حکیمی غزل

بےباک

محفلین
(یہ نظم آج سے پچاس سال قبل راندھیر (بھارت) کے ایک حکیم صاحب نے کہی تھی ، جو شاعر بھی تھے)

جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے

اگر خوں کم بنے، بلغم زیادہ
تو کھا گاجر، چنے ، شلغم زیادہ

جگر کے بل پہ ہے انسان جیتا
اگر ضعف جگر ہے کھا پپیتا

جگر میں ہو اگر گرمی کا احساس
مربّہ آملہ کھا یا انناس

اگر ہوتی ہے معدہ میں گرانی
تو پی لی سونف یا ادرک کا پانی

تھکن سے ہوں اگر عضلات ڈھیلے
تو فوراََ دودھ گرما گرم پی لے

جو دکھتا ہو گلا نزلے کے مارے
تو کر نمکین پانی کے غرارے

اگر ہو درد سے دانتوں کے بے کل
تو انگلی سے مسوڑوں پر نمک مَل

جو طاقت میں کمی ہوتی ہو محسوس
تو مصری کی ڈلی ملتان کی چوس

شفا چاہیے اگر کھانسی سے جلدی
تو پی لے دودھ میں تھوڑی سی ہلدی

اگر کانوں میں تکلیف ہووے
تو سرسوں کا تیل پھائے سے نچوڑے

اگر آنکھوں میں پڑ جاتے ہوں جالے
تو دکھنی مرچ گھی کے ساتھ کھا لے

تپ دق سے اگر چاہیے رہائی
بدل پانی کے گّنا چوس بھائی

دمہ میں یہ غذا بے شک ہے اچھی
کھٹائی چھوڑ کھا دریا کی مچھلی

اگر تجھ کو لگے جاڑے میں سردی
تو استعمال کر انڈے کی زردی

جو بد ہضمی میں تو چاہے افاقہ
تو دو اِک وقت کا کر لے تو فاقہ



آپ کا چھوٹا بھائی: بےباک
 

شاہ حسین

محفلین
جناب یہ تو مکمّل نسخہ جات ہیں :( یقیناْ کسی پہنچے ہوئے طبیب کا کلام ہے پر مزاح ایک فی صد بھی شامل کلام نہیں ہے۔
 
برادرم شریک محفل کرنے کا شکریہ۔ میں‌نے بھی یہ نظم تقریباً‌ دس سال پہلے کسی جنتری میں‌ پڑھی تھی۔ اور مزے کی بات بتاؤں کہ وہاں بھی یہی الفاظ‌ درج تھے یعنی پچاس سال پرانی نظم ہونے کا اعلان۔ اس کی عمر ہے کہ بڑھنے کا نام ہی نہیں‌لے رہی۔ :grin:

ویسے یہ اس سے پہلے بھی محفل میں پیش کی جا چکی ہے۔ غالباً تعبیر اپیا نے شامل کیا تھا۔
 
کلامِ اسد ملتانی[ترمیم]
جنابِ اسد ملتانی کی ایک مشہور نظم آسان نسخے جس کے اشعار کچھ یوں ہیں آسان نسخے

جہاں تک کام چلتا ہو غذا سے
وہاں تک چاہیے بچنا دوا سے
۔۔۔۔۔ اگر تجھہ کو لگے جاڑے میں سردی
تو استعمال کر انڈے کی زردی
۔۔۔۔۔ اگرمعدے میں ہو تیرے گرانی
تو جھٹ پی سونف یا ادرک کا پانی
۔۔۔۔۔ اگر خوں کم بنے بلغم زیادہ
تو کھا گاجر، چنے ،شلغم زیادہ
۔۔۔۔۔ جو بد ہضمی میں تو چاہے افاقہ
تو دو اِک وقت کا کر لے تو فاقہ
۔۔۔۔۔ جو ہو پیچش تو پیچ اس طرح کس لے
ملا کر دودھ میں لیموں کا رس لے
۔۔۔۔۔ جگرکے بل پہ ہے انسان جیتا
اگر ضعفِ جگر ہو کھا پپیتا
۔۔۔۔۔ جگر میں ہو اگر گرمی، دہی کھا
اگر آنتو ں میں خشکی ہے تو گھی کھا
۔۔۔۔۔ تھکن سے ہوں اگرعضلات ڈھیلے
تو فورا دودھ گرما گرم پی لے
۔۔۔۔۔ جو طاقت میں کمی ہوتی ہو محسوس
تومصری کی ڈلی ملتان کی چوس
۔۔۔۔۔ زیادہ گر دماغی ہے تیرا کام
تو کھا تو شہد کے ہمراہ بادام
۔۔۔۔۔ اگر ہو دل کی کمزوری کا احساس
تومربہ آملہ کھا اور انناس
۔۔۔۔۔ جو دکھتا ہو گلا نزلے کے مارے
تو کر نمکین پانی کے غرارے
۔۔۔۔۔ اگر ہے درد سے دانتوں کے بے کل
تو انگلی سے مسوڑوں پر نمک مل
۔۔۔۔۔ اگر گرمی کی شدت ہو زیادہ
تو شربت ہی بجائے آبِ سادہ
۔۔۔۔۔ جو ہے افکارِ دنیا سے پریشاں
نمکدان پڑھہ نمکداں پڑھہ نمکداں}}

ماہنامہ ’’ نمکدان‘‘ کراچی، فروری مارچ 1955 میں پہلی بار شایع ہوئی۔ مگر سوژل میڈیا پر یہ بات پہلی مرتبہ سامنے آئی کی مختلف لوگوں نے اسے اپنوں ناموں سے یا نا معلوم شاعر کا کہ کر شایع کرتے رہے۔ کلیات ِ اسد ملتانی میں یہ نظم شایع ہوئی اور اس کی تفصیل بھی۔ چونکہ لوگوں نے کلیات اسد ملتانی نہیں پڑھا اس لیے اس کی درستی نہیں کر سکے۔ مگر حال ہی میں معروف صحافی جناب اسلم ملک نے پہلی بار پختہ ثبوت کیساتھ سوشل میڈیا پر اپنی ایک تحریر کے ذریعے لوگوں کو باور کرایا کہ اس مشہور نظم کے خالق کوئی اور نہیں جناب اسد ملتانی ہیں
وکی پیڈیا سے نقل کیا گیا
 
Top