فرضی
محفلین
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صوفی محمد کورہا کردیا گیا ہے اور حکومت اور صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے درمیان چھ نکاتی معاہدہ طے پایا ہے۔ کیا اب یہ امید کی جاسکتی ہے کہ سرحد خصوصی طور پر اور پورا ملک بالعموم امن کی طرف لوٹ رہا ہے؟
بشکریہ بی بی سی اردو
رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ تحریک نفاذ شریعت محمدی مالاکنڈ ڈویژن کے نمائندہ جرگہ نے حکومت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ تحریک کا کوئی رکن عسکریت پسندی کی کارروائی کا حصہ نہیں بنےگا بصورت دیگر حکومت کوامن وامان کے قیام اور حکومتی عمل داری کے لیے مناسب اقدامات کا حق حاصل ہوگا۔
صوفی محمد کو رہا کر دیا گیا
سرحد حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس وقت ملک و قوم کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان سے نبرد آزما ہونے کےلیے تمام سیاسی اور مذہبی قوتوں کو متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بیان کے مطابق حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مابین درجہ ذیل نکات پر امن معاہدہ طے پاگیا ہے۔
1) شریعت محمدی کے نفاذ کےلیے پرامن جدوجہد ہر مسلمان کا حق ہے اور تنظیم اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ شریعت کے نفاذ کےلیے پرامن جدوجہد جاری رکھے گا۔
2) تنظیم حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں کے مکمل احترام کا اعادہ کرتی ہے تاکہ مالاکنڈ ڈویژن میں بالخصوص اور صوبہ سرحد میں مکمل طور پر پرامن ماحول اور عمل داری قائم ہوسکے۔
3) وہ تمام عناصر جو حکومت ، ریاست، ریاستی اداروں یعنی فوج، پولیس اور دیگرا ہلکاروں اور املاک پر حملوں کے مرتکب رہے ہیں یا ہو رہے ہیں ان کا تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ایسے تمام شرپسندوں عناصر کی تنظیم پ زور الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پولیس اہلکار، فوجی یا دیگر سرکاری اہلکار ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور ان کے خلاف کارروائی شریعت اور اسلام کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
4) تحریک نفاذ شریعت محمدی اعلان کرتی ہے کہ شریعت کے نفاذ کےلیے پرامن تبلیغ اور باہم مشاروت و مذاکرات کی ضرورت ہے اور شریعت کے نفاذ پرامن تبلیغ اور باہم مشاورت و مذاکرات کی ضرورت ہے اور شریعت کے نفاذ کےلیے امن و محبت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔
5) تمام مکاتب فکر کا فرض بنتا ہے کہ وہ شرپسندوں کے خلاف حکومت کی عمل داری اور امن قائم کرنے میں پوار پوار تعاون کریں تاکہ عام شہریوں کے جان ومال محفوظ ہوں۔
6) مستقل امن کی بحالی، امن عامہ قائم کرنےاور شہریوں کے تحفظ کےلیے حکومت سرحد ، سرکاری اداروں اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔
آخر میں فریقین اعلان کرتے ہیں کہ وہ حکومت کی عملداری اور امن چاہتے ہیں اور جو لوگ بدامنی پر تلے ہوئے ہیں ان کو مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام اور احترام کرنے پر راضی کریں گے۔ اگر وہ شرپسندی سے باز نہ آئے تو حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے کی مجاز ہوگی۔
بیان کے مطابق حکومت کی جانب سے جرگہ میں اے این پی کے صوبائی صدر افرسیاب خٹک، سنئیر صوبائی وزراء بشیر احمد بلور، رحیم داد خان اور وزیر ماحولیات واجد علی خان شامل تھے جبکہ تحریک کی طرف سے مولانا محمد عالم، مولانا عبد الحق، مولانا بادشاہ زیب، مولانا سمیع اللہ، مولانا سالارخان، ڈاکٹر اسمعیل، سیف الملوک اور ملتان میر شامل تھے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ تحریک نفاذ شریعت محمدی مالاکنڈ ڈویژن کے نمائندہ جرگہ نے حکومت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ تحریک کا کوئی رکن عسکریت پسندی کی کارروائی کا حصہ نہیں بنےگا بصورت دیگر حکومت کوامن وامان کے قیام اور حکومتی عمل داری کے لیے مناسب اقدامات کا حق حاصل ہوگا۔
صوفی محمد کو رہا کر دیا گیا
سرحد حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس وقت ملک و قوم کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان سے نبرد آزما ہونے کےلیے تمام سیاسی اور مذہبی قوتوں کو متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بیان کے مطابق حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مابین درجہ ذیل نکات پر امن معاہدہ طے پاگیا ہے۔
1) شریعت محمدی کے نفاذ کےلیے پرامن جدوجہد ہر مسلمان کا حق ہے اور تنظیم اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ شریعت کے نفاذ کےلیے پرامن جدوجہد جاری رکھے گا۔
2) تنظیم حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں کے مکمل احترام کا اعادہ کرتی ہے تاکہ مالاکنڈ ڈویژن میں بالخصوص اور صوبہ سرحد میں مکمل طور پر پرامن ماحول اور عمل داری قائم ہوسکے۔
3) وہ تمام عناصر جو حکومت ، ریاست، ریاستی اداروں یعنی فوج، پولیس اور دیگرا ہلکاروں اور املاک پر حملوں کے مرتکب رہے ہیں یا ہو رہے ہیں ان کا تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ایسے تمام شرپسندوں عناصر کی تنظیم پ زور الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پولیس اہلکار، فوجی یا دیگر سرکاری اہلکار ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور ان کے خلاف کارروائی شریعت اور اسلام کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
4) تحریک نفاذ شریعت محمدی اعلان کرتی ہے کہ شریعت کے نفاذ کےلیے پرامن تبلیغ اور باہم مشاروت و مذاکرات کی ضرورت ہے اور شریعت کے نفاذ پرامن تبلیغ اور باہم مشاورت و مذاکرات کی ضرورت ہے اور شریعت کے نفاذ کےلیے امن و محبت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔
5) تمام مکاتب فکر کا فرض بنتا ہے کہ وہ شرپسندوں کے خلاف حکومت کی عمل داری اور امن قائم کرنے میں پوار پوار تعاون کریں تاکہ عام شہریوں کے جان ومال محفوظ ہوں۔
6) مستقل امن کی بحالی، امن عامہ قائم کرنےاور شہریوں کے تحفظ کےلیے حکومت سرحد ، سرکاری اداروں اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔
آخر میں فریقین اعلان کرتے ہیں کہ وہ حکومت کی عملداری اور امن چاہتے ہیں اور جو لوگ بدامنی پر تلے ہوئے ہیں ان کو مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام اور احترام کرنے پر راضی کریں گے۔ اگر وہ شرپسندی سے باز نہ آئے تو حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے کی مجاز ہوگی۔
بیان کے مطابق حکومت کی جانب سے جرگہ میں اے این پی کے صوبائی صدر افرسیاب خٹک، سنئیر صوبائی وزراء بشیر احمد بلور، رحیم داد خان اور وزیر ماحولیات واجد علی خان شامل تھے جبکہ تحریک کی طرف سے مولانا محمد عالم، مولانا عبد الحق، مولانا بادشاہ زیب، مولانا سمیع اللہ، مولانا سالارخان، ڈاکٹر اسمعیل، سیف الملوک اور ملتان میر شامل تھے۔