاب تھا طالع مِرے گھر رات سے پہلے
چھائی تھی گھٹا زُلف کی برسات سے پہلے
لِیں عارضِ گلُرنگ کی زُلفوں نے بلائیں
جب سر ہُوا تسلیم میں خم ہاتھ سے پہلے
آباد ہے قدموں سے جو اب پیرِ مُغاں کے
تھا شیخ کا مسکن وہ خرابات سے پہلے
آنکھوں سے عیاں دل کا تقاضہ تو نہیں تھا
چھائی جو حیا رُخ پہ مِری بات سے پہلے
کس نے کِسے لُوٹا ہے یہ ہو جائے گا معلوم
نکلو تو ذرا اپنے مکانات سے پہلے
آمادۂ تخسیرِ قمر ہیں جو اُمنگیں
وہ دست وگریباں تو ہوں ذرّات سے پہلے
تھے شیخِ محلّہ سے مراسم بہت اچھے
پیتے تھے بہم گردشِ حالات سے پہلے
آثار بھی ہوتے کسی بستر پہ شکن کے
مہماں وہ ہمارے تھے مگر رات سے پہلے
یہ بارگہِ قبلۂ رِندانِ جہاں ہے
لازم ہے یہاں پاسِ ادب بات سے پہلے
اک مشغلۂ شوق ہے اے شیخ وگرنہ
لازم دلِ تائب ہے مناجات سے پہلے
واللہ ، قیامت تھا یہ اُس شوخ کا کہنا
بیتابیِ دل خُوب نہیں رات سے پہلے
انجُم، تہی جامی پہ کیوں آزردہ ہے اِتنا
جا، عرض تُو کر قبلۂ حاجات سے پہلے
حُسین انجُم