حکایات سعدی

نیلم

محفلین
اللہ تعالٰی کی مہربانی اور رحمت

کسی نے ایک شخص کو ، جس نے کبھی کسی یتیم کے پیر سے کانٹا نکالا تھا، خواب میں دیکھا کہ وہ باغوں کی سیر کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اس کانٹے کی بدولت مجھ پر کس قدر پھول کھلے ہیں۔ لہذا جب تک ممکن ہو سکے لوگوں پر رحم کروکیونکہ جب تک انسان دوسروں پر رحم کرتا رہے گا، اس پر بھی رحمت ہوتی رہے گی۔ یعنی جب انسان کسی پر شفقت کرتا ہے تو رحمت خدا و ندی کا مستحق ہو جاتا ہے۔
جب کسی پر رحم کرو تو اس عمل پر غرور نہ کرنا
اور یہ نہ سوچنا کہ تم نے جس کی مدد کی ہے وہ تم سے کم تر ہے۔ اگر زمانے کی گردش نے اسے گرا دیا ہے تو کیا اس زمانے کی گردش اب ختم ہو گئی ہے ۔ اسی طرح جب لوگوں کو دعا گو دیکھو تو اس وقت پروردگار کی نعمتوں کا شکر ادا کیا کرو۔ یہ بھی جان لو کہ بہت سے لوگوں کی نظریں امید سے تم پر لگی ہوئی ہیں اور مہربانی اور کرم کرنا تو سرداروں کی سیرت ہوتی ہے۔ یہ تم پر اللہ تعالٰی کی مہربانی اور رحمت ہے کہ تمہیں کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ لطف و کرم کرنا تو پیغمبروں کا شیوا ہے۔

( حکایات سعدی، بوستان: نمبر3)
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
عمدہ!
بے شک انسانیت کی معراج ہی یہی ہے کہ راہ کے کانٹے ہٹائے جائیں۔۔۔۔راستے کشادہ کیئے جائیں۔۔۔دل وسیع کیئے جائیں۔۔۔پھر تو ہر اک رہگزر گل و گلزار
 

شمشاد

لائبریرین
عمدہ!
بے شک انسانیت کی معراج ہی یہی ہے کہ راہ کے کانٹے ہٹائے جائیں۔۔۔ ۔راستے کشادہ کیئے جائیں۔۔۔ دل وسیع کیئے جائیں۔۔۔ پھر تو ہر اک رہگزر گل و گلزار
راہ کےکانٹے ہٹائے جا سکتے ہیں لیکن راستے کشادہ نہیں کیے جا سکتے کہ بلدیہ والے نہیں مانتے۔ ویسے بھی تجاوزات اتنی زیادہ ہیں کہ کشادہ راستے بھی تنگ ہو گئے ہیں۔

دل وسیع کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ بلکہ موجودہ دور کی نفسا نفسی میں یہ ناممکن کے قریب ہو چکا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پڑوسی کے پاس تو دو کاریں ہیں اور میں دل وسیع کرتے ہوئے ایک بھی نہ رکھوں۔
یا اگر میرے پاس دو کاریں ہیں اور پڑوسی کے پاس ایک بھی نہیں اور میں دل وسیع کرتے ہوئے ایک اسے دے دوں۔
 

نیلم

محفلین
ایک فقیر بہت مفلس و کنگال تھا ۔اس کی دعا رب تعالٰی سے یہی
تھی کہ تو نےمجھے بغیر مشقت کے پیدا کیا ہے۔اسی طرح بغیر مشقت کے مجھے روزی بھی دے وہ مسلسل یہی مانگا کرتا تھا۔
اللہ تعالٰی عزوجل نے اس کی دعا قبول فرمائی،اسے خواب آیا کہ تو ردی والے کی دکان پر جا وہاں بوسیدہ کاغذوں میں سے تجھے ایک کاغذ ملے گا۔اسے لے آ اور تنہائی میں پڑھ۔صبح اٹھ کر وہ رودی کی دکان پر گیا۔ردی میں سے وہ تحریر(گنج نامہ)تلاش کرنے لگا۔۔تھوڑی دیر بعد وہ گنج نامہ اس کے سامنے آگیا۔۔جو اسے خواب میں نظر آیا تھاا۔۔اس نے وہ کاغذ دکاندار سے لیا۔۔تنہائی میں اس کاغذ کو پڑھا۔اس پرچے میں تحریر تھا کہ شہر سے پار ایک مزار ہے ادھر ہی خزانہ دفن ہے۔مزار کی طرف پشت اور منہ قبلہ کی طرف کرکے تیر کو کمان میں رکھ۔۔جہاں پر تیر گرے وہاں خزانہ دفن ہوگا۔۔فقیر نے تیر کمان لے کر اپنے جوہر دکھانے شروع کردیئے۔۔جہاں تیر پھینکتا وہاں جلدی سے بیلچے پھاوڑے لے کر زمین کھودنا شروع کردیتا۔۔بیلچہ،پھاوڑا اور وہ فقیر کند ہوگئے مگر خزانے کا نام و نشان بھی نہ ملا۔۔وہ روزانہ اسی طرح عمل کرتا تیر پھینکتا جس جگہ تیر گرتا اسے کھودتا مگر خزانہ نہ ملاتا۔۔فقیر کے اس پروگرام کا بادشاہ وقت کو پتا چلا۔۔بادشاہ نے اسے طلب کیا۔۔اس نے ساری کہانی بادشاہ کو سنائی اور کہنے لگا جب سے خزانے کا پتہ پایا ہے۔تلاش میں ہوں،خزانہ تو نہ ملا سخت تکلیف اور مشقت میرا مقدر بن گئی ہے۔
بادشاہ نے فقیر سے وہ گنج نامہ لے لیا۔۔خزانہ پانے کے لئے بادشاہ نے بھی تیر چلانے شروع کردیئے۔چھ ماہ تک بادشاہ بھی تیر چلاتا رہا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔۔
بادشاہ سلامت بھی ناامید ہو کر وہ گنج نامہ فقیر کو واپس کردیا۔۔

فقیر نے پھر اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کیا عاجزی و انکساری اور آنکھیں اشک بار کرکے دعا کی اے اللہ تعالٰی میری سمجھ سے یہ عقدہ بالاتر ہے۔میں راز کو نہ پاسکا۔تو خود ہی کمال مہربانی سےاسے حل کردے اور مجھے خزانے تک پہنچا دے۔جب وہ عاجز ہو کر بارگاہ الہی میں سچے دل سے گر پڑا تو آواز آئی۔۔میں نے تجھے تیر کو کمان میں رکھنے کو کہا تھا۔۔تجھے تیر چلانے اور کمالات دکھانے کا نہیں کہا تھا۔۔۔خزانہ تیرے پاس تھا۔۔تیرے قریب تھا۔۔تو تیراندازی کے سفر میں اس سے دور ہوتا گیا۔۔خدا کی ذات کو اپنے اندر اپنے دل میں تلاش کر جو شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔۔اپنے من میں ڈوب خزانہ تک پہنچ جائے گا.

حکایت سعدی سے اقتباس۔۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
قرض:
چندغریب کسی بنئے کے قرضدار ہو گئے تھے۔بنیا روز تقاضے پر تقاضا کرتا اور ساتھ ہی سخت و سست بھی سُنا دیتا ۔مگر غریب برداشت کرنے کے سوا اور کیا کرسکتے تھے۔
ایک دانا نے واقے سے واقف ہو کر فرمایا:"نفس کو کھانے کے وعدہ پر ٹالنا ، بنئے کو روپوں کے وعدہ پر ٹالنے سے زیادہ آسان تھا۔
 
ایک فقیر بہت مفلس و کنگال تھا ۔اس کی دعا رب تعالٰی سے یہی
تھی کہ تو نےمجھے بغیر مشقت کے پیدا کیا ہے۔اسی طرح بغیر مشقت کے مجھے روزی بھی دے وہ مسلسل یہی مانگا کرتا تھا۔
اللہ تعالٰی عزوجل نے اس کی دعا قبول فرمائی،اسے خواب آیا کہ تو ردی والے کی دکان پر جا وہاں بوسیدہ کاغذوں میں سے تجھے ایک کاغذ ملے گا۔اسے لے آ اور تنہائی میں پڑھ۔صبح اٹھ کر وہ رودی کی دکان پر گیا۔ردی میں سے وہ تحریر(گنج نامہ)تلاش کرنے لگا۔۔تھوڑی دیر بعد وہ گنج نامہ اس کے سامنے آگیا۔۔جو اسے خواب میں نظر آیا تھاا۔۔اس نے وہ کاغذ دکاندار سے لیا۔۔تنہائی میں اس کاغذ کو پڑھا۔اس پرچے میں تحریر تھا کہ شہر سے پار ایک مزار ہے ادھر ہی خزانہ دفن ہے۔مزار کی طرف پشت اور منہ قبلہ کی طرف کرکے تیر کو کمان میں رکھ۔۔جہاں پر تیر گرے وہاں خزانہ دفن ہوگا۔۔فقیر نے تیر کمان لے کر اپنے جوہر دکھانے شروع کردیئے۔۔جہاں تیر پھینکتا وہاں جلدی سے بیلچے پھاوڑے لے کر زمین کھودنا شروع کردیتا۔۔بیلچہ،پھاوڑا اور وہ فقیر کند ہوگئے مگر خزانے کا نام و نشان بھی نہ ملا۔۔وہ روزانہ اسی طرح عمل کرتا تیر پھینکتا جس جگہ تیر گرتا اسے کھودتا مگر خزانہ نہ ملاتا۔۔فقیر کے اس پروگرام کا بادشاہ وقت کو پتا چلا۔۔بادشاہ نے اسے طلب کیا۔۔اس نے ساری کہانی بادشاہ کو سنائی اور کہنے لگا جب سے خزانے کا پتہ پایا ہے۔تلاش میں ہوں،خزانہ تو نہ ملا سخت تکلیف اور مشقت میرا مقدر بن گئی ہے۔
بادشاہ نے فقیر سے وہ گنج نامہ لے لیا۔۔خزانہ پانے کے لئے بادشاہ نے بھی تیر چلانے شروع کردیئے۔چھ ماہ تک بادشاہ بھی تیر چلاتا رہا مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔۔
بادشاہ سلامت بھی ناامید ہو کر وہ گنج نامہ فقیر کو واپس کردیا۔۔

فقیر نے پھر اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کیا عاجزی و انکساری اور آنکھیں اشک بار کرکے دعا کی اے اللہ تعالٰی میری سمجھ سے یہ عقدہ بالاتر ہے۔میں راز کو نہ پاسکا۔تو خود ہی کمال مہربانی سےاسے حل کردے اور مجھے خزانے تک پہنچا دے۔جب وہ عاجز ہو کر بارگاہ الہی میں سچے دل سے گر پڑا تو آواز آئی۔۔میں نے تجھے تیر کو کمان میں رکھنے کو کہا تھا۔۔تجھے تیر چلانے اور کمالات دکھانے کا نہیں کہا تھا۔۔۔ خزانہ تیرے پاس تھا۔۔تیرے قریب تھا۔۔تو تیراندازی کے سفر میں اس سے دور ہوتا گیا۔۔خدا کی ذات کو اپنے اندر اپنے دل میں تلاش کر جو شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔۔اپنے من میں ڈوب خزانہ تک پہنچ جائے گا.

حکایت سعدی سے اقتباس۔۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
 

نیلم

محفلین
قرض:
چندغریب کسی بنئے کے قرضدار ہو گئے تھے۔بنیا روز تقاضے پر تقاضا کرتا اور ساتھ ہی سخت و سست بھی سُنا دیتا ۔مگر غریب برداشت کرنے کے سوا اور کیا کرسکتے تھے۔
ایک دانا نے واقے سے واقف ہو کر فرمایا:"نفس کو کھانے کے وعدہ پر ٹالنا ، بنئے کو روپوں کے وعدہ پر ٹالنے سے زیادہ آسان تھا۔
ماشاءاللہ بہت خُوب
 
Top