کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔ استاد محترم جناب الف عین سر اور احباب کی اصلاح اور مشورؤں کا منتظر رہوں گا۔
بحر : فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
حیرتی تھی تری خاموشی یوں گفتار کے بیچ
پیاس رکھ دے کوئی جیسے گل و گلزار کے بیچ
راز اِس روح کی سر مستی کا پوشیدہ ہے
اک خفی سوز کے اور شعلہءِ اظہار کے بیچ
ہاتھ سے چھو کے جو پیغام دیا جاتا ہے
جگنو بھرتا ہے بدن میں کسی جھنکار کے بیچ
بے وفا عشق نے اب نقل مکانی کر لی
مصلحت آ گئی تیری مری رفتار کے بیچ
دوستی کس جگہ پایا ترے ہونے کا ثبوت
چہرے مانوس ہیں سارے صفِ اغیار کے بیچ
آپ کا سِحر مرے پیروں تلے کچلا گیا
آپ کیوں آئے مرے اور مرے پندار کے بیچ
اب مٹا دو وہ شبیہ، نقش ہے دیوار پہ جو
بارشوں، تیز ہوا سے کبھی تکرار کے بیچ
ہر سہولت میں تری یاد پہ بند کر دونگا
چاہے رخنہ بھی ہو دل کے درودیوار کے بیچ
تبصرہ ہے تری حق گوئی پہ بیباکی پر
سر سلامت ہے جو اب تک ترا دستار کے بیچ
رہ کے دنیا میں بھی رکھ، اوجِ ثرّیا پہ نظر
جست چھوٹی سی ہے!، آسان سے دشوار کے بیچ
ایک مطلع اور ہوا ہے جس کی بیانیہ سے میں مطمئن نہیں ہوں لیکن پیش کرتا ہوں۔
سچ نکلتا ہے زباں سے مری، دربار کے بیچ
تم کو لکنت نہ ملے گی لبِ اظہار کے بیچ
حیرتی تھی تری خاموشی یوں گفتار کے بیچ
پیاس رکھ دے کوئی جیسے گل و گلزار کے بیچ
راز اِس روح کی سر مستی کا پوشیدہ ہے
اک خفی سوز کے اور شعلہءِ اظہار کے بیچ
ہاتھ سے چھو کے جو پیغام دیا جاتا ہے
جگنو بھرتا ہے بدن میں کسی جھنکار کے بیچ
بے وفا عشق نے اب نقل مکانی کر لی
مصلحت آ گئی تیری مری رفتار کے بیچ
دوستی کس جگہ پایا ترے ہونے کا ثبوت
چہرے مانوس ہیں سارے صفِ اغیار کے بیچ
آپ کا سِحر مرے پیروں تلے کچلا گیا
آپ کیوں آئے مرے اور مرے پندار کے بیچ
اب مٹا دو وہ شبیہ، نقش ہے دیوار پہ جو
بارشوں، تیز ہوا سے کبھی تکرار کے بیچ
ہر سہولت میں تری یاد پہ بند کر دونگا
چاہے رخنہ بھی ہو دل کے درودیوار کے بیچ
تبصرہ ہے تری حق گوئی پہ بیباکی پر
سر سلامت ہے جو اب تک ترا دستار کے بیچ
رہ کے دنیا میں بھی رکھ، اوجِ ثرّیا پہ نظر
جست چھوٹی سی ہے!، آسان سے دشوار کے بیچ
ایک مطلع اور ہوا ہے جس کی بیانیہ سے میں مطمئن نہیں ہوں لیکن پیش کرتا ہوں۔
سچ نکلتا ہے زباں سے مری، دربار کے بیچ
تم کو لکنت نہ ملے گی لبِ اظہار کے بیچ
آخری تدوین: