سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 12 اکتوبر 2014
شراب ام الخبائث ہے۔ یہ دماغ میں فتور پیدا کرتی ہے، عقل و خرد کو قتل کر دیتی ہے، ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیتی ہے، برے بھلے کی تمیز مٹا دیتی ہے۔ اسلام ہی میں نہیں عیسائیت اوریہودییت میں بھی اس کا استعمال قطعی حرام ہے۔ نصف صدی پہلے ایک جرمن ڈاکٹر نے یہ بات کہی تھی۔ "تم شراب کی آدھی دکانیں بند کر دو تو میں تمہیں آدھے ہسپتال، جرائم کے اڈے اور جیلوں کے بند ہو جانے کی ضمانت دیتا ہوں"۔
کراچی میں غیرمعیاری یا زہریلی شراب پینے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد29ہوگئی، 26 اب بھی موت سے لڑرہے ہیں جن میں سے پانچ کے گردئے فیل ہوچکے ہیں۔ حسب دستورمختلف تھانوں میں 13مقدمات درج کرلیے گئے اور کچھ پولیس افسران کو معطل کردیاہے، ایک نام نہاد انکوائری کے بعد سب کو ایماندار قرار دئے دیا جائے گا اور یہ سب تازہ دم ہوکر واپس اپنے اپنے آفس میں موجود ہونگے۔ کراچی یا پاکستان میں زہریلی شراب سے ہلاکتوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ جس پر احتجاج کیا جائے، اس سے پہلے بھی مختلف واقعات میں درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔اس سال دس جنوری کو حیدرآباد میں چار افراد، جون کے مہینےمیں کراچی کے علاقے لانڈھی میں تین افراد اوراٹھارہ جولائی کو کلفٹن کے علاقے میں ایک فرد، جبکہ کچھ سال قبل ماہ رمضان میں پولیس اہلکاروں سمیت29افراد زہریلی شراب پینے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ ان مسلسل واقعات کےباوجود ان واقعات کو روکنے کے بجائے پولیس، ایکسائز یا دوسرئے اداروں نے زہریلی شراب فروخت کرنے والے کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، پولیس اور دوسرئے ادارئے ان اڈوں سے ہفتہ وار ہزاروں روپے بھتہ وصول کرتے ہیں اور یہ رقم حسب مراتب اعلی افسران سے لیکر چھوٹے اہلکاروں تک تقسیم ہوتی ہے۔ یہاں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ زہریلی شراب پی کرمرنے والے زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں،اور اس زہریلی شراب کو فروخت کرنے کے اڈئے بھی غریب علاقوں میں ہیں۔ دہشت گردی اورقدرتی آفات کی طرح غیرمعیاری زہریلی شراب سے بھی غریب ہی مرتا ہے کیونکہ امیر کوغیرمعیاری اورسستی شراب پینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
پاکستان میں شراب نوشی پر پابندی کے باوجود بھی ہر سال شراب نوشی کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر مہر اعجاز کی ایک ریسرچ جو چار قسطوںمیں شایع ہوئی ہے، اُسکے مطابق "پاکستان دنیا کے چھپن اسلامی ممالک میں واحدملک ہے جہاں شراب بنانے کی تو قانونی طور پر اجازت ہے لیکن مسلمان شہریوں پر شراب نوشی پر پابندی عائد ہے۔ پاکستان میں شراب بنانے والی تین فیکٹریاں ہیں اور ملکی آبادی کے تین فیصد یا پچاس لاکھ غیر مسلم شہریوں کو سرکار کے جاری کردہ پرمٹ کے تحت شراب فروخت کرنے کی اجازت ہے۔ راولپنڈی میں واقع "مری بروری" کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر اِسفنیار ایم بھنڈارا سے جب پاکستان میں شراب کی مانگ اور شراب نوشی کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا کہ "پاکستان میں شراب نوشی کرنے والوں کی درست تعداد تو معلوم نہیں لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں شراب کی جتنی مانگ ہے وہ پوری کرنے کے لیےاگر شراب بنانے والے کارخانے چوبیس گھنٹے چلتے رہیں تو بھی مانگ پوری نہیں کی جاسکتی اورہر سال شراب کی مانگ میں کافی اضافہ ہوتا جا رہا ہے"۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں غیر ملکی شراب جو اسمگل ہوکر آتی ہے یا ملک کے اندر غیر قانونی اور دیسی طریقے سےتیار ہوتی ہے اس کی مقدار بہت زیادہ ہے اور اگر حکومت اس کی روک تھام کرے یا اس پرٹیکس لگائے تو ہر سال حکومت کو اربوں روپے کی آمدن ہوسکتی ہے۔ اُن کے مطابق دیسی طریقےسے تیار کردہ غیرمعیاری شراب زہریلی ہوتی ہے جس سے ہر سال سینکڑوں لوگ مر جاتے ہیں"۔
مہراعجاز کی ریسرچ کے مطابق "مری بروری کے مالک اسفنیار بھنڈارا کہتے ہیں کہ پاکستان میں جتنی مقدار میں قانونی طور پر شراب بنائی جاتی ہے تقریبا اتنی ہی تعداد میں اسمگل شدہ اور دیسی طریقے سے غیر قانونی طور پر شراب بنائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق دیسی طریقےسے تیار کردہ غیرمعیاری شراب سے ہر سال کئی لوگ موت کا شکار ہوتے ہیں جبکہ متعدد لوگ بینائی بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ " حکومت اگر اسمگل شدہ شراب غیر قانونی طور پر تیار کردہ شراب کو روکنے کے اقدامات کرے تو ایک طرف حکومت کو اربوں روپے کی آمدن ہوسکتی ہے تو دوسری طرف ملک میں غیر معیاری اور خطرناک شراب کی پیداوار کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے"۔الکوحل کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ایک بڑے معالج ڈاکٹر صداقت علی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ کے قریب لوگ شراب نوشی کرتے ہیں۔ صداقت علی تیس برسوں سے شراب سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج کر رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "لوگ چھپ چھپا کرپیتے ہیں اس لیے تعداد کا درست اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ شراب نوشی کرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر صداقت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شراب پر پابندی ہے جس کیوجہ سے نچلے طبقے کے لوگ چرس اور دیگر منشیات استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منشیات اور بالخصوص ہیروئن کے خلاف آگہی کی مہم کی وجہ سے لوگوں میں شراب نوشی کا رجحان بڑھ رہا ہے"۔
اقلیتوں کے لئے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کی عیسائی ممبر آسیہ ناصر کی جانب سے غیر مسلموں پر بھی شراب نوشی کی پابندی کے لئے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیاتھا جو مسترد ہو گیا ۔ اس بل کے سلسلےمیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی آسیہ ناصر کو چار دوسرے اقلیتی ممبران، اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی اور درجن کے قریب دوسرئے ممبران کی حمایت حاصل تھی۔ بل کے مسترد ہونے پر آسیہ کا کہنا تھا کہ "میں اپنے موقف پر سختی سے قائم ہوں اور دوبارہ ایک ترمیم شدہ بل اسمبلی میں پیش کروں گی۔" جبکہ دوسری طرف قانونی معاملات پر قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کا موقف یہ تھا کہ"اس طرح کے قوانین ملک کی بدنامی کا باعث بنیں گے۔" یہ دونوں موقف اور بیانات اس منافقت کے غماز ہیں جو اس معاشرے کی اخلاقیات، اقدار اور ثقافت میں رچ بس چکی ہے۔ بل کی مخالفت کرنےوالے کئی ممبران پارلیمنٹ کو قتل کی دھمکیاں بھی دی گیں۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے 1970ء میں لاہور میں لاکھوں کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ببانگ دہل کہا تھا:''ہاں میں شراب پیتا ہوں، غریبوں اور مظلوموں کا خون نہیں پیتا۔‘‘ جلسہ تالیوں اورنعروں سے گونج اٹھا تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں ہی کراچی کے علاقے لیاری میں غیرمعیاری یا زہریلی شراب پینے سے 25 افراد ہلاک ہوگے، پیپلز پارٹی کراچی کے مرکزی آفس میں مرنے والوں کےلیے ایک تعزیتی اجلاس ہوا۔اس اجلاس میں کچھ وزیر، کچھ ایم این ائے اور ایم پی ائے بھی موجود تھے۔ اجلاس کے دوران ایک ایم این ائے نے کہا کہ شرابیوں کےلیے فاتحہ خوانی کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے، اور بھی شرکا کی طرف سے اعتراض شروع ہوگے ۔ اجلاس میں موجود اُس وقت کے کراچی پیپلز پارٹی کےجنرل سیکریٹری عبدالسلام اختر نے تمام شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ میں سے بہت سوں نے میرئے ساتھ بیٹھ کرشراب پی ہے، کیاآپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کل جب آپ مرجایں تو آپ کی فاتحہ خوانی نہ کی جائے، بہتر ہوگا کہ ہم اس اجلاس میں حکومت سےمطالبہ کریں کہ معیاری شراب کی قیمت کم کیجائے تاکہ غریب شرابی بھی خرید سکےاور غیرمعیاری یا زہریلی شراب پینے سے بچ سکے۔ لیکن یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ1977ء میں پی این ائے کی تحریک کو ختم کرنے کےلیے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں جمعہ کی چھٹی اورشراب پر پابندی عائد کی تھی۔ جمعہ کی چھٹی تو نواز شریف نے پہلے ہی ختم کر دی ہے لیکن ابھی شراب پر نام نہاد پابندی باقی ہے۔
پاکستان جہاں کرپشن کا راج ہے اورایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے اسمبلی اجلاس کے دوران پارلیمنٹ لاجز میں رہنے والے ارکان اسمبلی پرکروڑوں روپے کی شراب پارلیمنٹ لاجز میں لانے کا الزام لگاتے ہوئے یہ بتایا کہ لاجز میں مقیم ارکان قومی اسمبلی پارلیمنٹ لاجز میں ماہوار چارسے پانچ کروڑ روپے کی شراب پی جاتے ہیں، وہاں یہ امید رکھنا کہ شراب پر مکمل پابندی لگائی جاسکتی ہے ناممکن ہے۔ اس ملک کے حکمران اور امیر طبقات جن کو شراب پینے کی عادت ہے وہ دنیا کی مہنگی اور اعلیٰ ترین شراب نوش کرتےہیں اسلیے انہیں کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ اُن غریب شرابیوں کو ہے جو مہنگی معیاری شراب نہیں خرید سکتے اور اس عادت کو چھوڑ بھی نہیں سکتے، وہ غیرمعیاری یا زہریلی شراب پینے سے ہلاک ہوجاتے ہیں، لہذا حکومت کو چاہیے کہ دیسی طریقے سے تیار کردہ غیرمعیاری شراب کی تیاری کوروکے، حکومت معیاری شراب کوسستا کرئے، تاکہ غریب شرابی غیرمعیاری اورزہریلی شراب سے بچ سکیں دوسری طرف ناگہانی اموات سے حکومت کی جو بدنامی ہوتی ہے وہ اُس سے بچ سکے گئی۔
حکومت معیاری شراب کوسستا کرئے
تحریر: سید انور محمودشراب ام الخبائث ہے۔ یہ دماغ میں فتور پیدا کرتی ہے، عقل و خرد کو قتل کر دیتی ہے، ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیتی ہے، برے بھلے کی تمیز مٹا دیتی ہے۔ اسلام ہی میں نہیں عیسائیت اوریہودییت میں بھی اس کا استعمال قطعی حرام ہے۔ نصف صدی پہلے ایک جرمن ڈاکٹر نے یہ بات کہی تھی۔ "تم شراب کی آدھی دکانیں بند کر دو تو میں تمہیں آدھے ہسپتال، جرائم کے اڈے اور جیلوں کے بند ہو جانے کی ضمانت دیتا ہوں"۔
کراچی میں غیرمعیاری یا زہریلی شراب پینے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد29ہوگئی، 26 اب بھی موت سے لڑرہے ہیں جن میں سے پانچ کے گردئے فیل ہوچکے ہیں۔ حسب دستورمختلف تھانوں میں 13مقدمات درج کرلیے گئے اور کچھ پولیس افسران کو معطل کردیاہے، ایک نام نہاد انکوائری کے بعد سب کو ایماندار قرار دئے دیا جائے گا اور یہ سب تازہ دم ہوکر واپس اپنے اپنے آفس میں موجود ہونگے۔ کراچی یا پاکستان میں زہریلی شراب سے ہلاکتوں کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ جس پر احتجاج کیا جائے، اس سے پہلے بھی مختلف واقعات میں درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔اس سال دس جنوری کو حیدرآباد میں چار افراد، جون کے مہینےمیں کراچی کے علاقے لانڈھی میں تین افراد اوراٹھارہ جولائی کو کلفٹن کے علاقے میں ایک فرد، جبکہ کچھ سال قبل ماہ رمضان میں پولیس اہلکاروں سمیت29افراد زہریلی شراب پینے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ ان مسلسل واقعات کےباوجود ان واقعات کو روکنے کے بجائے پولیس، ایکسائز یا دوسرئے اداروں نے زہریلی شراب فروخت کرنے والے کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، پولیس اور دوسرئے ادارئے ان اڈوں سے ہفتہ وار ہزاروں روپے بھتہ وصول کرتے ہیں اور یہ رقم حسب مراتب اعلی افسران سے لیکر چھوٹے اہلکاروں تک تقسیم ہوتی ہے۔ یہاں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ زہریلی شراب پی کرمرنے والے زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں،اور اس زہریلی شراب کو فروخت کرنے کے اڈئے بھی غریب علاقوں میں ہیں۔ دہشت گردی اورقدرتی آفات کی طرح غیرمعیاری زہریلی شراب سے بھی غریب ہی مرتا ہے کیونکہ امیر کوغیرمعیاری اورسستی شراب پینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
پاکستان میں شراب نوشی پر پابندی کے باوجود بھی ہر سال شراب نوشی کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر مہر اعجاز کی ایک ریسرچ جو چار قسطوںمیں شایع ہوئی ہے، اُسکے مطابق "پاکستان دنیا کے چھپن اسلامی ممالک میں واحدملک ہے جہاں شراب بنانے کی تو قانونی طور پر اجازت ہے لیکن مسلمان شہریوں پر شراب نوشی پر پابندی عائد ہے۔ پاکستان میں شراب بنانے والی تین فیکٹریاں ہیں اور ملکی آبادی کے تین فیصد یا پچاس لاکھ غیر مسلم شہریوں کو سرکار کے جاری کردہ پرمٹ کے تحت شراب فروخت کرنے کی اجازت ہے۔ راولپنڈی میں واقع "مری بروری" کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر اِسفنیار ایم بھنڈارا سے جب پاکستان میں شراب کی مانگ اور شراب نوشی کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا کہ "پاکستان میں شراب نوشی کرنے والوں کی درست تعداد تو معلوم نہیں لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں شراب کی جتنی مانگ ہے وہ پوری کرنے کے لیےاگر شراب بنانے والے کارخانے چوبیس گھنٹے چلتے رہیں تو بھی مانگ پوری نہیں کی جاسکتی اورہر سال شراب کی مانگ میں کافی اضافہ ہوتا جا رہا ہے"۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں غیر ملکی شراب جو اسمگل ہوکر آتی ہے یا ملک کے اندر غیر قانونی اور دیسی طریقے سےتیار ہوتی ہے اس کی مقدار بہت زیادہ ہے اور اگر حکومت اس کی روک تھام کرے یا اس پرٹیکس لگائے تو ہر سال حکومت کو اربوں روپے کی آمدن ہوسکتی ہے۔ اُن کے مطابق دیسی طریقےسے تیار کردہ غیرمعیاری شراب زہریلی ہوتی ہے جس سے ہر سال سینکڑوں لوگ مر جاتے ہیں"۔
مہراعجاز کی ریسرچ کے مطابق "مری بروری کے مالک اسفنیار بھنڈارا کہتے ہیں کہ پاکستان میں جتنی مقدار میں قانونی طور پر شراب بنائی جاتی ہے تقریبا اتنی ہی تعداد میں اسمگل شدہ اور دیسی طریقے سے غیر قانونی طور پر شراب بنائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق دیسی طریقےسے تیار کردہ غیرمعیاری شراب سے ہر سال کئی لوگ موت کا شکار ہوتے ہیں جبکہ متعدد لوگ بینائی بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ " حکومت اگر اسمگل شدہ شراب غیر قانونی طور پر تیار کردہ شراب کو روکنے کے اقدامات کرے تو ایک طرف حکومت کو اربوں روپے کی آمدن ہوسکتی ہے تو دوسری طرف ملک میں غیر معیاری اور خطرناک شراب کی پیداوار کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے"۔الکوحل کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ایک بڑے معالج ڈاکٹر صداقت علی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ کے قریب لوگ شراب نوشی کرتے ہیں۔ صداقت علی تیس برسوں سے شراب سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج کر رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "لوگ چھپ چھپا کرپیتے ہیں اس لیے تعداد کا درست اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ شراب نوشی کرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر صداقت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شراب پر پابندی ہے جس کیوجہ سے نچلے طبقے کے لوگ چرس اور دیگر منشیات استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منشیات اور بالخصوص ہیروئن کے خلاف آگہی کی مہم کی وجہ سے لوگوں میں شراب نوشی کا رجحان بڑھ رہا ہے"۔
اقلیتوں کے لئے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کی عیسائی ممبر آسیہ ناصر کی جانب سے غیر مسلموں پر بھی شراب نوشی کی پابندی کے لئے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیاتھا جو مسترد ہو گیا ۔ اس بل کے سلسلےمیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی آسیہ ناصر کو چار دوسرے اقلیتی ممبران، اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی اور درجن کے قریب دوسرئے ممبران کی حمایت حاصل تھی۔ بل کے مسترد ہونے پر آسیہ کا کہنا تھا کہ "میں اپنے موقف پر سختی سے قائم ہوں اور دوبارہ ایک ترمیم شدہ بل اسمبلی میں پیش کروں گی۔" جبکہ دوسری طرف قانونی معاملات پر قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کا موقف یہ تھا کہ"اس طرح کے قوانین ملک کی بدنامی کا باعث بنیں گے۔" یہ دونوں موقف اور بیانات اس منافقت کے غماز ہیں جو اس معاشرے کی اخلاقیات، اقدار اور ثقافت میں رچ بس چکی ہے۔ بل کی مخالفت کرنےوالے کئی ممبران پارلیمنٹ کو قتل کی دھمکیاں بھی دی گیں۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے 1970ء میں لاہور میں لاکھوں کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ببانگ دہل کہا تھا:''ہاں میں شراب پیتا ہوں، غریبوں اور مظلوموں کا خون نہیں پیتا۔‘‘ جلسہ تالیوں اورنعروں سے گونج اٹھا تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں ہی کراچی کے علاقے لیاری میں غیرمعیاری یا زہریلی شراب پینے سے 25 افراد ہلاک ہوگے، پیپلز پارٹی کراچی کے مرکزی آفس میں مرنے والوں کےلیے ایک تعزیتی اجلاس ہوا۔اس اجلاس میں کچھ وزیر، کچھ ایم این ائے اور ایم پی ائے بھی موجود تھے۔ اجلاس کے دوران ایک ایم این ائے نے کہا کہ شرابیوں کےلیے فاتحہ خوانی کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے، اور بھی شرکا کی طرف سے اعتراض شروع ہوگے ۔ اجلاس میں موجود اُس وقت کے کراچی پیپلز پارٹی کےجنرل سیکریٹری عبدالسلام اختر نے تمام شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ میں سے بہت سوں نے میرئے ساتھ بیٹھ کرشراب پی ہے، کیاآپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کل جب آپ مرجایں تو آپ کی فاتحہ خوانی نہ کی جائے، بہتر ہوگا کہ ہم اس اجلاس میں حکومت سےمطالبہ کریں کہ معیاری شراب کی قیمت کم کیجائے تاکہ غریب شرابی بھی خرید سکےاور غیرمعیاری یا زہریلی شراب پینے سے بچ سکے۔ لیکن یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ1977ء میں پی این ائے کی تحریک کو ختم کرنے کےلیے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں جمعہ کی چھٹی اورشراب پر پابندی عائد کی تھی۔ جمعہ کی چھٹی تو نواز شریف نے پہلے ہی ختم کر دی ہے لیکن ابھی شراب پر نام نہاد پابندی باقی ہے۔
پاکستان جہاں کرپشن کا راج ہے اورایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے اسمبلی اجلاس کے دوران پارلیمنٹ لاجز میں رہنے والے ارکان اسمبلی پرکروڑوں روپے کی شراب پارلیمنٹ لاجز میں لانے کا الزام لگاتے ہوئے یہ بتایا کہ لاجز میں مقیم ارکان قومی اسمبلی پارلیمنٹ لاجز میں ماہوار چارسے پانچ کروڑ روپے کی شراب پی جاتے ہیں، وہاں یہ امید رکھنا کہ شراب پر مکمل پابندی لگائی جاسکتی ہے ناممکن ہے۔ اس ملک کے حکمران اور امیر طبقات جن کو شراب پینے کی عادت ہے وہ دنیا کی مہنگی اور اعلیٰ ترین شراب نوش کرتےہیں اسلیے انہیں کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ اُن غریب شرابیوں کو ہے جو مہنگی معیاری شراب نہیں خرید سکتے اور اس عادت کو چھوڑ بھی نہیں سکتے، وہ غیرمعیاری یا زہریلی شراب پینے سے ہلاک ہوجاتے ہیں، لہذا حکومت کو چاہیے کہ دیسی طریقے سے تیار کردہ غیرمعیاری شراب کی تیاری کوروکے، حکومت معیاری شراب کوسستا کرئے، تاکہ غریب شرابی غیرمعیاری اورزہریلی شراب سے بچ سکیں دوسری طرف ناگہانی اموات سے حکومت کی جو بدنامی ہوتی ہے وہ اُس سے بچ سکے گئی۔