اب کے ہم اترے تو شایدکبھی تھانوں میں ملیں
جس طرح جکڑے ہوئے تیر کمانوں میں ملیں
اب نہ میں وہ ہوں، نہ مرزا ہے نہ رحمٰن ملک
ہرڑ جائیں تو کباڑی کی دکانوں میں ملیں
ترکہ سسرال کا تم میرے حوالے کر دو
مال بڑھتا ہے خزانے جو خزانوں میں ملیں
لاڑکانے کی طرف میں نہ دوبارہ جاؤں
میرے بچے تجھے یورپ کے مکانوں میں ملیں
ڈھونڈ معزول وزیروں میں وفا کے موتی
چند سکے تجھے ممکن ہے خزانوں میں ملیں
اس نے لیپ ٹاپ بھی بانٹے ہیں جلیبی کی طرح
یہ طریقے نہ شریفوں کے گھرانوں میں ملیں
انگلیوں میں مری، تم کو جو نظر آتے ہیں
ایسے ہیرے تجھے یو ایس کی دکانوں میں ملیں
میری محنت کی کمائی پہ نظر ہے سب کی
یہ اثاثے تو سوئس بینک کے خانوں میں ملیں
خالد عرفان