خاصانِ خدا کے اشعار

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبیؐ پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بِنائے ملّت مِٹا رہے ہیں

یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں

غضب ہیں یہ ’مُرشدانِ خود بیں، خُدا تری قوم کو بچائے!
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزّت بنا رہے ہیں

سُنے گا اقبالؔ کون ان کو، یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سنا رہے ہیں!

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
 

سیما علی

لائبریرین
بھیا بہت بہت شکریہ ہمارا پسندیدہ ترین قطعہ شئیر کرنے کے لئے !!!!!!جیتے رہیے بہت ڈھیر ساری دعائیں🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻
 

یاسر شاہ

محفلین
شیخ کی پگڑی اچھالی جائے گی
سرکشی سر سے نکالی جائے گی

زاہدوں پر مے اچھالی جائے گی
جان ان مردوں میں ڈالی جائے گی

آج بھی بوتل جو خالی جائے گی
مار کر سر توڑ ڈالی جائے گی

مجذوب۔ رح
 

یاسر شاہ

محفلین
حضرت_ دل کر لیا اپنا انھیں
تم تو نکلے یار جادوگر کھلے

کیا خبر کس وقت ہو کیسی نظر
یوں نہ آنکلا کرو تم سر کھلے

ہو مزہ واعظ بنے پیر_ مغاں
راز _مے خانہ سر_ منبر کھلے

نوجوانی تو گنوا دی شرم میں
اب کھلے وہ بھی تو کیا پتھر کھلے

مرنے والے کا شب_ غم کون ہے
ہو کفن جب ماہ کی چادر کھلے

چھپ کے جانا ہے کہاں کہیے حضور ؟
آج کیوں یہ پائوں کے زیور کھلے

ملتے ہی سب کہہ سنایا حال دل
ضبط کس کو کون رہ رہ کر کھلے

مجذوب۔ رح
 

یاسر شاہ

محفلین
کیا نظر مجھ پر نہ ڈالی جائے گی
کیا مری فریاد خالی جائے گی

یوں نظر اب مجھ پہ ڈالی جائے گی
جب میں دیکھوں گا ہٹا لی جائے گی

اک ذرا مرضی جو پا لی جائے گی
پھر طبیعت کیا سنبھالی جائے گی

بات وہ منھ سے نکالی جائے گی
جو نہ مانی اور نہ ٹالی جائے گی

ہائے ایسے میں ہے ساقی تو کہاں ؟
کیا بھری برسات خالی جائے گی

دل میں دے دے کر حسینوں کو جگہ
حسن کی دنیا بسا لی جائے گی

آئے گا گر بزمِ مے میں محتسب
اور اک بوتل منگا لی جائے گی

غیر کی مانیں گے بے چون و چرا
میں کہوں گا فی نکالی جائے گی

بس ملامت ہی کو ہیں احباب سب
کوئی صورت بھی نکالی جائے گی

کیا خزاں کا غم گلوں کی یاد سے
روح پھولوں میں بسا لی جائے گی

آ رہا ہے جھومتا وہ مستِ ناز
اب طبیعت کیا سنبھالی جائے گی

مجذوب-رح
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
جب کسی سے لو لگا لی جائے گی
تب یہ آشفتہ خیالی جائے گی

زاہدوں پر مے اچھالی جائے گی
جان ان مُردوں میں ڈالی جائے گی

بے سوالی بھی نہ خالی جائے گی
دل کی بات آنکھوں سے پا لی جائے گی

لاکھ ہو بحرِ محبّت پرخطر
کشتیِ دل اس میں ڈالی جائے گی

لرزہ بر اندام ہیں کون و مکاں
کس کی حسرت دل میں ڈالی جائے گی

جس کو تاکوں گا نشیمن کے لیے
وہ ہی ڈالی کاٹ ڈالی جائے گی

داغِ دل چمکے گا بن کر آفتاب
لاکھ اس پر خاک ڈالی جائے گی

یاد تیری بڑھتے بڑھتے ایک دن
تا بَحدِّ بے خیالی جائے گی

ہم غریبوں کو دیے جائیں گے داغ
غیر کو پھولوں کی ڈالی جائے گی

سب ترا پردہ دھرا رہ جائے گا
جب ذرا گردن جھکا لی جائے گی

باندھ کر اُس کا تصور چشمِ شوق
وادئ ایمن بنا لی جائے گی

کر سکے خم بھی نہ جس مے کا سہار
وہ مرے ساغر میں ڈالی جائے گی

شیخ پینے کا ارادہ تو کریں
حوضِ کوثر سے منگا لی جائے گی

مستیاں مجذوب اب زیبا نہیں
وقعتِ پیرانہ سالی جائے گی

----- مجذوب-رح
 

یاسر شاہ

محفلین
شیخ کی پگڑی اچھالی جائے گی
سرکشی سر سے نکالی جائے گی

آج بھی بوتل جو خالی جائے گی
مار کر سر توڑ ڈالی جائے گی

مے بھی یوں طاہر بنا لی جائے گی
آبِ زم زم میں ملا لی جائے گی

کب نگاہِ لطف ڈالی جائے گی
کب مری آشفتہ حالی جائے گی

اور تو نکلیں ہی گے خرقے سے کام
اس میں بوتل بھی چھپا لی جائے گی

ڈال کر ان پر نظر اے چشمِ شوق
جان آفت میں نہ ڈالی جائے گی

ہائے کہنا ان کا عرضِ وصل پر
جاؤ کچھ صورت نکالی جائے گی

دے چکا ہوں دونوں عالم مے کشو
یہ گراں مے تم سے کیا لی جائے گی

اور ہو جائیں گی پیدا سیکڑو
اک اگر حسرت نکالی جائے گی

ابر میں تلقینِ توبہ شیخ جی
وقعتِ فرمانِ عالی جائے گی

کیا رہے گا دل یونہی محرومِ فیض
کیا یہ جھولی یوں ہی خالی جائے گی

اور کیا موقع ہے اب تو قبر میں
مستیِ پیرانہ سالی جائے گی

پاس جو کچھ تھا وہ صرفِ مے ہوا
اب نہ کیوں مسجد سنبھالی جائے گی

یہ سِن اے مجذوب اس پر خُم پہ خُم
کب تری بے اعتدالی جائے گی

-- مجذوب-رح
 

یاسر شاہ

محفلین
یوں ہی ٹھہری کہ ابھی جائیے گا
بات جو ہوگی سو فرمائیے گا

میں جو پوچھا کبھو آؤ گے ؟کہا
جی میں آجائے گی تو آئیے گا

میں خدا جانے یہ کیا دیکھوں ہوں
آپ کچھ جی میں نہ بھرمائیے گا

میرے ہونے سے عبث رکتے ہو
پھر اکیلے بھی تو گھبرائیے گا

کہیں ہم کو بھی ،بھلا لوگوں میں
پھرتے چلتے ہی نظر آئیے گا

درد ! ہم اس کو تو سمجھائیں گے پر
اپنے تئیں آپ بھی سمجھائیے گا

میر درد
 

سیما علی

لائبریرین
احدیت کا جب ورود ہوا
نور وحدت کا تب شہود ہوا

واحدیت ہوئی نمود اس پر
خالق و خلق کا وجود ہوا

عالم ارواح کا ہوا پیدا
شکر ہستی ہوا سجود ہوا

بعد اس کے مثال کا عالم
اس پر اجسام پھر فزود ہوا

اتنے پردے جو ذات نے پہنے
کوئی مومن کوئی یہود ہوا

نور احمد ص نے جب تجلی کی
سربسر خلق کو یہ سود ہوا

عشقؔ عاشق ہوا اسی کوں دیکھ
دل نالاں برنگ عود ہوا
خواجہ رکن الدین عشق
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
احدیت کا جب ورود ہوا
نور وحدت کا تب شہود ہوا

واحدیت ہوئی نمود اس پر
خالق و خلق کا وجود ہوا

عالم ارواح کا ہوا پیدا
شکر ہستی ہوا سجود ہوا

بعد اس کے مثال کا عالم
اس پر اجسام پھر فزود ہوا

اتنے پردے جو ذات نے پہنے
کوئی مومن کوئی یہود ہوا

نور احمد صنے جب تجلی کی
سربسر خلق کو یہ سود ہوا

عشقؔ عاشق ہوا اسی کوں دیکھ
دل نالاں برنگ عود ہوا
خواجہ رکن الدین عشق
واہ۔
نور احمد نے جب تجلی کی
صلی اللہ علیہ وسلم
 

یاسر شاہ

محفلین
چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
سعدی شیرازی رح

حضرت سعدی شیرازی رحمہ نے دمشق کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ دمشق میں عشق بازی اور حسن پرستی کی بیماری عام ہو گئی تو حق تعالیٰ کی طرف سے قحط کا عذاب آیا اور بھوک کی تکلیف سے لوگ مرنے کے قریب ہونے لگے۔تو بعض لوگوں نے ان عشق بازوں سے کہا کہ بتائو روٹی لائوں یا آپ کا معشوق لائوں تو ان عاشقوں نے کہا کہ معشوق کو ڈالو چولہے بھاڑ میں ہمیں تو روٹی لا دو کہ زندگی خطرے میں ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
غیرِ حق را ہر کہ دارد در نظر
شد یکے محتاج محتاجِ دگر

مولانا حکیم اختر رح

ترجمہ :جو شخص کہ غیر حق کو محبوب بناتا ہے وہ دراصل خود تو محتاج تھا ہی اب ایک اور محتاج کا غلام ہو کر محتاج در محتاج ہو گیا -
 

یاسر شاہ

محفلین
لائیں گے اہلِ عقل کہاں سے نصابِ دل
ہم نے تو اہلِ دل سے پڑھی ہے کتابِ دل

ان کو پسند عقل ہے ہم کو پسند عشق
اک انتخابِ ذہن ہے اک انتخابِ دل

جو آ گئے یہاں تو کہیں دل نہیں لگا
ایسا ہوا ہے نشر یہاں سے خطابِ دل

بیتابیوں نے چین سے رہنا سکھا دیا
رکھتا ہے مجھ کو مست مرا اضطرابِ دل

شاعر جلا بھنا ہوں میں مرشد کے فیض سے
کرتا ہوں پیش طشتِ غزل میں کبابِ دل

کتنا وہ اپنے دل کا ہے کتنا خدا کا ہے
دل دل میں کرتا رہتا ہے تائب حسابِ دل


خالد اقبال تائب دامت برکاتہم



کلامِ شاعر بزبان شاعر


 
Top