پیشگی معذرت کے ساتھ کچھ نکات عرض کرنا چاہوں گا
۔ مضمون نگار کسی خیالی اور تصوراتی دنیا کے باسی لگتے ہیں۔ نیز یہ کہ ان کا خیال ہے کہ ان کے علاوہ کسی نے دنیا یا مغرب نہیں دیکھا۔ ایسے قصے کہانیاں نصف صدی قبل کے زمانے میں چل جاتے تھے جب مصنفین (ابنِ انشا، تارڑ وغیرہ) اپنے سفرناموں میں دیگر ممالک کی اخلاق سوزی کے قصے بڑھا چڑھا کر پیش کیا کرتے تھے۔ کیونکہ اس وقت عام عوام کا باقی دنیا کے ساتھ ربط تھا ہی نہیں سوائے ان کتب، اخبارات یا فلموں کی ویڈیو کیسٹ کے۔ مضمون نگار ہنوز پرانی روش پہ چلنے پر بضد ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ منجن ابھی بھی اچھا بکتا ہے ہمارے ہاں۔
۔ مغرب کے بارے میں کچھ یونیورسل ٹرتھ ہمارے ہاں ایجاد کر لئے گئے ہیں، جن کی نہ تصدیق کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے نہ تحقیق کی۔ جیسے کہ سارے بوڑھوں کو اولڈ ہوم میں چھوڑ آتے ہیں۔ ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے پہ سزا ہے۔ فحاشی عام ہے۔ سارے مغرب کو اور کوئی کام نہیں سوائے ہمارے خلاف سازش کرنے کے۔ سارا علم اور سائنس وغیرہ ہسپانیہ سے لوٹا گیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ
۔ ان سب سے بڑھ کر جارج آرویل کے الفاظ میں مضمون نگار "دو خیالی" یعنی ڈبل تھنک کے شکار ہیں۔ اسی بات کا تذکرہ
زیک بھائی پہلے کر چکے ہیں۔ خود بیس سال گزارنے کے بعد اچانک مغربی معاشرے کی خرابیاں ان پہ آشکار ہو گئیں۔
۔ ایک ایسے دور میں کہ جب گلوبلائیزیشن کے بغیر گزارہ ہی مشکل ہے، وہ معاشرے کو آہنی پردوں کے پیچھے دھکیلنے میں بہتری دیکھ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے بچوں کو اے لیول ہی کرانا ہے۔
کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔ لیکن فی الحال اتنا ہی۔