ان آیاتِ قرآنی سے حضرت خضر کے لئے تو علم لدنی عطا ہونے کا نص ملتا ہے لیکن کیا آپ قرآن اور حدیث سے نص لا سکتے ہیں کہ علم لدنی حضرت خضر کے بعد بھی عطا ہوتا رہا ہے؟؟؟ نص کے غیر موجود ہونے سے کسی صورت یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے کہ علمِ لدنی اعلیٰ حضرت یا اور اولیاء کو عنایت فرمایا جاتا رہا ہے!!! پہلے شریعت سے ثبوت فراہم کر دیجئے کہ علمِ لدنی اب تک عنایت فرمایا جاتا ہے پھر علمِ لدنی حاصل کرنے کی جستجو کے بارے میں بات کریں گے!!!
لدنی ہو یا علم نیت سب کا سب غیب کے علوم میں سے ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ کچھ تہمید غیب پر ہو جائے۔ غیبوں میں سب سے بڑھ کر غیب ھو کا ہے۔ بندوں کو یہ زیبا ہے کہ گفتگو میں ھو کی طرف یکسوئی رہے۔ یہی زندگی کا اصل ہے اور تمام تر غیوب کو جاننے کی کنجی۔ قرآن مجید میں ہے کہ
112:1 قل ھو اللہ احد۔ یعنی اللہ کی اصل حقیقت راز ھو ہے۔ یہ غیب ہے اور لامحدود ہے۔ اسی لیے اس پر صرف ایمان لایا جاسکتا ہے۔
2:3 جو غیب پر ایمان لاتے۔ علم لدنی ہو یا علم نیت ہو یہ سب غیب کے علوم ہیں۔ چاہے ھو ہو، زمین و آسمان کی کوئی شئے ہو، سرگوشی ہو، سینے میں چھپا راز ہو، خشکی و تری کی کوئی مخلوق ہو، پچھلی قوموں کے حالات ہوں یہ سب کے سب غیب ہیں اور اس لامحدود مسلسل بڑھتے اور تبدیل ہوتے غیب کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
27:65 فرمادیجیے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے۔ اللہ کسی خاص ضرورت کے تحت اس غیب کا کچھ حصہ کسی رسول پر کھولتا ہے تاکہ اللہ کی طرف ہدایت کرنے میں رسول کے معاون ہو۔
3:179 اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے چن لیتا ہے۔ پچھلی قوموں کے حالات ہوں یا دور دراز مقامات کی خبر ہو یہ وحی کے ذریعے اس رسول پر کھولی جاتیں ہیں۔
3:44 (اے محبوب ﷺ) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں۔ اسی لیے رسول ہمیشہ اس بات کو واضح کرتے رہے کہ وہ خزانے جو اللہ معین مقدار میں بغرض حکمت اتارتا رہتا ہے اور وہ غیب کہ جس سے اللہ بضرورت رسول کو مطلع کرتا رہتا ہے، رسول خود انکے مالک ہیں نہ ان پر مطلع۔
6:50 آپ (ﷺ) فرما دیجئے کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔ اللہ کے یہ سب خزانے مخصوص کنجیوں سے کھلتے ہیں اور ان کنجیوں کا علم اللہ کو ہے۔
6:59 اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
کفار کے جنگوں کی چالیں ہوں، خشکی اور تری کے فتنے ہوں، آسمانوں سے برسنے والی برکت ہو یا برسنے والے فتنے ہوں سب کے سب غیب ہیں۔ یہ ایک خاص مقدار میں ہیں اور خاص مقدار میں ہی اتارے جاتے ہیں تاکہ ھو کی طرف یکسوئی کرنے والے شہید، صالح یا صدیق بن جائیں۔ اللہ کی سب آیات اور سب صفات کا ظہور پوری شان سے برقرار رہے۔ تاکہ کافروں پر حجت رہے اور مومنین ھو کے راز میں منہمک رہیں۔ اگر کل غیب پر رسول ہر وقت مطلع رہتے تو رسول کل بھلائی کو حاصل کرتے اور کل سختی کو دور کرتے۔ یوں حجت تمام نہ ہوتی۔ اگر رسول کل غیب جاننے کے بعد بھی اپنے سے بھلائی کو جانے دیتے اور سختی کو آنے دیتے تو وہ انسان جیسے ہی نہ رہتے۔ انکا علم تو رب کی طرح ہوتا لیکن ذات میں وہ انسان ہوتے۔ یہ محال ہے۔ اسی لیے رسول غیب کے علم حاصل ہونے کی نفی کرتے رہے۔
7:188 مگر جس قدر اللہ نے چاہا، اور اگر میں (ﷺ) خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی سختی نہ پہنچتی۔ وہ تمسخر اڑانے والے لوگوں اور طنز کرتے افراد سے دل کو پہچنے والی سخت تکلیف کے باوجود فرما دیتے کہ غیب اللہ ہی کو زیبا ہے۔
10:20 غیب تو محض اللہ ہی کے لئے ہے، سو تم انتظار کرو میں (ﷺ) بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ انسان ہی نہیں جن اور فرشتے بھی غیب پر مطلع نہیں۔
34:14 پھر جب آپ (سلیمان علیہ السلام) کا جسم زمین پر آگیا تو جنّات پر ظاہر ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلّت انگیز عذاب میں نہ پڑے رہتے۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام جن کی پیدائش ہی کلمۃ اللہ سے ہے وہ بھی غیب جاننے کی نفی کرتے ہیں۔
5:116 اور میں (عیسیٰ علیہ السلام) ان کو نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہیں۔ بیشک تو ہی غیب کی سب باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ بلکہ تمام رسول غیب کا جاننا اللہ ہی کا حق تسلیم کرتے ہیں۔
5:109 جس دن اللہ تمام رسولوں کوجمع فرمائے گا پھر فرمائے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا تھا؟ وہ عرض کریں گے: ہمیں کچھ علم نہیں، بیشک تو ہی غیب کی سب باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔
نبی کے معنی غیب کی خبریں بتانے والا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت تک آنے والے واقعات سے تفصیلاً امت کو مطلع کیا لیکن ہمیشہ غیب ناجاننے کا اقرار کیا۔
11:31 اور میں (ﷺ) تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اﷲ کے خزانے ہیں اور نہ میں خود غیب جانتا ہوں۔ آپ ﷺ نے
احادیث دجال میں صورت سے لے کردجال کے ایک ایک شر سے تو متنبہ کیا لیکن غیب کی خبریں جاننے کی نفی کی۔ اور ان خبروں کا ذریعہ وحی بتایا۔
11:49 یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے قبل نہ آپ انہیں جانتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی
حدیث بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ سوال کرنے والے کو یہ مطلع کیا کہ اس کا باپ کو کون ہے لیکن غیب کی خبروں پر مطلع ہونے کی نفی کی۔
12:102 (اے حبیبِ مکرّم ﷺ) یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں، اور آپ (کوئی) ان کے پاس موجود نہ تھے۔
حدیث بخاری میں آپ ﷺ نے بلال حبشی کو آسمانوں میں انکے قدموں کی آہٹ سے تو مطلع کیا لیکن آسمانوں کے غیب سے مطلع ہونے کی نفی کرتے رہے۔
18:26 آسمانوں اور زمین کی (سب) پوشیدہ باتیں اسی کے علم میں ہیں۔
حدیث مسلم سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرشتوں کو دیکھتے لیکن ہمیشہ یہی فرمایا کہ اللہ ہی زمین و آسمان کے غیب جاننے والا ہے۔
35:38 بیشک اﷲ آسمانوں اور زمین کے غیب کو جاننے والا ہے، یقیناً وہ سینوں کی باتوں سے خوب واقف ہے۔
حدیث مسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت و دوزخ جو کہ غیب میں سے ہے اس دنیا کی دیوار پر رسول اللہ ﷺ کو دکھائی جاتیں لیکن آپ ﷺ یہی فرماتے کہ غیب کا جاننے والا اللہ ہے۔
72:26 غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا۔
حدیث مسلم سے اطلاع ملتی ہے کہ رسول اللہ ایک عام انسان کی شکل میں آئے فرشتے کو پہچانتے تھے اور لوگوں سے خوب کھول کھول کر یہ غیب بیان بھی کرتے۔
81:24 اور وہ (حبیبِ مکرّم ﷺ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں۔ اسی صحبت رسول ﷺ کی وجہ سے صحابہ میں یہ علم منتقل ہوا اور سنت رسول ﷺ کو جاری رکھنے کے لیے یہ سلسلہ آج تک امت میں جاری ہے۔
حدیث بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف دیکھ کر کسی کے کاہن ہونے کا پتہ لگا لیتے۔ بلکہ
حدیث بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ جو بھی سوال کرنے سے بچے گا اور صبر کرے گا وہ بھی غیب پر مطلع ہو جائے گا۔ عام مومنین کے صبر کی وجہ سے ان پرحق القاء ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً دور قریب کے لوگوں کی اچھی بری نیت، تحریر اور کلام میں کجی یا حق ہونا۔
34:48 فرما دیجئے: میرا رب حق کا القاء فرماتا ہے سب غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔
یہ نور اور نورانی کام والی باتیں میں بہت پیچھے چھوڑ چکا ہوں۔
سینہ اور نور کا تو تعلق ہے لیکن دماغ اور نور کا کوئی تعلق نہیں۔ دماغ نورانی نہیں ہوتا بلکہ سینہ نور پر ہو جاتا ہے۔
39:22 بھلا اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہوجاتا ہے۔ ذکر میں کوتاہی یا کمی کی وجہ سے چیزوں میں تضاد دکھائی دیتا ہے اور وہ گول مول دکھائی دینے لگتی ہیں۔ یہ وقت نور کمانے کا ہوتا ہے۔
39:22 پس اُن لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہو کر) سخت ہوگئے، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ خود اللہ عام لوگوں کی کوشش کے موافق ان کا سینہ کھول دیتا ہے۔
6:125 پس اﷲ جس کسی کو ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ فرما دیتا ہے۔ آپ ﷺ کا سینہ مبارک کفار کی باتوں سے تنگ ہوتا تھا۔
15:97 اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینۂ (اقدس) ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔ خود آپ ﷺ کے سینہ اقدس کو اللہ نے کشادہ فرمایا۔
94:1 کیا ہم نے آپ (ﷺ) کی خاطر آپ کا سینہ کشادہ نہیں فرما دیا۔ جبکہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سینے کی کشادگی کی دعا کی۔ یہاں سے بھی رسول اللہ ﷺ کی ایک فضیلت محبوبیت ظاہر ہوتی۔
20:25 (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے۔ ایک دفعہ سینہ کشادہ ہوجائے اور نور پر ہو جائے تو اس حالت کو برقرار رکھنے کے لیے کفر سے مسلسل حالت جنگ میں رہنا چاہیے تاکہ سینے کی بیماریوں سے شفاء رہے۔
9:14 تم ان سے جنگ کرو، اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور ان پر تمہاری مدد فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینوں کو شفا بخشے گا۔ جنگ کا طریقہ قرآنی ہونا چاہیے ورنہ شفاء کے بجائے بیماری ہو گی۔ قلب تنگ ہو گا۔ نور جاتا رہے گا۔
10:57 ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں۔
أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ
ترجمہ: کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہو جاتے جن سے کچھ سمجھتے ہوتے اور کان ایسے جن سے وہ سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، اندھے تو وہ دل ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ [الحج: 46]
صرف سیدنا خضر علیہ السلام کی تعلیم ہی سے نہیں بلکہ عام سفر سے بھی سینہ روشن ہوتا ہے لیکن دل سمجھنے والا ہونا چاہیے نہ کہ دماغ۔ قلب سخت ہو تو محض دماغ کے ساتھ سفر غفلت کا ہو گا۔ پھر کہتا ہوں کہ عقل سلیم کا مسکن قلب ہے نہ کہ دماغ۔ اس آیت میں بھی دل کا تعلق سمجھ سے بتایا گیا ہے نہ کہ دماغ کا۔
22:46 تو کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ ان کے دل (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ سمجھ سکتے یا کان (ایسے) ہو جاتے جن سے وہ (حق کی بات) سن سکتے، تو حقیقت یہ ہے کہ (ایسوں کی) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ دماغ محض کی عقل نکرہ ہے۔ جیسے کہ فرعون کی عقل۔ اسکا قلب سخت تھا۔ جب اس پر بات اچھی طرح واضح ہو گئی تو کہا کہ یہ موسیٰ ع تمہارا بڑا جادوگر ہے۔ عقل کی کارگزاری کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
26:49 بیشک یہ (موسٰی علیہ السلام) ہی تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ بعض لوگوں کو صحیح علم دیا جاتا ہے یہ رسولوں کے علاوہ ہیں۔
29:49 بلکہ وہ (قرآن ہی کی) واضح آیتیں ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں (محفوظ) ہیں جنہیں (صحیح) علم عطا کیا گیا ہے۔
میں نے غور کیا ہے کہ آپ بہت مغرور ہیں جبھی اتنی آسانی سے کبھی اپنے لئے نبی کی مثال دے دیتے ہیں یا پھر کسی کی نیت کا حال جان لیتے ہیں یا پھر کسی کے ایمان کے انجام کے بارے میں پیشنگوئی فرما دیتے ہیں!
حدیث مسلم سے اطلاع ملتی ہے کہ غرور یا گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق کرے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔ دلیل کے ساتھ آیت کے متعلق بحث بھی غرور نہیں۔
40:56 بے شک جو لوگ اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں بغیر کسی دلیل کے جو اُن کے پاس آئی ہو، ان کے سینوں میں سوائے غرور کے اور کچھ نہیں ہے وہ اُس (حقیقی برتری) تک پہنچنے والے ہی نہیں۔ پس آپ (ان کے شر سے) اللہ کی پناہ مانگتے رہئے، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
حدیث مسلم اور
سلسلہ احادیث صحیحہ سے پتہ چلتا ہے کہ ازرہ غرور کپڑے زمین پر لٹکا کر گھسیٹنے میں ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں کہ جو سلام میں پہل کرے، کسی کو گالی نہ دے، کسی نیکی کو حقیر و معمولی نہ سمجھے، اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملےاس میں غرور نہیں ہے۔ غرور کی
مثال بلند عمارتیں بنانا اور ان پر فخر کرنا ہے۔ اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ بعض لوگ شیاطین نما انسانوں کی صحبت اختیار کرتے ہیں۔ اسی کا اثر گفتگو میں بھی آجاتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔
114:5 جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔
اسکو بھی منطق سے حل کیجیے:
29:64 یہ دُنیا کی زندگی تو کھیل کود اور تماشے کے سوا کچھ نہیں.
21:16 ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل تماشے کے طور پرنہیں بنایا۔
ایک آیت میں زندگی کی بات ہو رہی ہے اور ایک آیت میں خدا کی عظیم تخلیق کے بارے میں خدائے رب العزت فرما رہے ہیں کہ ان کو بیکار نہیں بنایا ہے۔ کہاں تضاد نظر آرہا ہے آپ کو؟
جی یہی کہہ رہا تھا کہ قرآن میں کہیں تضاد نہیں۔ نہ ان آیات میں۔ لیکن عقل محض، دماغ اور منطق سے کلام الہی یا ھو کے بھید کو سمجھنے میں مشغول ہوئے تو اسکو بھی منطق سے تضاد ثابت کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی زندگی بھی تو زمین و آسمان کے درمیان کی ہی شئے ہے۔ اور وہ کھیل تماشا ہے۔ چنانچہ وہ زمین و آسمان سے باہر کی کوئی شئے ہے۔ کیونکہ زمین و آسمان کھیل و تماشا نہیں۔
میرا صوفیت پر بالکل بھی ایمان نہیں ہے! صوفیت کی بے شمار تباہ کاریاں سامنے آچکی ہیں! صوفیت کے ذریعے درِحقیقت عقیدہ توحید اور ختم نبوت پر حملے کیے جاتے ہیں، چور راستے مہیا کیے جاتے ہیں!!! ان چور راستوں کی بدولت اس خطے میں کئی فتنے سر اٹھا چکے ہیں جن میں قادیانیت سرِ فہرست ہے!!! قادیانیت بس تھوڑا سا کھلا ہوا ہے اور باقی سب ذرا ڈھکے چھپے رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن زیادہ فرق نہیں ہے !!! اس لئے میں صوفیت سے بہت دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں!!!
ایمان تو اللہ پر اس کے اسماء و صفات کے پر ہونا چاہیے۔ یا اس کے تمام احکامات پر، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں،یومِ آخرت، اللہ کی جانب سے اچھی بری تقدیر پر اور مرنے کے بعد جینے پر۔ یہ صوفیت کوئی ایمان لانے کی چیز نہیں ہے۔ کفار اسلام کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ انکا اسلام پر بالکل بھی ایمان نہیں ہے! اسلام کی بے شمار تباہ کاریاں سامنے آچکی ہیں! اسلام کے ذریعے درِحقیقت عقیدہ توحید اور نبوت پر حملے کیے جاتے ہیں، چور راستے مہیا کیے جاتے ہیں۔ اب جب کئی ہزار کتابیں دنیا میں اسطرح لکھ دی جائیں تو آپ سادگی میں اسلام کا چولا بھی اتار پھینکیے گا!
بات یہ ہے کہ ان کفار تک اسلام کی تعلیمات نہیں پہنچیں یا پھر اللہ کو انکی ہدایت مقصود نہیں ہے۔ وہ ہیں ہی شقی اور کفر کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ بہرحال مومنین کو نصیحت فائدہ دیتی ہے۔
اسود عسنی اور مسلیمہ کذاب برصغیر میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ وہ اس دور اور ان ممالک کے ہیں جہاں ہدایت زیادہ عام تھی۔ یہ جھوٹے نبی ہونے کے دعویٰ سخت شقی ہونے سے ہے۔ اللہ کی مرضی ہے کہ جس خطے اور جہاں چاہے پیدا کرے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں جو سکہ زیادہ چلتا ہے وہاں ہی کھوٹے سکے پیدا ہوتے ہیں۔ اسود عسنی اور مسلیمہ کذاب عرب شریف کے علاقوں کے ہیں جہاں نبی کی بات سنی اور مانی جاتی تھی۔ غلام احمد برصغیر کا ہے جو اولیاء اللہ کا مسکن رہا ہے جو توحید کی تفصیل بیان کرتے۔ پچھلی صدی میں اسلامی تزکیہ کا سب سے بڑا مرکز ہند ہی تھا۔ اور تزکیہ قرآن کا ہی شعبہ ہے۔
2:129 انہی میں سے رسول (ﷺ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دےاور ان کو خوب پاک صاف کر دے۔ یہ خوب پاک کر دینا بھی تو امت میں کسی کا کام ہونا چاہیے؟ یا یہ بند کردیں؟ آپ کہیں تو یہ آیت کا کتاب و حکمت کی تعلیم کا حصہ جاری رکھتے ہیں اور تزکیہ والا حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا اثر وہی ہو گا جو اس سے قبل کئی بار کہا چکا ہے کہ دماغ کی منطق، علم کلام، فلسفہ کو خوب ترقی ملے گی۔ بری طبعیتوں کو انہی میں مزہ آئے گا۔ قلب تاریک اپنے اپنے طور سے جس قدر چاہیں گے حق پر نقب لگائیں گے۔ دلیل فرعونی ہو جائے گی کہ ہادی کو گمراہ کہا جائے گا۔
26:49 بیشک یہ (موسٰی علیہ السلام) ہی تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔
آپ صرف مثال سے سمجھا دیجئے کہ مثال کے طور پر کوئی زنا کرتے ہوئے ڈرتا ہے تو اس کا الٹ کیا کرنا ہوگا کہ اس کا خوف جو کسی کتاب یا عالم کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ختم ہو جائے؟؟؟ کیا کرنا ہوگا تفصیل سے بیان فرما دیجئے!!! کیا ادھر ادھر "گہری" نظریں صنف مخالف پر ڈالنے سے کام چل جائے گا یا پھر غور و فکر کرنا پڑے گا کہ کس میں "کتنا" اور "کیسا" حسن ہے یا ہے بھی یا نہیں؟؟؟
اب اس ساری گفتگو کو سمجھنے کے لیے یہی مثال لے لیں۔ بات شریعت کے اندر رہ کر سفر کرنے کی ہو رہی ہے اور یہاں زنا اور دیگر گناہوں میں تطبیق پیدا کرنے کو کہا جا رہا ہے جو کہ ایک عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ شریعت سے باہر ہیں۔ منطق محض سے عقل سلیم نہیں عقل نکرہ پیدا ہوتی ہے۔ ایسی عقل جو دن و رات قلب کو تاریک سے تاریک تر کرتی ہے۔
بھائی صاحب مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی کسی کو کافر، مشرک، ملحد، منافق، قادیانی، ڈیوڈ وغیرہ کہا ہو۔ بلکہ یہ تو آپ ہی اکثر دوسروں کے لئے فرماتے رہتے ہیں!!! مجھے تو جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ بول دیتا ہوں۔ پھر آپ کو کس بات سے میری دکھ پہنچا ہے؟؟؟
مجھے تو جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ بول دیتا ہوں۔
آپ اس سے ہی ذرا تکلیف موسیٰ علیہ السلام کا اندازہ لگائیں۔
2:67 (تو) وہ بولے: کیا آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں؟ 2:68 آپ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہم پر واضح کر دے۔ اب تعمیل کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔
2:69 وہ (پھر) بولے: اپنے رب سے ہمارے حق میں دعا کریں وہ ہمارے لئے واضح کر دے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ 2:70 وہ کون سی گائے ہے؟ (کیونکہ) ہم پر گائے مشتبہ ہو گئی ہے۔ 2:71 پھر انہوں نے اس کو ذبح کیا حالانکہ وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔
انسان کے دماغ سوالات سر اٹھاتے ہیں کیاملسمان کیا غیر مسلمان کیا ملحد لیکن ھیرت اس بات پر ہے کہ آپ خود کو بہت مذہبی ظاہر کرتے رہے ہیں اور آپ یہ سب کہہ رہے ہیں اور وہ بھی ایسے جیسے آپ کی بات حرفِ آخر ہو!!! آج آپ نے بہت مایوس کیا صاحب! آپ سے یہ امید نہیں تھی!!!
کیا کر رہے ہیں صاحب آپ؟؟؟؟ کس حد تک جائیں گے؟؟؟ ہوش میں آجائیں!!! زبردستی قرآن میں تضاد دکھانا چاہ رہے ہیں!!! خدا آپ پر رحم فرمائے۔ آج تو آپ نے بہت ہی مایوس کیا!!!
اسی لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ کسی کی تعلیمات پر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کرنا چاہئے۔ اپنی عقل استعمال کرنی چاہئے اور تحقیق جاری رکھنی چاہئیے!!! شرکاء محفل دیکھ لیں کہ یہاں کیا ہوا ہے! خدارا کسی کے کہے پر آنکھ بند کر کے یقین نہ کریں اور اگر کچھ سمجھ نہ آئے یا کچھ غلط محسوس ہو تو کسی دوسرے صاحبِ علم سے رجوع کرنے سے ہرگز نہ کترائیں!
بہت سے ہندووں، عیسائیوں اور یہودیوں سے بات کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ انکے فلاسفہ کا طریقہ بھی یہی ہے جو کہ طریقہ محمدی ﷺ کی ضد ہے۔ ان میں اکثر یونہی بات کرتے
2:67 (تو) وہ بولے: کیا آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں؟ 2:68
آپ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہم پر واضح کر دے۔ اب تعمیل کرو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ 2:69
وہ (پھر) بولے: اپنے رب سے ہمارے حق میں دعا کریں وہ ہمارے لئے واضح کر دے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ 2:70
وہ کون سی گائے ہے؟ (کیونکہ) ہم پر گائے مشتبہ ہو گئی ہے۔ 2:71
پھر انہوں نے اس کو ذبح کیا حالانکہ وہ ذبح کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔
دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں عقل سلیم اور قلب سلیم عطا فرمائے تاکہ ہم اللہ کے بھید کو جاننے میں مشغول ہوں۔ آمین