رانا
محفلین
یہ واقعہ آج ایک کتاب "حیات قدسی" میں پڑھا جو ہندوستان میں حکیم اجمل خان کے خاندان کی شہرت وعظمت کا باعث بنا۔
حکیم اجمل خان صاحب کے دادا کے وقت میں ایک بہت بڑا انگریز افسر جو غالباً کرنیل کے عہدہ پر تھا کسی تقریب پر دہلی آیا۔ وہ اور اس کی لیڈی ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔ لیڈی کو آٹھواں مہینہ حمل کا تھا وہ ہنستے ہنستے اچانک بے ہوش ہو کر زمین پر گرپڑی۔ ڈاکٹروں نے بعد معائنہ بالاتفاق رائے دی کہ ان کی وفات واقع ہوگئی ہے۔ جب پادریوں کو معلوم ہوا کہ فلاں انگریز افسر کی بیوی فوت ہوچکی ہے۔ تو وہ غسل اور جنازہ کو تیار کرانے کے لئے وہاں آگئے لیکن وہ انگریز افسر مانع ہوا اور کہنے لگا کہ غسل اور جنازہ کیسا؟ میری بیوی تو ابھی میرے ساتھ ہنسی خوشی باتیں کررہی تھی وہ مری نہیں بلکہ زندہ ہے۔ لوگوں نے کہا جب ڈاکٹروں نے متفقہ رائے دے دی ہے کہ ان کی وفات ہوگئی ہے تو اس بارہ میں شک کرنا بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔
اس انگریز افسر نے کہا کہ میں ڈاکٹروں کی رائے کو فی الحال قبول کرنے کے لئے تیار نہیں، یونانی اطباء کو بلا کر بھی میں اپنا اطمینان کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ حکیم اجمل خان صاحب کے دادا کو بلوایا گیا۔ وہ آئے اور انہوں نے سب حالات سن کر لیڈی صاحبہ کو اچھی طرح دیکھا۔ معائنہ کے بعد انہوں نے دو بندوقیں منگوائیں۔ اور میم صاحبہ کو چت لٹا کر اور منہ آسمان کی طرف کرکے دو شخصوں کو حکم دیا کہ ایک شخص لیڈی کے دائیں کان کے پاس اور دوسرا بائیں کان کے قریب بندوق رکھ کر تیار ہوجائے اور ان کے اشارہ پر بیک وقت فائر کھول دے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ جوں ہی بندوقیں چلیں اور زور کا دھماکہ ہوا ۔ میم صاحبہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ یہ دیکھ کر حاضرین حیران رہ گئے۔ اور وہ انگریز افسر تو یہ نظارہ دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑا۔
ڈاکٹروں نے حکیم صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کو تشخیص کرنے کے بعد کیا سمجھ میں آیا۔ حکیم صاحب نے بتایا کہ جب لیڈی صاحبہ کے شوہر نے مجھے بتایا کہ وہ ہنستی اور باتیں کرتی ہوئی اچانک بے ہوش ہو کر گرپڑی ہیں اور ان کو آٹھواں مہینہ حمل کا ہے۔ تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ جنین پر بھی ماں کے ہنسنے کا اثر پڑتا ہے۔ ممکن ہے کہ جنین نے فرط انسباط سے حرکت کی ہو۔ اور اس سے بعض اوتار اور عروق میں جن کاقلب سے تعلق ہے کشیدگی پیدا ہوگئی ہو۔ اور قلب اپنی نزاکت کی وجہ سے متاثر ہو کر غشی کا باعث ہوا ہو۔ مجھے یہ غشی عام سکتہ کے مشابہ معلوم ہوئی۔ معاً میرے ذہن میں علاج کے لئے یہ تدبیر آئی کہ دو بندوقیں منگوا کر ان کے دھماکہ سے علاج کیا جائے۔ ممکن ہے کہ جنین کے نازک ترین حواس دھماکہ کے اثر کے ماتحت روبہ افاقہ ہو کر حرکت کرنے لگ جائیں۔ اور ان کی درستی سے قلب کی حرکت درست ہوجائے۔ یہ خداتعالی کا فضل واحسان ہے کہ یہ طریق علاج کامیاب ہوا اور لیڈی صاحبہ کو شفا ہوگئی۔
حکیم صاحب کی اس حیرت انگیز اور ندرت آفرین کامیابی پر اس انگریز افسر نے کئی ہزار روپے کی تھیلی ان کو بطور انعام دی۔ اوراس طرح دہلی کے اس خاندان کی شہرت اور مقبولیت کا آغاز ہوا۔
حکیم اجمل خان صاحب کے دادا کے وقت میں ایک بہت بڑا انگریز افسر جو غالباً کرنیل کے عہدہ پر تھا کسی تقریب پر دہلی آیا۔ وہ اور اس کی لیڈی ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔ لیڈی کو آٹھواں مہینہ حمل کا تھا وہ ہنستے ہنستے اچانک بے ہوش ہو کر زمین پر گرپڑی۔ ڈاکٹروں نے بعد معائنہ بالاتفاق رائے دی کہ ان کی وفات واقع ہوگئی ہے۔ جب پادریوں کو معلوم ہوا کہ فلاں انگریز افسر کی بیوی فوت ہوچکی ہے۔ تو وہ غسل اور جنازہ کو تیار کرانے کے لئے وہاں آگئے لیکن وہ انگریز افسر مانع ہوا اور کہنے لگا کہ غسل اور جنازہ کیسا؟ میری بیوی تو ابھی میرے ساتھ ہنسی خوشی باتیں کررہی تھی وہ مری نہیں بلکہ زندہ ہے۔ لوگوں نے کہا جب ڈاکٹروں نے متفقہ رائے دے دی ہے کہ ان کی وفات ہوگئی ہے تو اس بارہ میں شک کرنا بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔
اس انگریز افسر نے کہا کہ میں ڈاکٹروں کی رائے کو فی الحال قبول کرنے کے لئے تیار نہیں، یونانی اطباء کو بلا کر بھی میں اپنا اطمینان کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ حکیم اجمل خان صاحب کے دادا کو بلوایا گیا۔ وہ آئے اور انہوں نے سب حالات سن کر لیڈی صاحبہ کو اچھی طرح دیکھا۔ معائنہ کے بعد انہوں نے دو بندوقیں منگوائیں۔ اور میم صاحبہ کو چت لٹا کر اور منہ آسمان کی طرف کرکے دو شخصوں کو حکم دیا کہ ایک شخص لیڈی کے دائیں کان کے پاس اور دوسرا بائیں کان کے قریب بندوق رکھ کر تیار ہوجائے اور ان کے اشارہ پر بیک وقت فائر کھول دے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ جوں ہی بندوقیں چلیں اور زور کا دھماکہ ہوا ۔ میم صاحبہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ یہ دیکھ کر حاضرین حیران رہ گئے۔ اور وہ انگریز افسر تو یہ نظارہ دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑا۔
ڈاکٹروں نے حکیم صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کو تشخیص کرنے کے بعد کیا سمجھ میں آیا۔ حکیم صاحب نے بتایا کہ جب لیڈی صاحبہ کے شوہر نے مجھے بتایا کہ وہ ہنستی اور باتیں کرتی ہوئی اچانک بے ہوش ہو کر گرپڑی ہیں اور ان کو آٹھواں مہینہ حمل کا ہے۔ تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ جنین پر بھی ماں کے ہنسنے کا اثر پڑتا ہے۔ ممکن ہے کہ جنین نے فرط انسباط سے حرکت کی ہو۔ اور اس سے بعض اوتار اور عروق میں جن کاقلب سے تعلق ہے کشیدگی پیدا ہوگئی ہو۔ اور قلب اپنی نزاکت کی وجہ سے متاثر ہو کر غشی کا باعث ہوا ہو۔ مجھے یہ غشی عام سکتہ کے مشابہ معلوم ہوئی۔ معاً میرے ذہن میں علاج کے لئے یہ تدبیر آئی کہ دو بندوقیں منگوا کر ان کے دھماکہ سے علاج کیا جائے۔ ممکن ہے کہ جنین کے نازک ترین حواس دھماکہ کے اثر کے ماتحت روبہ افاقہ ہو کر حرکت کرنے لگ جائیں۔ اور ان کی درستی سے قلب کی حرکت درست ہوجائے۔ یہ خداتعالی کا فضل واحسان ہے کہ یہ طریق علاج کامیاب ہوا اور لیڈی صاحبہ کو شفا ہوگئی۔
حکیم صاحب کی اس حیرت انگیز اور ندرت آفرین کامیابی پر اس انگریز افسر نے کئی ہزار روپے کی تھیلی ان کو بطور انعام دی۔ اوراس طرح دہلی کے اس خاندان کی شہرت اور مقبولیت کا آغاز ہوا۔