داغ خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا - داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
اُلٹی شکائتیں ہوئیں، احسان تو گیا

دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ! کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا

گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا

بزمِ عدو میں صورت پروانہ دل میرا
گو رشک سے جلا تیرے قربان تو گیا

ہوش و حواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
 

جیہ

لائبریرین
بہت اچھا انتخاب ہے۔



داغ دہلوی کی شاعری

داغ بنیادی طور پر ایک فطری شاعر ہیں۔ انہوں نے غزل ہی میں زیادہ طبع آزمائی کی۔ ان کو زبان پر اس حد تک دسترس حاصل تھی کہ کہا جاتا ہے کہ ان کی زبان ہی اصل میں غزل کی جان تھی۔
ان کا سرمایۂ شعر زندہ دلی، شوخی، شگفتگی، برجستگی اور سادگی و صفائی کی نعمتوں س معمور ہے۔ داغ جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ انہی کا حصہ ہے ۔ عماماً بول چال کی زبان کو بڑی قدرت و مہارت کے ساتھ استعمال میں لاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں الفاظ کے الٹ پھیر، تکرارِ لفظی اور مناسب ٹکڑے جس رکھ رکھاؤ سے موجود ہیں اور وہ ان کے لیے جو لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں، یہ انہی کا حصہ ہے۔
داغ کی شاعری کی سادگی، سلاست، صفائی اور بے ساختہ پن انہیں ایک جدا گانہ رنگ بخش دیتا ہے۔ ان کی سادگی بعض اوقات شوخی کی سی حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔ مرزا داغ کی شاعری میں جذبات کی بلندی اور تخئیل کی گہرائی بھی بہت زیادہ موجود ہے۔ پھر وہ تکرارِ لفظی سے بھی خوبیاں پیدا کردیتے ہیں
نہ مزا ہے دشمنی میں نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتاِ


ماخوذ از نقوش ادب (از فرزانہ سید)
 

فاتح

لائبریرین
اسی غزل کا ایک مزید شعر بھی ملا ہے:
ڈرتا ہوں دیکھ کر دلِ بے آرزو کو میں
سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو، مہمان تو گیا
فرخ صاحب! ہم نے کبھی غلام علی کی آواز میں تو یہ غزل نہیں سنی۔ ہاں! حامد علی خان اور ٹینا ثانی کی آوازوں میں سننے کا شرف ضرور حاصل رہا ہے۔;)
 

فرخ منظور

لائبریرین
اسی غزل کا ایک مزید شعر بھی ملا ہے:
ڈرتا ہوں دیکھ کر دلِ بے آرزو کو میں
سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو، مہمان تو گیا
فرخ صاحب! ہم نے کبھی غلام علی کی آواز میں تو یہ غزل نہیں سنی۔ ہاں! حامد علی خان اور ٹینا ثانی کی آوازوں میں سننے کا شرف ضرور حاصل رہا ہے۔;)

شکریہ فاتح صاحب۔ یہ غزل آج سے کوئی پچیس سال پہلے میں نے غلام علی کی آواز میں سنی تھی۔ اس لنک سے آپ بھی یہ غزل سن سکتے ہیں۔

http://www.radioreloaded.com/tracks/?10379
 

محمداحمد

لائبریرین
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا

ہوش و حواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

سبحان اللہ ! بہت ہی اچھی غزل ہے اور جیہ بہن نے جو داغ کا جو تعارف پیش کیا ہے وہ بھی لاجواب ہے۔
 
Top