جوش خالی بوتل - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
ٹیس سی اک ہو رہی ہے ہے قلبِ حق آگاہ میں
کیا بتاؤں ہمنشیں، کیا شے پڑی ہے راہ میں
کیوں نہ چھا جائے دھواں سا مطلعِ ادراک پر
بادۂ رنگیں کی بوتل، اور ٹھنڈی خاک پر
آہ اے خاموش دیوی، شب کو تیرے سامنے
کتنے رنگیں راگ ہوں گے، کتنے شیریں قہقہے
جلوہ گر ہو گی نہ جانے کس بہشتِ اوج میں
بہہ رہی ہو گی ہزاروں زمزموں کی موج میں
اے طلسمِ نغمہ و افسونِ کیفِ زندگی
اے حبابِ آبگینہ، اے سحابِ سرخوشی
اے حصارِ عافیت، اے گنبدِ رقص و غنا
اے حریمِ سر بہ مُہر، اے معبدِ صدق و صفا
مجھ سے بڑھ کر کون کر سکتا ہے تیرا احترام
میں کہ ہوں اِس وقت مینائی شریعت کا امام
تجھ میں شب کو، جب کہ حُسنِ بوستاں دَہ چند تھا
دُختِ رز کی نوجوانی کا تموّج بند تھا
حیف اے قصرِ بلوریں، تجھ پہ، اور گرد و غبار
جس میں کل تک معتکف تھی دخترِ ابرِ بہار
شب کہ محفل میں تری شورِ رباب و چنگ تھا
راستی تھی، راگنی تھی، روشنی تھی، رنگ تھا
جذب ہیں سینے میں تیرے گرمیاں نغمات کی
دل میں تیرے سو رہی ہیں کتنی دھومیں رات کی
کل تری ہر بوند تھی، اے خالقِ شعر و شباب
ماہتاب اندر عنان و آفتاب اندر رکاب
گم ہے تیرے جوہروں میں کتنے سینوں کی امنگ
تجھ میں غلطیدہ ہے کتنی نرگسی آنکھوں کا رنگ
تجھ میں محوِ خواب ہے، اے چشمۂ باغِ ارم
کتنے برگِ لالہ سے ترشے ہوئے ہونٹوں کا خم
تجھ پہ ہوگی رات کو کس ناز سے چھٹکی ہوئی
کتنے افسوں خیز مکھڑوں کی گلابی چاندنی
اور آج انداز و افسون و ادا کچھ بھی نہیں
ایک عبرتناک شیشے کے سوا کچھ بھی نہیں
اے سپہرِ تاک کے ٹوٹے ستارے، السلام
اے حریمِ کیف و مستی کے مَنارے، السلام
السلام، ے رشتۂ بشکستہ گوہر، السلام
السلام، اے جنتِ بے موجِ کوثر، السلام
السلام، اے شیشۂ محرومِ صہبا، السلام
السلام، اے محملِ گم کردہ لیلیٰ، السلام
(جوش ملیح آبادی)
 
بہت خوب اشتراک!
ہمیں یہ پڑھ کر جوش صاحب کا ایک واقعہ یاد آگیا:
خود کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ایک کوچے سے عبور کر رہا تھا۔ وہاں چادر لگائے کچھ مسلمانوں کو جھوم جھوم کر نعت خوانی کرتے دیکھا تو شریک ہو لیا۔ کچھ دیر بعد قہقہہ مارتے باہر نکل آیا۔ احباب نے وجہ پوچھی تو بتلایا: میں نے ایک نظم شراب کی خالی بوتل پر لکھی تھی۔ آج اس کو مسلمان رسول کی شان میں جھوم جھوم کر گاتے ہیں!
 
Top