نوید صادق
محفلین
تضاد
اک طرف رقص پہ آمادہ سیہ کار بدن
قریہ ارض پہ کہرام بپا ایک طرف
اک طرف زور پہ طوفان ہے بدمستی کا
اک طرف لشکر ابلیس‘ خدا ایک طرف
اک طرف محفل نغمات ہے سرگرم نشاط
نسل انساں ہے اُدھر خون میں تر ایک طرف
اک طرف رونق بازار وہی ہے کہ جو تھی
کٹ گئے ماؤں کے سب لخت جگر ایک طرف
اک طرف گرگ ستم پیشہ کی یورش ہے وہی
خطہ ارض پہ ہے ایک طرف جشن بہار
اک طرف سلسلہ آہ و فغاں جاری ہے
اک طرف موج پہ ہے اپنے مغنی کا خمار
اک طرف عیش ہی عیش‘ ایک طرف آگ ہی آگ
کرہ ارض پہ آخر یہ تماشا کیا ہے
جل گیا شہر وہاں اور یہاں ایک وہی!
’’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘‘
اک طرف رقص پہ آمادہ سیہ کار بدن
قریہ ارض پہ کہرام بپا ایک طرف
اک طرف زور پہ طوفان ہے بدمستی کا
اک طرف لشکر ابلیس‘ خدا ایک طرف
اک طرف محفل نغمات ہے سرگرم نشاط
نسل انساں ہے اُدھر خون میں تر ایک طرف
اک طرف رونق بازار وہی ہے کہ جو تھی
کٹ گئے ماؤں کے سب لخت جگر ایک طرف
اک طرف گرگ ستم پیشہ کی یورش ہے وہی
خطہ ارض پہ ہے ایک طرف جشن بہار
اک طرف سلسلہ آہ و فغاں جاری ہے
اک طرف موج پہ ہے اپنے مغنی کا خمار
اک طرف عیش ہی عیش‘ ایک طرف آگ ہی آگ
کرہ ارض پہ آخر یہ تماشا کیا ہے
جل گیا شہر وہاں اور یہاں ایک وہی!
’’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘‘