خادم اعلیٰ صاحب! انگریزی سے یاری عربی سے بیزاری کیوں؟

پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے تحت 2013ء میں ہونے والے جماعت ہشتم کے امتحانات صرف انگلش میڈیم میں لینے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا۔ اس فیصلے سے طلبا و طالبات، اساتذہ اور والدین سب پریشان ہیں، کیونکہ ہمارے نظام تعلیم میں یکسانیت، نصابی کمیٹی میں یکجہتی اور طریقہ تدریس میں تسلسل نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ نصاب تعلیم ہر سال تبدیل ہوتا ہے۔ اس کی تبدیلی کی بنیادی وجہ قرآنی آیات و احادیث اور سچے واقعات جن کا اثر طلباء و طالبات کی فکرو سوچ پرپڑتا ہے، مثبت سوچنے اور نیک کام کرنے کا جذبہ بلند ہوتا ہے، دین اسلام سے لگن پیدا ہوتی ہے وہ سب کچھ آہستہ آہستہ حذف کیا جا رہا ہے جس کو ہم ترقی سمجھ کر کرتے چلے جا رہے ہیں وہ درحقیقت ہماری تنزلی اور پستی ہے، پھر نصابی کمیٹی پر آنے والے اخراجات مالی خسارے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یورپ اور عرب دنیا جو اس وقت تیزی سے ہر میدان میں ترقی کر رہی ہے ان کے ہاں بھی کچھ ٹھہرائو پایا جاتا ہے۔ وہ نصاب تعلیم، نظام تعلیم سے اس قدر نہیں کھیل رہے، ہمیں بھی بردباری اور عقل و شعور سے کام لینا چاہئے کسی کے ا شاروں پر نہیں۔ قرآنی آیات و احادیث کو نصاب سے نکالنا یہ قلمی دہشت گردی ہے جس کی روک تھام بہت ضروری ہے۔ بار بار کی ان تبدیلیوں نے تینوں طبقات اساتذہ، طلباء اور والدین کو تذبذب کا شکار بنا دیا ہے۔ پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اردو اور انگلش میڈیم رائج کرنے میں عدم توازن کے سبب یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ عدم توازن ہمارا اپنا ہی پیدا کردہ ہے۔ ہر سال تبدیلی کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ اصولی فیصلے کے تحت کیا جا رہا ہے۔ نو ماہ یا ایک سال کے بعد وہ اصولی فیصلہ غیر اصولی شکل و صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اصول کہاں سے آتے ہیں کون بناتا ہے وہ کون سی قوتیں اور طاقتیں ہیں جو ہمارے اوپر نافذ کرتی ہیں؟ اب نئے فیصلے کے مطابق کلاس اول تا چہارم انگلش میڈیم، کلاس پنجم اردو میڈیم جماعت ششم تا ہشتم انگلش میڈیم جبکہ کلاس نہم تا دہم اردو میڈیم میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری کر دیا گیا ہے۔ جس کے ذریعے طلباء کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ نہ وہ اردو ادب سے مکمل طور پر واقف ہوں گے اور نہ انگریزی سے آشنا، انگریزی بولتے ہوئے اردو ادب کی وادیوں میں کھو جائیں اور اردو بولتے وقت انگلش اسٹائل کے گڑھے میں گر جائیں گے۔
اب تک پنجاب ایگزامینیشن کمیشن نے جماعت پنجم کے ساتھ کلاس ہشتم کا امتحان اردو میڈیم میں لیا ہے۔ آئندہ برس حسب سابق پنجم کا امتحان اردو میڈیم اور ہشتم کا امتحان انگلش میڈیم میں ہو گا۔ اس کا فائدہ محکمہ تعلیم، ایگزامینیشن کمیشن اور پنجاب حکومت کو کتنا ہو گا؟ کچھ علم نہیں البتہ طلباء کا نقصان ضرور ہے اور اساتذہ کے لئے پریشانی الگ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اساتذہ کا کیا بنے گا جنہوں نے اردو میڈیم میں پڑھا اور پڑھایا ہے؟ بار بار کی تبدیلیوں نے ان کوتذبذب کا شکار اور ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ پنجاب حکومت کے پاس ان کا کیا حل ہے؟ کیا پالیسی ہے؟ اور وہ طلباء جو اردو میڈیم سے براہ راست انگلش میڈیم میں آئیں گے ان کے تعلیمی معیار کا کیا بنے گا۔ خصوصاً وہ بچے جو دہی علاقہ جات سے تعلق رکھتے ہیں یا دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں؟ جہاں ٹیوشن نہیں ملتی، جہاں تدریس پورے اوقات میں نہیں ہوتی، جہاں نصاب نہیں ملتا بلکہ اسکول کی عمارت ہونے کے باوجود اساتذہ میں جرأت اور طلباء میں جسارت نہیں کہ وہ اس بلڈنگ میں داخل ہو سکیں، جہاں انسانوں سے زیادہ جانوروں کی قدر و منزلت ہے۔ ان مسائل کی طرف دیکھنا اور حل کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ انگریزی زبان کی ترقی اور مادری، قومی زبان اردو کی تنزلی یا پستی کی اس جدوجہد میں ہم اپنی دینی، مذہبی زبان عربی کوبالکل ہی بھول گئے جس زبان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری سچی کتاب قرآن مجید کو نازل فرمایا، جس بولی کو حضرت محمدﷺ نے بولا: آپﷺ کی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ کو اسی زبان میں محفوظ کیا گیا، کتب احادیث کا مکمل ذخیرہ اسی زبان میں ہے، دنیا تو دنیا آخرت میں اہل جنت کی زبان بھی یہی ہے جو فصاحت و بلاغت، علم اور ادب عربی زبان میں ہے کسی اور میں نہیں جامعیت و اکملیت کا حسین گلدستہ ہے یہ زبان، دنیا میں آج تک جتنی بھی زندہ زبانیں موجود ہیں بولی، لکھی اور پڑھی جا رہی ہیں ان سب کی سید اور سردار زبان عربی ہے۔ یہ اشرف اللغات ہے۔ اسلام، ایمان اور عقیدہ کی تمام بنیادی کتب اسی زبان میں ہیں اس کا سیکھنا، سیکھانا، پڑھنا پڑھانا اختیاری نہیں لازمی ہے لیکن! صورتحال یہ ہے کہ انگلش اجباری اور عربی اختیاری اور اردو زبان سے آوازاری ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف گردش ایام کے سبب سعودی عرب میں مقیم رہے حرمین شریفین کی زیارت، طوٰف، عمرہ اور حج کی سعادتیں سمیٹیں اور چھوٹے میاں صاحب نے تو عربی بول چال میں مشق بھی کی ہے وہ عرب سفراء سے عربی میں بات چیت اور تبادلہ خیال کرتے ہوئے خوشی بھی محسوس کرتے ہیں۔ ان کو یہ احساس پیدا کیوں نہیں ہوتا کہ میں صوبہ بھر کے طلباء و طالبات کو اس زباں سے محروم کر رہا ہوں جس کو بولنے میں میں خود خوشی محسوس کرتا ہوں۔بلادحرمین سے واپسی پر اور وزارت اعلیٰ کا منصب ملنے کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ عربی لازم کر دی جاتی تعلیمی اداروں میں درس و تدریس عربی میڈیم ہوتی مگر! افسوس…؟ نظام تعلیم کو عربی میڈیم بنانے میں حکومت سعودی عرب ،عرب امارات کویت، قطر، مصر اور دیگر عرب ریاستوں سے تعاون لیا جاتا، اساتذہ طلب کئے جاتے، نصاب تعلیم کی تیاری میں مدد مانگی جاتی تو کس نے انکار کرنا تھا، سب خوشی خوشی تعاون کرتے، زباں اور تعلیم کی بدولت عرب مسلم ریاستوں سے ہمارے تعلقات بھی مستحکم و مضبوط ہوتے۔
لیکن! یہاں عربی کی ایک آدھ بک جو پڑھائی جاتی تھی اس کے خاتمہ کے لئے مکمل کوشش کی جا رہی ہے۔ صدر جنرل محمد ضیاء الحق جو سیاسی طور پر میاں صاحبان اور شریف برادران کے مرشدو مربی تھے۔ انہوں نے عربی زباں کے لئے پاکیزہ کوشش کی علماء کو بطور اساتذہ تعلیمی اداروں میں تعینات کیا، روزگار فراہم کیا اور آٹھویں جماعت تک عربی کو لازمی قرار دیا، نیز وفاق المدارس کی سند ثانویہ عامہ کو میٹرک، ثانویہ خاصہ کو ایف اے، شہادۃ عالیہ کو بی اے اور شہادۃ عالمیہ کو ڈبل ایم اے کے برابر قرار دیا۔
یہ وہ اصولی اور قانونی طریقہ تھا جس کے ذریعے علماء تعلیمی اداروں میں متعین ہوئے، طلباء کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا، عربی زباں سے آشنائی ہوئی اسلام کے متعلق معلومات عام ہوئیں۔ یورپ اسلام دشمنی میں نہیں چاہتا کہ اسلام کی دعوت عام ہو اور عربی لینگوئج میں تعلیم دی جائے یا علماء کو روزگار فراہم ہو۔
حکومت پنجاب کو چاہئے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرے۔ علم، اہل علم اور طالب علم کے لئے مثبت پالیسیاں بنائے۔
حکومت سعودی عرب سے گزارش ہے کہ عربی زباں کے فروغ کے لئے اسلامی ممالک کے اندر اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ جس طرح ماضی میں سالانہ علمی، ادبی، عربی زباں میں پاکستان کے مختلف شہروں میں دورے ہوتے تھے ان کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کی طرح پاکستان کے پانچوں صوبوں اور کشمیر میں عربی زباں کی ترقی کے لئے یونیورسٹیز قائم کیں جائیں نیز اسکولز کی سطح پر نصاب کی تیاری میں سعودی عرب کی وزارت تعلیم اور وزارت المعارف مدد کرے تو ہم اپنی تہذیب، اپنے تمدن، اپنے اصل کی طرف پلٹ سکتے ہیں۔ انگریزی کو زباں کی حد تک پڑھنا، پڑھانا کوئی عیب کی بات نہیں کیونکہ کوئی زباں کافر نہیں ہوتی لیکن عربی اور اردو سے لاتعلقی اچھی نہیں۔
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحراء دے


بشکریہ۔۔۔۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔۔ علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 

زیک

مسافر
واقعی تمام نظام تعلیم جلد از جلد عربی شریف میں کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔
 
سعودی عرب سے ایک اور مد میں رقم بٹورنے کا منصوبہ ہو گا۔
شايد جزوي طور پر آپ کی بات درست ہو مگر شمشاد بھائی انگريزي کي بہت شديد ضرورت ہے اردو انتہائي ضروري ہے اور عربی بھی کيونکہ عربی کے ذريعہ کچھ فکری تربيت بھی ممکن ہے نيز ہمارے ہاں پاکستان سے کتنے لوگ عرب ممالک ميں جاتے ہيں اگر ان جيسے لوگوں کے ليے کورس مرتب کيے جائيں اور جوکہ جوششيں ہو بھی رہي ہيں تو وہ خليج جو پاکستاني اور عربی کے درمکيان قائم ہے وہ حل ہو سکتی ہے۔ يہاں ہمارے لوگ زبان کی وجہ سے مار کھا جاتے ہيں اور دبے دبے رہتے ہيں کم سے کم وہ تو نہ ہو۔

يہ ايک بات دوسری بات کہ اگر ہمارے لوگوں کو عربی پڑھنی بولنی آ جائے تو علمی ادبي اور شرعي مصادر ومراجع تک پاکستانيوں کو ڈائريکٹ رسائی مل جائے گی جبکہ شرعی معاملات ميں مولوی حضرات کے سپرد ہوجاتے ہيں وہ بھی حدت کم ہو سکتی ہے

ہميں کسی بھی زبان يا کسی بھی عمل کو کم نہيں سمجھنا چاہئے اور جنہيں عربی کی اہميت معلوم نہيں وہی اس سے بيزار بھی نظر آتے ہيں

ميری معلومات کے مطابق عربی زبان پر کام ہو رہا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
کیوں اپنے آپ کو "مولوی " کہلوانا چاہتے ہیں۔ عربی بولنے پر زور دیں گے تو ابھی کچھ لوگ آ کر آپ کو قدامت پسند، مولوی اور نجانے کیا کیا خطاب دیں گے اور پھر آپ کے دھاگے کو مقفل کر دیا جائے گا کہ یہ مذہبی اور اسلامی زمرے میں نہیں ہے۔
 
کیوں اپنے آپ کو "مولوی " کہلوانا چاہتے ہیں۔ عربی بولنے پر زور دیں گے تو ابھی کچھ لوگ آ کر آپ کو قدامت پسند، مولوی اور نجانے کیا کیا خطاب دیں گے اور پھر آپ کے دھاگے کو مقفل کر دیا جائے گا کہ یہ مذہبی اور اسلامی زمرے میں نہیں ہے۔
ميں ايسے لوگوں کا عذر اس ليے خندہ پيشانی سے قبول کروں گا کہ وہ عربی زبان کی چاشنی کيا جانيں؟ نيز اگر عربی زبان کی نسبت سے مجھے ايسے القابات سے نوازا جائے گا تو ميں اپنے آپ کو يہ تسلی ديتا رہوں گا کہ يہ زبان محبوبِ کل صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی زبان ہے۔
 

ساجد

محفلین
اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن اس کے ساتھ اغماض برتا جا رہا ہے۔ یہ پتہ دیتا ہے ہمارے اندر اپنی زبان کے حوالے سے موجود احساس کمتری کا۔ یہ احساس حکومتی اور عوامی سطح پر موجود ہے۔اس کے مقابلے میں انگریزی کو ہم اور ہماری حکومت اس لئے ترجیح دی رہی ہے کہ یہ بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے اور جدید علوم و فنون تک رسائی کا آسان ذریعہ ہے۔ اسی بات سے من حیث القوم ہماری غفلت اور تساہل کا نظارہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم اپنی زبان کو زندہ رکھنے کے لئے اسے اپنانے کی بجائے اپنے نظام تعلیم کے لئے دیگر زبانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ظاہر ہے جب زبان اپنائی جاتی ہے تو اس کی اصطلاحات اور اس کے رسوم و رواج بھی لا شعوری طور پر ہمارے اندر رچ بس جاتے ہیں۔ پاکستان میں آج جو فکری انتشار پھیلا ہوا ہے اس میں لوگوں کے مختلف گروہوں کا مختلف زبانوں میں تعلیم حاصل کرنا اور پھر ان غیر ملکی زبانوں سے پنپنے والے نظریات کےپرچارکا بڑا ہاتھ ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ ہمیں کوئی زبان پڑھنی یا سیکھنی نہیں چاہئے۔ بلکہ یوں دیکھنا چاہئیے کہ اپنی قومی زبان کو نظر انداز کر کے غیر زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانا آپ کی نظریاتی منزل سے آپ کو دور لے جاتا ہے اور آپ ڈگریوں کے مالک ہوتے ہوئے بھی اپنے معاشرے ، ماحول ، ادب ، ثقافت ، تمدن ، ٹیکنالوجی اور روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو اپنے دستیاب وسائل کے ذریعہ بہتر انداز میں حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی طور پر عوام اور تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو جاتی ہے۔ یوں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا جس کے نتیجہ میں سماجی و جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ کے خدشات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں
جاری
 
اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن اس کے ساتھ اغماض برتا جا رہا ہے۔ یہ پتہ دیتا ہے ہمارے اندر اپنی زبان کے حوالے سے موجود احساس کمتری کا۔ یہ احساس حکومتی اور عوامی سطح پر موجود ہے۔اس کے مقابلے میں انگریزی کو ہم اور ہماری حکومت اس لئے ترجیح دی رہی ہے کہ یہ بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے اور جدید علوم و فنون تک رسائی کا آسان ذریعہ ہے۔ اسی بات سے من حیث القوم ہماری غفلت اور تساہل کا نظارہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم اپنی زبان کو زندہ رکھنے کے لئے اسے اپنانے کی بجائے اپنے نظام تعلیم کے لئے دیگر زبانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ظاہر ہے جب زبان اپنائی جاتی ہے تو اس کی اصطلاحات اور اس کے رسوم و رواج بھی لا شعوری طور پر ہمارے اندر رچ بس جاتے ہیں۔ پاکستان میں آج جو فکری انتشار پھیلا ہوا ہے اس میں لوگوں کے مختلف گروہوں کا مختلف زبانوں میں تعلیم حاصل کرنا اور پھر ان غیر ملکی زبانوں سے پنپنے والے نظریات کا پرچار بڑا ہاتھ ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ ہمیں کوئی زبان پڑھنی یا سیکھنی نہیں چاہئے۔ بلکہ یوں دیکھنا چاہئیے کہ اپنی قومی زبان کو نظر انداز کر کے غیر زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانا آپ کی نظریاتی منزل سے آپ کو دور لے جاتا ہے اور آپ ڈگریوں کے مالک ہوتے ہوئے بھی اپنے معاشرے ، ماحول ، ادب ، ثقافت ، تمدن ، ٹیکنالوجی اور روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو اپنے دستیاب وسائل کے ذریعہ بہتر انداز میں حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی طور پر عوام اور تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو جاتی ہے۔ یوں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا جس کے نتیجہ میں سماجی و جغرافیائی ٹوٹ پھوٹ کے خدشات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں
جاری
ميں آپ کی باتوں سے سو فيصد اتفاق کرتا ہوں۔
 
ابھی تو چینی پڑھانے کا منصوبہ ہے۔ چین سے بھی امداد جو لینی ہے۔
ہمارا ہی فائدہ ہے اور چينی بھی محسوس ہوتا ہے کہ ضروری ہے۔ جہاں تک امداد لينے کی بات ہے کاش مسلم ممالک اپنی مصلحتيں سامنے رکھ کر کام کريں اور مصالح مشترک ہوں۔
 

دوست

محفلین
جتنی زبانیں ابھی سکھا رہے ہیں وہ تو آ جائیں اس قوم کو۔ یا پھر ٹیکے ایجاد کر لیں۔ ٹیکا لگایا، ہلکی سی درد ہوئی اور نئی زبان آ گئی۔
 
Top