حسیب نذیر گِل
محفلین
جاوید چودھری کا ایک اور خوبصورت کالم
جاوید چودھری کا ایک اور خوبصورت کالم
میں سمجھا محسن نقوی کا دیوان پڑھ رہی ہیں آجکل۔۔آج بھی میں نونہال اور ہمدرد صحت بہت شوق سے پڑھتی ہوں
آپ میری سائٹ سے ہمدرد کی تمام کتب اور پرانے رسائل مفت اٹھائیں ڈبل سکون ملے گا۔۔آج بھی میں جب بازار سے کوئی طبی چیز لینے جاؤں تو میں ہمدرد کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ میں جب ہمدرد والوں کی کوئی چیز خریدتا ہوں تو مجھے عجب سا سکون ملتا ہے
بلال بھائی ایسا ہی ہے۔ مجھے تو کل لیاقت علی خان کی کوئی نیوز دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہاں بھٹو کی برسی پر میڈیا ایک ہفتے پہلے سے راگ الاپنا شروع کردے گا۔۔ویسے مجھے آج کسی بھی ٹی وی چینل پہ کچھ خاص سننے کو نہیں ملا حکیم صاحب کے بارے میں جبکہ سیف اور کرینہ کی شادی کی خبر تو کئی دفعہ سُن چکا ہوں۔
میں سمجھا کہ آپ کے نونہال ہوں گے۔۔۔میں بھی نونہال ہوں
جاوید چودھری نے اپنے پروگرام میں ذکر کیا تھا۔بلال بھائی ایسا ہی ہے۔ مجھے تو کل لیاقت علی خان کی کوئی نیوز دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہاں بھٹو کی برسی پر میڈیا ایک ہفتے پہلے سے راگ الاپنا شروع کردے گا۔۔
بہت مہربانی۔شکریہ نوازشآپ میری سائٹ سے ہمدرد کی تمام کتب اور پرانے رسائل مفت اٹھائیں ڈبل سکون ملے گا۔۔
میں سمجھا محسن نقوی کا دیوان پڑھ رہی ہیں آجکل۔۔
ویسے آج کے نونہال اور 1980 اور 1990 کے نونہال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
آپ میری سائٹ سے ہمدرد کی تمام کتب اور پرانے رسائل مفت اٹھائیں ڈبل سکون ملے گا۔۔
بلال بھائی ایسا ہی ہے۔ مجھے تو کل لیاقت علی خان کی کوئی نیوز دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ہاں بھٹو کی برسی پر میڈیا ایک ہفتے پہلے سے راگ الاپنا شروع کردے گا۔۔
سو فیصد متفق
میں سمجھا کہ آپ کے نونہال ہوں گے۔۔۔
حسیب نذیر گِل صاحب آپ نے بہت خوب لکھا ہے
حکیم محمد سعید۔ تصویر بشکریہ ہمدرد فاونڈیشن
یہ سترہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کی ایک صبح کا ماجرہ ہے، جب سپیدہ سحر پوری طرح نمودار بھی نہیں ہوا تھا۔ حکیم محمد سعید اپنی سفید گاڑی میں اپنے آرام باغ میں واقع اپنے مطب پہنچے۔ گاڑی سے اترے اوراپنی ٹوپی اپنے ایک معاون کے ہاتھ میں دی اور مطب کی طرف بڑھنے لگے ۔
اسی دوران نیم اندھیرے میں آتشیں ہتھیاروں نے شعلے اُگلے اور کئی گولیاں حکیم سعید کے جسم میں پیوست ہوگئیں۔ پھر دنیا نے یہ دلخراش منظر بھی دیکھاکہ لاکھوں لوگوں کا علاج کرنے والے مسیحا کی لاش ایک گھنٹے تک سڑک پر پڑی رہی۔
پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج، سماجی کارکن اور مصنف حکیم محمد سعید نے نو جنوری انیس سو بیس کو دہلی میں آنکھ کھولی۔ دو برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ بچپن شرارتوں میں بیتا پھر اظہارِ ذہانت شروع ہوا۔
لکنت سے زبان لڑکھڑاتی تھی تو اپنی قوتِ ارادی اور مسلسل مشق سے اپنی ہکلاہٹ پر قابو پایا۔ زمانے کا شعور ہوا تھا تو سر میں کئی پہاڑ سر کرنے کا سودا سمایا۔ طب و حکمت میں قدم رکھتے ہوئے اپنے بھائی کیساتھ ملکر اپنے والد کے قائم کردہ ادارے ہمدرد کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔
پھر یوں ہوا کہ ہمدرد کا نام تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا۔ سعید پہلے صحافی بننا چاہتے تھے لیکن خاندانی کام کو آگے بڑھانے کے لئے اس سے وابستہ ہوئے۔
پاکستان بننے تک ہمدرد ایشیا میں طبی ادویہ کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا تھا۔
تقسیم کے بعد جب انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت شروع ہوئی تو سعید نے تمام کاروبار، عیش وآرام اور دولت چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیااور نو جنوری انیس سو اڑتالیس کو کراچی آگئے۔
شہزادہ سدارتھ کی طرح وہ سب کچھ خیرباد کہہ کر جب کراچی آئے تو دہلی میں پیکارڈ کار پر سفر کرنے والے محمد سعید نے اپنے ساتھ لائی ہوئی روح افزا اور گرائپ واٹر کی شیشیاں بیچنے کے لئے شہر کا چپہ چپہ چھان مارا، یہاں تک کہ ان کے جوتوں میں سوراخ ہوگئے۔
پچاس روپے مہینہ پر ایک دکان اور ساڑھے بارہ روپے ماہانہ پر فرنیچر کرائے پر لے کراپنے کام کا آغاز کیا۔ پھر ناظم آباد میں المجید سینٹر کی بنیاد ڈالی جس نے ہمدرد فاونڈیشن کی راہ ہموار کی اور حکیم محمد سعید نے اس ادارے کو بھی خدمتِ کے لیے باقاعدہ وقف کردیا۔ طبِ یونانی کا فروغ اور اسے درست مقام دلوانا حکیم محمد سعید کی زندگی کا اہم مشن رہا۔
گورنر سندھ بننے کے بعد بھی پاکستان بھر میں اپنے مریضوں کو باقاعدہ دیکھتے اور ان کا مفت علاج کرتے رہے۔ اسی طرح ضیاالحق کے دور میں وہ وزیر بننے کے بعد بھی کراچی ، لاہور، سکھر اور پشاور میں مطب کرتے رہے۔ سرکاری گاڑی نہیں لی اور نہ ہی رہائش یہاں تک کہ وہ غیر ملکی زرِ مبادلہ جو انہیں سرکاری خرچ کے لئے ملا تھا وہ بھی قومی خزانے کو واپس کردیا۔
محترمہ فاطمہ جناح نے چودہ اگست انیس سو اٹھاون میں ہمدرد کے طبی کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا جس سے ہزاروں معالج فارغ ہوکر لوگوں کا علاج کررہے ہیں۔حکیم محمد سعید نے طب اور ادویہ سازی کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا۔
حکیم محمد سعید بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور بچے بھی ان کے دیوانے ٹھہرے۔ یہاں تک کہ پشاور کا ایک بچہ والدین کی ڈانٹ پر گھر سے یہ کہہ کر نکل آیا کہ میں کراچی میں حکیم سعید کے پاس جارہا ہوں۔ قولِ سعید ہے کہ بچوں کو عظیم بنادو، پاکستان خود بخود بڑا بن جائے گا۔
انہوں نے بچوں کی تربیت کے لئے رسالہ ہمدرد نونہال جاری کیا اور بزمِ نونہال کے ہزاروں پروگرامز کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کا سامان کیا۔ ساتھ ہی ہمدرد نونہال ادب کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں کتابیں شائع کیں ۔ سچی ڈائری کے عنوان سے بچوں کے لئے کتابیں شائع کرکے اپنی زندگی کے دن رات بیان کردئے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ہی حکیم محمد سعید کے دل میں علم و حکمت کے فروغ کی تڑپ بڑھتی رہی اوروہ جنون میں بدل گئی-
کراچی میں مدینتہ الحکمت نامی منصوبہ بھی اسی دیوانگی کا نتیجہ ہے جہاں آج بیت الحکمت کے نام سے ایک بہت بڑی لائبریری، یونیورسٹی ، کالجز، اسکول اور دیگر اہم ادارے قائم ہیں۔ سائنس و ثقافت اورعلم و حکمت کا یہ شہر آج بھی اس شخص کی یاد دلاتا ہے جس کے عزم وعمل نے ریگستان کو ایک علمی نخلستان میں بدل دیا۔
بزمِ ہمدرد نونہال، ہمدر د شوریٰ، شامِ ہمدرد اور ہمدرد نونہال اسمبلی جیسے ماہانہ پروگراموں میں ممتاز عالموں ، علمائے سائنس ، ادیبوں اور دانشوروں کو مدعو کرکے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کے فکری نظریات کو عام آدمی تک بھی پہنچایا۔
حکیم محمد سعید نے دنیا بھر کا سفر کیا اور لاتعداد اہل علم کو اپنا دوست بنایا ۔ وہ ہرسال دنیا بھر میں تقریباً دس ہزار افراد کو عیدین اورنئے سال کے کارڈ بھجوایا کرتے تھے۔ جواہر لعل نہرو، سرمحمد ظفراللہ خان،ایان اسٹیفن، شاہ حسین، جوزف نیدھم، ڈاکٹر اکبر ایس احمد، سید حسن نصر، فاطمہ جناح اور دیگر ہزاروں شخصیات ان کے مداحوں میں شامل تھے۔
ممتاز قلمکار ستار طاہر ، حکیم محمد سعید کی زندگی پر تحریر کردہ اپنی ایک کتاب میں ان کی آخری خواہش اس طرح بیان کرتے ہیں۔
میں ایسے حال میں فرشتہ موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نگاہوں کے سامنے ہمدرد اسکول اور الفرقان میں پانچ ہزار بچے تعلیم پارہے ہوں۔ ہمدرد یونیورسٹی امتیازات کے ساتھ ہزار ہا نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو۔ اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوازِ حق بلند کرنے کی تیار ی کیلئے کمر بستہ ہوں۔
حکیم محمد سعید کی خوش قسمتی کہ ان کی یہ خواہش ان کی زندگی میں پوری ہوئی لیکن ان کے قاتل آج بھی آزاد ہیں۔
بشکریہ:ڈان
یہ میں نے نہیں لکھا بلکہ ڈان سے مضمون لیا ہے نیچے ربط بھی دیا ہے۔حسیب نذیر گِل صاحب آپ نے بہت خوب لکھا ہے
زبردست کیا لاجواب شخصیت تھی انکیحکیم سعید صاحب کے بارے میں کہیں میں نے پڑھا تھا کہ وہ سفید شیروانی کا استعمال اسلیئے کرتے تھے کہ اس سفید رنگ پر داغ صاف نظر آجاتا ہے
اور اگر ان پر کوئی داغ ہے تو وہ اسکو چھپانا نہیں چاہینگے بلکہ اسکو صاف کرینگے
میں سمجھا کہ آپ کے نونہال ہوں گے۔۔۔
ماشاللہ۔اللہ تعالیٰ نظرِ بد سے بچائےمیرے نونہال نہیں "تین نہال" ہیں۔
چلیں ہم یوں کہ دیتے ہیں بہت شکریہ یہاں پوسٹ کرنے کایہ میں نے نہیں لکھا بلکہ ڈان سے مضمون لیا ہے نیچے ربط بھی دیا ہے۔
زبردست کیا لاجواب شخصیت تھی انکی
نوازش ہے آپکیچلیں ہم یوں کہ دیتے ہیں بہت شکریہ یہاں پوسٹ کرنے کا
آپ جیسے پڑھنے والوں اور پوسٹ کرنے والوں کی وجہ سے ہم بھی کچھ اچھی چیزیں پڑھ لیتے ہیں
شکریہ