محسن وقار علی
محفلین
بھٹو کے دیوانے کہتے ہیں بھٹو ،بھٹو تھا۔وہ عوام کی روح کو جانتا تھا۔اُن کی نبض کو پہچانتا تھا۔
واشنگٹن — بھٹو کے دیوانے کہتے ہیں بھٹو ،بھٹو تھا۔وہ عوام کی روح کو جانتا تھا۔اُن کی نبض کو پہچانتا تھا۔وہ مجمع کو ساتھ لیکر چلتا تھااور لوگ کم ازکم تقریر کی حد تک اُس کے دیوانے ہو جاتے تھے۔۔اور کہتے جاتے تھےکہ: ’کہندا تےٹھیک ای اے۔۔‘
آج کل عمران خان کے جلوسوں کا بڑا چرچا ہے، خاص طور پر جو مینارِ پاکستان میں ہوا اور جِس میں توقع سے زیادہ لوگوں نے شرکت کر کے پاکستان کی سیاست میں کھلبلی مچا دی۔
مینارِ پاکستان اور اتنا بڑ ا اجتماع ۔عمران کا جوش میں آنا قدرتی بات تھی اور اُنہو ں نے خطابت میں زور دکھانے کی بھی کوشش کی۔ اِس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئے اِس پر دو آرا ہو سکتی ہیں۔لیکن، ایک مرتبہ ان کا ہاتھ زور سے مائک سے ٹکرا گیا،یہی انداز شہباز شریف کے جلسے میں ایک روز پہلے دیکھنے میں آیا تھا، جب دو چار مائکروفون انہوں نے جوش خطابت میں گرا دئے۔
جب بھی نواز شریف ،شہباز شریف،شاہ محمود قریشی یا عمران خان کسی جلسہٴ عام میں تقریر کر رہے ہوں تو انکا جوشِ خطابت دیکھ کر نہ جانے کیوں بھٹو صاحب یاد آجاتے ہیں۔اُن کی تقریروں کی جھلکیاں ٹی وی یا you tube پر آپ دیکھ سکتے ہیں۔
بعد میں، ان کی بیٹی بینظیر نے بھی وہی انداز اپنایا،خاص طور پر آخری دنوں میں پشاور اور راولپنڈی کے جلسے کو آپ یاد کریں تو آپکو بیٹی کی زبان میں باپ کی روح بولتی نظر آےٴ گی اور حقیقت بھی شاید یہی تھی وہ اُسوقت اُن کے بہت قریب پہنچ چکی تھیں۔
لیکن, بات ہو رہی تھی بھٹو صاحب کی تو جناب۔۔بنگلہ دیش کو عوام سے منظورکرانا ہو ، کوئ اہم بات کرنی ہو ،کوئ اورقومی مسئلہ ہو وہ عوام سے کسی بہت بڑے جلسے میں خطاب کرتے تھے، اور پھر جذبات میں آکر کہتے، ’ اگر تمہیں بنگلہ دیش نا منظور ہے تو پھر بھاڑ میں جائے،ہمیں کیا لینا دینا بھاڑ میں جائے‘۔ اور پھر یاد کیجئے،لاہور ہی میں ایک جلسے میں ملیشیا کا شلوار قمیص پہنے،کھلی آستینوں کے ساتھ ،پورے جوش کے ساتھ وہ عوام سے کہہ رہےہیں :ٍ’یہ قوم ایک عظیم قوم بنے گی۔۔۔یہ قوم دنیا کا لوہا بنے گی تو محنت کروگے۔۔کام کرو گے۔۔جدوجہد کروگے۔۔لڑو گے۔۔مروگے۔۔خدا کی قسم کروگے۔ایمان سے کرو گے‘۔اور پھر اتنے جذبات میں آتے ہیں کہ ایک زور کا ہاتھ مائکروفون پر مارتے ہیں۔۔
مائکروفون گر جاتے ہیں اور مجمع پاگل ہو جاتا ہے۔
لیکن، بھٹو کے دیوانے کہتے ہیں بھٹو ،بھٹو تھا۔وہ عوام کی روح کو جانتا تھا۔اُن کی نبض کو پہچانتا تھا۔وہ مجمع کو ساتھ لیکر چلتا تھااور لوگ کم ازکم تقریر کی حد تک اُس کے دیوانے ہو جاتے تھے۔۔اور کہتے جاتے تھےکہ: ’کہندا تےٹھیک ای اے۔۔‘
بھٹو کی تقریروں کا ذکر چلا تو مجھے اُن کی وہ مشہور ابتدائی تقریر یاد آگئی جو انہوں نےوزیرِاعظم بننے کے فوراٍ بعد ٹیلیوژن اور ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔ جس میں انہوں نے اپنے Talented cousin ممتاز علی بھٹو کا ذکر کیا تھا اوراپنی حکومت کا آئندہ لائحہ عمل بیان کیا تھا۔اس کے لئے وہ خصوصی طور پر راولپنڈی میں ٹیلی وژن سٹیشن تشریف لائے، جو اُس زمانے میں چکلالہ کی فوجی بیرکوں میں تھا۔
یہ جگہ ٹی وی کے ٹریننگ سنٹر کیلئے مستعار لی گئ تھی۔
لیکن، ہمارے ٹی وی کے مَشّاق انجینئروں اور پروڈیوسروں نے اُس کو سٹیشن میں تبدیل کردیا اور ٹراننسمیشن شروع کر دی۔پھر کیسے کیسے یادگار پروگرام،ڈرامےاور سن ستّر کےالیکشن کی تاریخی 36 گھنٹے کی مسلسل ٹرانسمیشن یہیں سےہوئی۔
ذوالفقارعلی بھٹو اور صدر ضیا الحق کی کئ تقاریر یہاں کے سٹوڈیوز میں ریکارڈ کی گئیں۔
لیکن بعد میں، یہ سٹیشن خبروں اور حالاتِ حاظرہ کے لئے مخصوص ہوگیا،اور میں نے بھی خبریں پڑھنے کا آغاز یہیں سے کیا۔
تو بات تقریروں سے چل کر خبروں تک آگئ۔ ذکر ہو رہا تھا بھٹو صاحب کی تقریر کا۔اور میں اس کو اسلئے یاد کر رہا ہوں کیونکہ اس سے میری بڑی یادیں وابستہ ہیں۔
انہوں نے پورے 100 منٹ کی طویل ترین تقریر کی،لیکن یہ ساری انگریزی میں تھی۔
اب افسران کو فوراٍ خیال آیا کہ عام آدمی کو یہ کیسے سمجھ آئیگی اور فیصلہ کیا گیا کہ اِسکا اردو ترجمہ پیش کیا جائے اور چونکہ100 منٹ کی تقریر کا ترجمہ آسان نہیں تھا، اسلئے دوسرے دن رات کو وہی وقت ترجمے کیلئے مقرر کیا گیا جس وقت یہ تقریر ہوئ تھی، یعنی پورے 24گھنٹے بعد۔
ٹی وی کے ماہر مُترجمین کو فوری طور پر مامور کر دیا گیا کہ وہ پوری رات اسکا ترجمہ کریں۔ اُن میں نیوز کے انتہائ تجربہ کار مترجم جناب محمد عارف مرحوم،جناب محمد سلطان مرحوم،جناب رضی احمد رضوی، جو اب ’وائس آف امریکہ‘ میں ہیں، اور جناب شکور طاہر شامل تھے،جو بعد میںPTV کےڈائرکٹر نیوز کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔
ترجمے کا کام تو شروع ہو گیا،لیکن سوال یہ پیدا ہوا کہ اِسے پڑھے گا کون۔
اُسوقت کراچی کے جناب وراثت مرزا مرحوم،اپنی بھاری بھرکم آواز کے باعث صدر ایوب اور صدر یحیی کی تقریریں پڑھنے کیلئے مشہور تھے۔طلعت حسین اپنی خوبصورت آواز کے ساتھ موجود تھے،پھر سب سے بڑھ کر طارق عزیز تھے،جو پیپلز پارٹی کے اہم رکن اور بھٹو کے بہت قریبی ساتھی تھے اور پھر اپنے اظہر لودھی بھائ تو ہردم تیار تھے ہی۔
لیکن، تلاش ہوئی کسی نئی نوجوان آواز کی، کیونکہ وزیرِاعظم بھی نیا تھا اور نوجوان بھی!
(تو باقی احوال اگلی ملاقات میں)
واشنگٹن — بھٹو کے دیوانے کہتے ہیں بھٹو ،بھٹو تھا۔وہ عوام کی روح کو جانتا تھا۔اُن کی نبض کو پہچانتا تھا۔وہ مجمع کو ساتھ لیکر چلتا تھااور لوگ کم ازکم تقریر کی حد تک اُس کے دیوانے ہو جاتے تھے۔۔اور کہتے جاتے تھےکہ: ’کہندا تےٹھیک ای اے۔۔‘
آج کل عمران خان کے جلوسوں کا بڑا چرچا ہے، خاص طور پر جو مینارِ پاکستان میں ہوا اور جِس میں توقع سے زیادہ لوگوں نے شرکت کر کے پاکستان کی سیاست میں کھلبلی مچا دی۔
مینارِ پاکستان اور اتنا بڑ ا اجتماع ۔عمران کا جوش میں آنا قدرتی بات تھی اور اُنہو ں نے خطابت میں زور دکھانے کی بھی کوشش کی۔ اِس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوئے اِس پر دو آرا ہو سکتی ہیں۔لیکن، ایک مرتبہ ان کا ہاتھ زور سے مائک سے ٹکرا گیا،یہی انداز شہباز شریف کے جلسے میں ایک روز پہلے دیکھنے میں آیا تھا، جب دو چار مائکروفون انہوں نے جوش خطابت میں گرا دئے۔
جب بھی نواز شریف ،شہباز شریف،شاہ محمود قریشی یا عمران خان کسی جلسہٴ عام میں تقریر کر رہے ہوں تو انکا جوشِ خطابت دیکھ کر نہ جانے کیوں بھٹو صاحب یاد آجاتے ہیں۔اُن کی تقریروں کی جھلکیاں ٹی وی یا you tube پر آپ دیکھ سکتے ہیں۔
بعد میں، ان کی بیٹی بینظیر نے بھی وہی انداز اپنایا،خاص طور پر آخری دنوں میں پشاور اور راولپنڈی کے جلسے کو آپ یاد کریں تو آپکو بیٹی کی زبان میں باپ کی روح بولتی نظر آےٴ گی اور حقیقت بھی شاید یہی تھی وہ اُسوقت اُن کے بہت قریب پہنچ چکی تھیں۔
لیکن, بات ہو رہی تھی بھٹو صاحب کی تو جناب۔۔بنگلہ دیش کو عوام سے منظورکرانا ہو ، کوئ اہم بات کرنی ہو ،کوئ اورقومی مسئلہ ہو وہ عوام سے کسی بہت بڑے جلسے میں خطاب کرتے تھے، اور پھر جذبات میں آکر کہتے، ’ اگر تمہیں بنگلہ دیش نا منظور ہے تو پھر بھاڑ میں جائے،ہمیں کیا لینا دینا بھاڑ میں جائے‘۔ اور پھر یاد کیجئے،لاہور ہی میں ایک جلسے میں ملیشیا کا شلوار قمیص پہنے،کھلی آستینوں کے ساتھ ،پورے جوش کے ساتھ وہ عوام سے کہہ رہےہیں :ٍ’یہ قوم ایک عظیم قوم بنے گی۔۔۔یہ قوم دنیا کا لوہا بنے گی تو محنت کروگے۔۔کام کرو گے۔۔جدوجہد کروگے۔۔لڑو گے۔۔مروگے۔۔خدا کی قسم کروگے۔ایمان سے کرو گے‘۔اور پھر اتنے جذبات میں آتے ہیں کہ ایک زور کا ہاتھ مائکروفون پر مارتے ہیں۔۔
مائکروفون گر جاتے ہیں اور مجمع پاگل ہو جاتا ہے۔
لیکن، بھٹو کے دیوانے کہتے ہیں بھٹو ،بھٹو تھا۔وہ عوام کی روح کو جانتا تھا۔اُن کی نبض کو پہچانتا تھا۔وہ مجمع کو ساتھ لیکر چلتا تھااور لوگ کم ازکم تقریر کی حد تک اُس کے دیوانے ہو جاتے تھے۔۔اور کہتے جاتے تھےکہ: ’کہندا تےٹھیک ای اے۔۔‘
بھٹو کی تقریروں کا ذکر چلا تو مجھے اُن کی وہ مشہور ابتدائی تقریر یاد آگئی جو انہوں نےوزیرِاعظم بننے کے فوراٍ بعد ٹیلیوژن اور ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔ جس میں انہوں نے اپنے Talented cousin ممتاز علی بھٹو کا ذکر کیا تھا اوراپنی حکومت کا آئندہ لائحہ عمل بیان کیا تھا۔اس کے لئے وہ خصوصی طور پر راولپنڈی میں ٹیلی وژن سٹیشن تشریف لائے، جو اُس زمانے میں چکلالہ کی فوجی بیرکوں میں تھا۔
یہ جگہ ٹی وی کے ٹریننگ سنٹر کیلئے مستعار لی گئ تھی۔
لیکن، ہمارے ٹی وی کے مَشّاق انجینئروں اور پروڈیوسروں نے اُس کو سٹیشن میں تبدیل کردیا اور ٹراننسمیشن شروع کر دی۔پھر کیسے کیسے یادگار پروگرام،ڈرامےاور سن ستّر کےالیکشن کی تاریخی 36 گھنٹے کی مسلسل ٹرانسمیشن یہیں سےہوئی۔
ذوالفقارعلی بھٹو اور صدر ضیا الحق کی کئ تقاریر یہاں کے سٹوڈیوز میں ریکارڈ کی گئیں۔
لیکن بعد میں، یہ سٹیشن خبروں اور حالاتِ حاظرہ کے لئے مخصوص ہوگیا،اور میں نے بھی خبریں پڑھنے کا آغاز یہیں سے کیا۔
تو بات تقریروں سے چل کر خبروں تک آگئ۔ ذکر ہو رہا تھا بھٹو صاحب کی تقریر کا۔اور میں اس کو اسلئے یاد کر رہا ہوں کیونکہ اس سے میری بڑی یادیں وابستہ ہیں۔
انہوں نے پورے 100 منٹ کی طویل ترین تقریر کی،لیکن یہ ساری انگریزی میں تھی۔
اب افسران کو فوراٍ خیال آیا کہ عام آدمی کو یہ کیسے سمجھ آئیگی اور فیصلہ کیا گیا کہ اِسکا اردو ترجمہ پیش کیا جائے اور چونکہ100 منٹ کی تقریر کا ترجمہ آسان نہیں تھا، اسلئے دوسرے دن رات کو وہی وقت ترجمے کیلئے مقرر کیا گیا جس وقت یہ تقریر ہوئ تھی، یعنی پورے 24گھنٹے بعد۔
ٹی وی کے ماہر مُترجمین کو فوری طور پر مامور کر دیا گیا کہ وہ پوری رات اسکا ترجمہ کریں۔ اُن میں نیوز کے انتہائ تجربہ کار مترجم جناب محمد عارف مرحوم،جناب محمد سلطان مرحوم،جناب رضی احمد رضوی، جو اب ’وائس آف امریکہ‘ میں ہیں، اور جناب شکور طاہر شامل تھے،جو بعد میںPTV کےڈائرکٹر نیوز کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔
ترجمے کا کام تو شروع ہو گیا،لیکن سوال یہ پیدا ہوا کہ اِسے پڑھے گا کون۔
اُسوقت کراچی کے جناب وراثت مرزا مرحوم،اپنی بھاری بھرکم آواز کے باعث صدر ایوب اور صدر یحیی کی تقریریں پڑھنے کیلئے مشہور تھے۔طلعت حسین اپنی خوبصورت آواز کے ساتھ موجود تھے،پھر سب سے بڑھ کر طارق عزیز تھے،جو پیپلز پارٹی کے اہم رکن اور بھٹو کے بہت قریبی ساتھی تھے اور پھر اپنے اظہر لودھی بھائ تو ہردم تیار تھے ہی۔
لیکن، تلاش ہوئی کسی نئی نوجوان آواز کی، کیونکہ وزیرِاعظم بھی نیا تھا اور نوجوان بھی!
(تو باقی احوال اگلی ملاقات میں)
بہ شکریہاردو وی او اے