طارق شاہ
محفلین
احمد ندیم قاسمی
حیراں حیراں کونپل کونپل کیسے کِھلتے پُھول یہاں
تنے ہُوئے کانٹوں کے ڈر سے پُوجی گئی ببول یہاں
کلیاں نوکِ سناں سے چٹکیں، غنچے کٹ کے شگفتہ ہُوئے
کاش یہ فصلِ خُونِ بہاراں اور نہ کھینچے طُول یہاں
شاید آج بھی جاری ہے آدم کا سلسلۂ اُفتاد
تھی نہ وہاں جنّت بھی گوارا اور قبوُل ہے دُھول یہاں
یارو یہ سنّاٹا تو توڑو ، گیت نہیں تو چیخ سہی
رُلوانا قانون یہاں کا، رو لینا معمُول یہاں
پل پل میں تاریخ چھپی ہے، گھڑی گھڑی گرداں ہے ندیم
ایک صدی کی ہار بنے گی ایک نظر کی بُھول یہاں
احمد ندیم قاسمی