Rashid Ashraf
محفلین
۔21 فروری 2005 کو انتقال کرنے والے مشفق خواجہ کی کل ساتویں برسی تھی۔ اس موقع پر ایک تبصرہ پیش خدمت ہے جسے خواجہ صاحب کے قلم سے لکھا گیا ہے، یہ قلم ہمیں استاد لاغر مراد آبادی نے عارییتا ہماری اپنی ذمہ داری پر پیش کیا تھا، اتنی بڑی ہستی کے قلم کو تھامنا بھی ایک مشکل کام ہے، چہ جائیکہ اس کا استعمال، اللہ اللہ۔
جیسے تیسے چند مضامین سرزد ہوئے، چند ہورہے ہیں۔ امید ہے مشاہیر ادب اس گستاخی کو معاف فرمائیں گے
خیر اندیش
راشد اشرف
مستنصر حسین تارڑ کا تازہ ترین انٹرویو
چند روز قبل ایک انگریزی اخبار میں تارڑ صاحب کا انٹرویو شائع ہوا ہے، اسے ہمارے کرم فرما جناب عاررف وقار نے لیا ہے۔ مذکورہ انٹرویو کا عنوان ہے:
At home with the wanderer
ہماری انگریزی ان اساتذہ کی اردو جیسی ہے جو گزشتہ 35 برس سے ماسکو یونیورسٹی میں تارڑ صاحب کی تحریریں بطور نصاب طالب علموں کو پڑھا رہے ہیں، لہذا ہم نے انٹرویو کے عنوان کا ترجمہ "ایک خانہ بدوش کے گھر میں" کے عنوان سے کیا ہے۔
انٹرویو پڑھ کر کئی دلچسپ باتوں کا علم ہوا مثلا
A few days later, the young Tarrar was shocked to see a press statement issued by the prime minister of Pakistan saying that Soviet Union was Pakistan’s mortal enemy; and that the boys who had been to Moscow were traitors and would be arrested at the Karachi airport on their return and immediately dispatched to Mianwali jail
یہ ذکر تارڑ صاحب کے 1957 میں ماسکو کے پہلے سفر سے واپسی کا ہے، ان دنوں تارڑ صاحب کی عمر 18 برس تھی۔ وہ تو میانوالی جیل جانے سے بچ گئے لیکن شنید ہے کہ میانوالی جیل میں ایسے کئی قیدی موجود ہیں جنہوں نے تارڑ صاحب کے ناولز پڑھ رکھے ہیں۔ چند ایک تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے تارڑ صاحب کا سفرنامہ ’نکلے تیری تلاش میں۔‘ پڑھ کر دساور کا رخ کیا ، وہاں دھر لیے گئے اور شکریے کے ساتھ واپس کیے گئے۔
تارڑ صاحب آگے بیان کرتے ہیں
After about half a century, in 2007, I got an invitation from The Moscow State University to deliver a series of lectures about the influence of Russian Classics on Pakistani literature. On that occasion, I was bestowed the Gold Medal for Outstanding Literary Contributions.”
خفیہ ذرائع سے ہمیں یہ علم ہوا کہ تارڑ صاحب نے ماسکو یونیورسٹی میں "روسی فن پاروں کے پاکستانی ادب پر اثرات" کے ضمن میں اپنی ہی تحریریں پیش کیں، سند کے طور پر انہوں نے روس کے پس منظر میں لکھی اپنی تخلیقات کو پیش کیا جن میں ان کا ناول جپسی، ماسکو کی سفید راتیں وغیرہ شامل ہیں۔ روسی فن پاروں کے پاکستانی ادب پر جتنے اثرات تارڑ صاحب کی تحریروں پر نظر آتےہیں، شاید ہی کوئی دوسری مثال مل سکے۔ تارڑ صاحب کا جلد شائع ہونے والا ناول بھی ماسکو ہی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔
ماسکو یونیورسٹی کی
Professor Galina Dushenko
کے لیے پاکستان یا تو فیض کی شاعری ہے یا پھر مستنصر کا ناول
ان کے الفاظ میں:
“For us, Pakistan is Faiz’s poetry and Tarrar’s novels”
فیض کی شاعری تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، البتہ خاتون پروفیسر کے بیان کے دوسرے حصے کو پڑھ کر ماسکو اور اسلام آباد کے خراب تعلقات کا سبب اب ذرا واضح طور پر سمجھ میں آیا ہے۔ گزشتہ 35 برس میں تو ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب یہ یہ حالات خطرناک حد تک خراب ہوگئے تھے، خبریں گرم تھیں کہ روس کی جانب سے حملہ اب ہوا کہ تب ہوا. یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ خاتون پروفیسر کے لیے پاکستان، تارڑ صاحب کا ناول ہی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں، یہاں ایک مطلب تو سیدھا سیدھا یہ نکلتا ہے کہ شاید خاتون کا اشارہ یہاں تارڑ صاحب کے ناول راکھ کے عنوان کی جانب ہے کہ وطن عزیز میں گزشتہ چند برسوں سے جو کچھ ہورہا ہے اس کے پیش نظر "راکھ" ہی کی جانب ذہن جاتا ہے۔
انٹرویو میں اس بات کا خصوصی ذکر ہے کہ ماسکو یونیورسٹی میں 35 برس سے تارڑ صاحب کی چند تحریریں نصاب میں شامل ہیں.
یونیورسٹی کی سطح پر تحقیقی کام بھی ہوتے رہتے ہیں اور ان کے عوض پی ایچ ڈی کی سند بھی جاری کی جاتی ہے، ہمیں امید ہے کہ یہ تارڑ صاحب کی تحریروں پر بھی پی ایچ ڈی کی جائے گی یا ہوسکتا ہے کہ اب تک کی جاچکی ہو۔
کہا جاتا ہے کہ:
""مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں جن کاموں پر سزا ہوسکتی ہے، انہی کاموں پر بعض پسماندہ
ایشیائی ممالک میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جاتی ہے۔""
تارڑ صاحب کے معاملے میں مندرجہ بالا بیان کو الٹ کر (مہذب ممالک سے ایشیائی ممالک کے الٹ پھیر کے ساتھ) پڑھا جائے تو مفہوم واضح ہوتا نظر آتا ہے۔
یہ مقام شکر ہے کہ تارڑ صاحب کی تحریریں ماسکو یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کی گئیں، ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں، خدا کا شکر ہے کہ ان کی محنت ضائع نہیں ہوئی ورنہ اس قسم کی کوششوں میں ہم نے خود ادیب کو ضائع ہوتے دیکھا ہے۔
انٹرویو میں ایک ٹکڑا یہ بھی پڑھا کہ:
Dr Christina Oesterheld, from the Institute of Modern South Asian Languages and Literatures, Heidelberg University, Germany, is an expert in modern Urdu Literature. She specialises in the fiction of Quratulain Hyder, but she has declared my novel Raakh to be the most representative piece of fiction of the whole subcontinent.”
ڈاکٹر اوسٹرہیلڈ سے ابن صفی کے تعلق سے ہمارا رابطہ بھی رہا ہے، کیا خوب خاتون ہیں۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ ایک غیر ملک سے تعلق رکھنے والی نے ہمارے ادیب کے مقام کا تعین کیا ہے، یہ کام تو ہمارے نقادوں کو کرنا چاہیے۔ ایک نقاد سے ہماری اس سلسلے میں بات ہوئی تھی، کہنے لگے کہ راکھ کو پڑھنے کے بعد ان کے ہاتھ میں سوائے راکھ کے، اور کچھ نہ آیا لہذا انہوں نے اس پر تبصرہ لکھنے کا خیال ترک کردیا۔
ہم اس شر پسندانہ رائے سے ہرگز ہرگز اتفاق نہیں کرتے! لیکن حال ہی میں ہمیں ناقدین کے تارڑ صاحب کے بارے میں اس معاندانہ رویے کی ایک اہم وجہ معلوم ہوئی ہے۔ دونوں طرف ہے "آگ" برابر لگی ہوئے کے مصداق تارڑ صاحب بھی نقادوں سے سخت بیزار ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ تارڑ صاحب کا ایک حالیہ بیان لاہور کے الحمراء کے جنوری 2012 کے سالنامے میں شائع ہوا ہے۔ مدیر الحراء کی ہمت کو داد ہے کہ ان کا خط شائع کردیا۔ اپنے خط میں فرماتے ہیں
" درانی نامہ اور محمد کاظم کی آپ بیتی ‘دن جو علی گڑھ میں گزرے‘ ایسی تخلیقات ہیں جو الحمراء میں مسلسل شائع ہونے والی زہر ناک اور گھٹیا تحریروں کی کڑواہٹ بھلا دیتی ہیں جن میں کسی ایک ادبی شخصیت پرنہایت پلید وار کیے جاتے ہیں۔
آپ کی خواہش اور فرمائش سر آنکھوں پر۔ میں اپنے تازہ ناول کے کچھ حصے آپ کی نذر کرتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ محفل احباب میں ہمہ وقت موجود پر تعصب اور مدرسی نقاد اس ناول پر اپنی عالمانہ رائے دینے سے اجتناب کریں، خاموشی اختیار کریں۔" (مستنصر حسین تارڑ)
ہم نے الحراء کے چند گزشتہ شماروں کا بندوبست کرنے کی کوشش کی ہے، ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ محفل احباب میں ایسے کون سے "پُر تعصب اور مدرسی نقاد‘ ہیں جنہیں سوائے الحمراء کی محفل احباب میں موجود رہنے کے، اور کوئی کام ہی نہیں۔
استاد لاغر مراد آبادی نے مذکورہ خط پڑھنے کے بعد فرمایا کہ "تارڑ صاحب نے اب تک جتنے ناولز لکھے ہیں ان پر ان کے اپنے الفاظ میں ‘خاموشی اختیار کرلینا‘ ہی بہتر ہے۔
لیکن تمام لوگ ایک جیسا نہیں سوچتے۔ ڈاکٹرظہور احمد اعوان مرحوم نے دو برس قبل تارڑ صاحب کے بارے میں اپنی ایک عقیدت بھری تحریر میں لکھا تھا کہ "تارڑ نے یہی کارنامہ کر دکھایا ہے کہ معمولی کو غیر معمولی بنا دیا ہے اور عام باحیا خواتین کے کرداروں کو پہاڑوں‘ صحراؤں اور جنگلوں کی بستیوں میں افسانوی کردار بخش کر زندہ و امر کر دیا ہے۔"
اعوان صاحب کے اس بیان کے پہلے حصے سے ہمیں مکمل اتفاق ہے کہ تارڑ صاحب کی تحریروں کے ہم بھی مداح ہیں لیکن تارڑ صاحب کے سفرناموں و ناولوں بالخصوص نکلے تری تلاش میں، اندلس میں اجنبی اور جپسی میں "عام باحیا خواتین" تو ڈھونڈ ے سے نہیں ملتیں۔ بلکہ ایک آبی ذخیرے کے کنارے غسل کرتی جن خواتین کا تفصیلی بیان’ اندلس میں اجنبی ‘میں ملتا ہے، ان میں تو حیا بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ اگر حسن اتفاق سے تارڑ صاحب کو ڈاکٹر ناژلا سعد، پاسکل، مارگریتا اور مرسیڈس جیسی باحیا خواتین دوران سفر مل بھی جاتی تھیں تووہ بھی ملاقات کے بعد اپنی حیا اور تارڑ صاحب، دونوں کو ڈ ھونڈتی پھرتی تھیں۔تارڑ صاحب کے سفراندلس کے دوران ان کی ملاقات ڈاکٹر ناژلا سعد سے ہوئی تھی، مختصر وقت ہی میںان کے اس نیک بی بی سے تعلقات اس نہج پر پہنچ گئے کہ وقت رخصت، دونوں قرطبہ کی ایک بند گلی میں پہنچ گئے تھے اور جہاں بقول تارڑ صاحب، ’ اسے چھونے کے لیے مجھے خلیل جبران کی ضرورت نہ تھی‘۔ تارڑ صاحب تو ڈاکٹر ناژلا کو چھوڑ کر کب کے پاکستان واپس آگئے لیکن مذکورہ سفرنامے کا قاری اب تک اس بند گلی ہی میں بھٹک رہا ہے۔
ایک زمانے میں تارڑ صاحب کے سفرناموں کی مقبولیت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ راوی کے بیان کے مطابق لاہور کے یعقوب ناسک لندن علاج کی غرض سے گئے، وہ ٹیوب میں سفر کررہے تھے، ان کے برابر میں ایک انگریزی خاتون محوخواب تھیں ،سوتے سوتے ان کا سر یعقوب صاحب کے کندھے سے آلگا۔ انہوں نے خاتون کو جگاتے ہوئے کہا ’’ بی بی اٹھو! میں یقوب ناسک ہوں، مستنصر حسین تارڑ نہیں‘‘۔
ظہور اعوان صاحب عقیدت میں اس قدر بڑھ گئے اور یہ لکھنے سے بھی نہیں چوکے کہ "میں کسی زمانے میں مستنصر حسین تارڑ سے کہا کرتا تھا کہ تارڑ صاحب آپ کمرے سے غسل خانے تک جائیں تو اتنے عرصے کا بھی سفرنامہ لکھ دیں گے۔"
اس جملے سے یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ تعریف ہے یا کچھ اور۔ اعوان صاحب نے یہ غور نہیں کیا ان کی رائے پر عمل کے نتیجے میں تارڑ صاحب کے قاری کو ایک محتاط اندازے کے مطابق سال میں ان کے 1095 سفرنامے پڑھنے کو ملیں گے۔ تارڑ صاحب کے ناشر کو چھوڑ کر ان کے قارئین کو اس کا کتنا مالی نقصان ہوگا، اعوان صاحب نے اس بارے میں نہیں سوچاتھا۔
تارڑ صاحب کے سفرناموں نکلے تری تلاش میں، اندلس میں اجنبی اور ناول فاختہ پر معروف ادیب محمد خالد اختر کے تند و تیز مضامین بھی خاصے کی چیز ہیں۔ ان مضامین میں ستائش بھی ہے اور تنقید بھی ، محمد خالد اختر کے منفرد اسلوب نے ان مضامین کو کتابوں پر کیے گئے تبصروں میں ایک الگ مقام دیا ہے۔
انٹرویو کے آخر میں تارڑ صاحب سے ایک دلچسپ سوال کیا گیا، پوچھا گیا
Wearing so many feathers in his cap — a travel writer, a novelist, a playwright, a columnist, a television presenter and an actor — how would he like to be remembered, say, 50 years from now, I ask. He looks directly into my eyes for the first time during the conversation and puts me a counter question, rather wryly, “Fifty years from now, or fifty years from the day I’m buried under tons of soil in my family graveyard?”
After a deep breath, he says, “All these feathers in my cap will be blown away by the dust-storm of time. The travel writer, the novelist, the media person will vanish in the fog of future. If, however, the impossible happens and some crackpot discovers me in the future, I would like to be remembered as a person who devoted his whole life sweating at his study table, as a travel writer and a novelist. Presumptions are pretensions but two of my novels, Bahaao and
Khaso Khashaak Zamanay may survive.”
جیسے تیسے چند مضامین سرزد ہوئے، چند ہورہے ہیں۔ امید ہے مشاہیر ادب اس گستاخی کو معاف فرمائیں گے
خیر اندیش
راشد اشرف
مستنصر حسین تارڑ کا تازہ ترین انٹرویو
چند روز قبل ایک انگریزی اخبار میں تارڑ صاحب کا انٹرویو شائع ہوا ہے، اسے ہمارے کرم فرما جناب عاررف وقار نے لیا ہے۔ مذکورہ انٹرویو کا عنوان ہے:
At home with the wanderer
ہماری انگریزی ان اساتذہ کی اردو جیسی ہے جو گزشتہ 35 برس سے ماسکو یونیورسٹی میں تارڑ صاحب کی تحریریں بطور نصاب طالب علموں کو پڑھا رہے ہیں، لہذا ہم نے انٹرویو کے عنوان کا ترجمہ "ایک خانہ بدوش کے گھر میں" کے عنوان سے کیا ہے۔
انٹرویو پڑھ کر کئی دلچسپ باتوں کا علم ہوا مثلا
A few days later, the young Tarrar was shocked to see a press statement issued by the prime minister of Pakistan saying that Soviet Union was Pakistan’s mortal enemy; and that the boys who had been to Moscow were traitors and would be arrested at the Karachi airport on their return and immediately dispatched to Mianwali jail
یہ ذکر تارڑ صاحب کے 1957 میں ماسکو کے پہلے سفر سے واپسی کا ہے، ان دنوں تارڑ صاحب کی عمر 18 برس تھی۔ وہ تو میانوالی جیل جانے سے بچ گئے لیکن شنید ہے کہ میانوالی جیل میں ایسے کئی قیدی موجود ہیں جنہوں نے تارڑ صاحب کے ناولز پڑھ رکھے ہیں۔ چند ایک تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے تارڑ صاحب کا سفرنامہ ’نکلے تیری تلاش میں۔‘ پڑھ کر دساور کا رخ کیا ، وہاں دھر لیے گئے اور شکریے کے ساتھ واپس کیے گئے۔
تارڑ صاحب آگے بیان کرتے ہیں
After about half a century, in 2007, I got an invitation from The Moscow State University to deliver a series of lectures about the influence of Russian Classics on Pakistani literature. On that occasion, I was bestowed the Gold Medal for Outstanding Literary Contributions.”
خفیہ ذرائع سے ہمیں یہ علم ہوا کہ تارڑ صاحب نے ماسکو یونیورسٹی میں "روسی فن پاروں کے پاکستانی ادب پر اثرات" کے ضمن میں اپنی ہی تحریریں پیش کیں، سند کے طور پر انہوں نے روس کے پس منظر میں لکھی اپنی تخلیقات کو پیش کیا جن میں ان کا ناول جپسی، ماسکو کی سفید راتیں وغیرہ شامل ہیں۔ روسی فن پاروں کے پاکستانی ادب پر جتنے اثرات تارڑ صاحب کی تحریروں پر نظر آتےہیں، شاید ہی کوئی دوسری مثال مل سکے۔ تارڑ صاحب کا جلد شائع ہونے والا ناول بھی ماسکو ہی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔
ماسکو یونیورسٹی کی
Professor Galina Dushenko
کے لیے پاکستان یا تو فیض کی شاعری ہے یا پھر مستنصر کا ناول
ان کے الفاظ میں:
“For us, Pakistan is Faiz’s poetry and Tarrar’s novels”
فیض کی شاعری تک تو بات سمجھ میں آتی ہے، البتہ خاتون پروفیسر کے بیان کے دوسرے حصے کو پڑھ کر ماسکو اور اسلام آباد کے خراب تعلقات کا سبب اب ذرا واضح طور پر سمجھ میں آیا ہے۔ گزشتہ 35 برس میں تو ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب یہ یہ حالات خطرناک حد تک خراب ہوگئے تھے، خبریں گرم تھیں کہ روس کی جانب سے حملہ اب ہوا کہ تب ہوا. یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ خاتون پروفیسر کے لیے پاکستان، تارڑ صاحب کا ناول ہی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں، یہاں ایک مطلب تو سیدھا سیدھا یہ نکلتا ہے کہ شاید خاتون کا اشارہ یہاں تارڑ صاحب کے ناول راکھ کے عنوان کی جانب ہے کہ وطن عزیز میں گزشتہ چند برسوں سے جو کچھ ہورہا ہے اس کے پیش نظر "راکھ" ہی کی جانب ذہن جاتا ہے۔
انٹرویو میں اس بات کا خصوصی ذکر ہے کہ ماسکو یونیورسٹی میں 35 برس سے تارڑ صاحب کی چند تحریریں نصاب میں شامل ہیں.
یونیورسٹی کی سطح پر تحقیقی کام بھی ہوتے رہتے ہیں اور ان کے عوض پی ایچ ڈی کی سند بھی جاری کی جاتی ہے، ہمیں امید ہے کہ یہ تارڑ صاحب کی تحریروں پر بھی پی ایچ ڈی کی جائے گی یا ہوسکتا ہے کہ اب تک کی جاچکی ہو۔
کہا جاتا ہے کہ:
""مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں جن کاموں پر سزا ہوسکتی ہے، انہی کاموں پر بعض پسماندہ
ایشیائی ممالک میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جاتی ہے۔""
تارڑ صاحب کے معاملے میں مندرجہ بالا بیان کو الٹ کر (مہذب ممالک سے ایشیائی ممالک کے الٹ پھیر کے ساتھ) پڑھا جائے تو مفہوم واضح ہوتا نظر آتا ہے۔
یہ مقام شکر ہے کہ تارڑ صاحب کی تحریریں ماسکو یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کی گئیں، ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں، خدا کا شکر ہے کہ ان کی محنت ضائع نہیں ہوئی ورنہ اس قسم کی کوششوں میں ہم نے خود ادیب کو ضائع ہوتے دیکھا ہے۔
انٹرویو میں ایک ٹکڑا یہ بھی پڑھا کہ:
Dr Christina Oesterheld, from the Institute of Modern South Asian Languages and Literatures, Heidelberg University, Germany, is an expert in modern Urdu Literature. She specialises in the fiction of Quratulain Hyder, but she has declared my novel Raakh to be the most representative piece of fiction of the whole subcontinent.”
ڈاکٹر اوسٹرہیلڈ سے ابن صفی کے تعلق سے ہمارا رابطہ بھی رہا ہے، کیا خوب خاتون ہیں۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ ایک غیر ملک سے تعلق رکھنے والی نے ہمارے ادیب کے مقام کا تعین کیا ہے، یہ کام تو ہمارے نقادوں کو کرنا چاہیے۔ ایک نقاد سے ہماری اس سلسلے میں بات ہوئی تھی، کہنے لگے کہ راکھ کو پڑھنے کے بعد ان کے ہاتھ میں سوائے راکھ کے، اور کچھ نہ آیا لہذا انہوں نے اس پر تبصرہ لکھنے کا خیال ترک کردیا۔
ہم اس شر پسندانہ رائے سے ہرگز ہرگز اتفاق نہیں کرتے! لیکن حال ہی میں ہمیں ناقدین کے تارڑ صاحب کے بارے میں اس معاندانہ رویے کی ایک اہم وجہ معلوم ہوئی ہے۔ دونوں طرف ہے "آگ" برابر لگی ہوئے کے مصداق تارڑ صاحب بھی نقادوں سے سخت بیزار ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ تارڑ صاحب کا ایک حالیہ بیان لاہور کے الحمراء کے جنوری 2012 کے سالنامے میں شائع ہوا ہے۔ مدیر الحراء کی ہمت کو داد ہے کہ ان کا خط شائع کردیا۔ اپنے خط میں فرماتے ہیں
" درانی نامہ اور محمد کاظم کی آپ بیتی ‘دن جو علی گڑھ میں گزرے‘ ایسی تخلیقات ہیں جو الحمراء میں مسلسل شائع ہونے والی زہر ناک اور گھٹیا تحریروں کی کڑواہٹ بھلا دیتی ہیں جن میں کسی ایک ادبی شخصیت پرنہایت پلید وار کیے جاتے ہیں۔
آپ کی خواہش اور فرمائش سر آنکھوں پر۔ میں اپنے تازہ ناول کے کچھ حصے آپ کی نذر کرتا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ محفل احباب میں ہمہ وقت موجود پر تعصب اور مدرسی نقاد اس ناول پر اپنی عالمانہ رائے دینے سے اجتناب کریں، خاموشی اختیار کریں۔" (مستنصر حسین تارڑ)
ہم نے الحراء کے چند گزشتہ شماروں کا بندوبست کرنے کی کوشش کی ہے، ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ محفل احباب میں ایسے کون سے "پُر تعصب اور مدرسی نقاد‘ ہیں جنہیں سوائے الحمراء کی محفل احباب میں موجود رہنے کے، اور کوئی کام ہی نہیں۔
استاد لاغر مراد آبادی نے مذکورہ خط پڑھنے کے بعد فرمایا کہ "تارڑ صاحب نے اب تک جتنے ناولز لکھے ہیں ان پر ان کے اپنے الفاظ میں ‘خاموشی اختیار کرلینا‘ ہی بہتر ہے۔
لیکن تمام لوگ ایک جیسا نہیں سوچتے۔ ڈاکٹرظہور احمد اعوان مرحوم نے دو برس قبل تارڑ صاحب کے بارے میں اپنی ایک عقیدت بھری تحریر میں لکھا تھا کہ "تارڑ نے یہی کارنامہ کر دکھایا ہے کہ معمولی کو غیر معمولی بنا دیا ہے اور عام باحیا خواتین کے کرداروں کو پہاڑوں‘ صحراؤں اور جنگلوں کی بستیوں میں افسانوی کردار بخش کر زندہ و امر کر دیا ہے۔"
اعوان صاحب کے اس بیان کے پہلے حصے سے ہمیں مکمل اتفاق ہے کہ تارڑ صاحب کی تحریروں کے ہم بھی مداح ہیں لیکن تارڑ صاحب کے سفرناموں و ناولوں بالخصوص نکلے تری تلاش میں، اندلس میں اجنبی اور جپسی میں "عام باحیا خواتین" تو ڈھونڈ ے سے نہیں ملتیں۔ بلکہ ایک آبی ذخیرے کے کنارے غسل کرتی جن خواتین کا تفصیلی بیان’ اندلس میں اجنبی ‘میں ملتا ہے، ان میں تو حیا بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ اگر حسن اتفاق سے تارڑ صاحب کو ڈاکٹر ناژلا سعد، پاسکل، مارگریتا اور مرسیڈس جیسی باحیا خواتین دوران سفر مل بھی جاتی تھیں تووہ بھی ملاقات کے بعد اپنی حیا اور تارڑ صاحب، دونوں کو ڈ ھونڈتی پھرتی تھیں۔تارڑ صاحب کے سفراندلس کے دوران ان کی ملاقات ڈاکٹر ناژلا سعد سے ہوئی تھی، مختصر وقت ہی میںان کے اس نیک بی بی سے تعلقات اس نہج پر پہنچ گئے کہ وقت رخصت، دونوں قرطبہ کی ایک بند گلی میں پہنچ گئے تھے اور جہاں بقول تارڑ صاحب، ’ اسے چھونے کے لیے مجھے خلیل جبران کی ضرورت نہ تھی‘۔ تارڑ صاحب تو ڈاکٹر ناژلا کو چھوڑ کر کب کے پاکستان واپس آگئے لیکن مذکورہ سفرنامے کا قاری اب تک اس بند گلی ہی میں بھٹک رہا ہے۔
ایک زمانے میں تارڑ صاحب کے سفرناموں کی مقبولیت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ راوی کے بیان کے مطابق لاہور کے یعقوب ناسک لندن علاج کی غرض سے گئے، وہ ٹیوب میں سفر کررہے تھے، ان کے برابر میں ایک انگریزی خاتون محوخواب تھیں ،سوتے سوتے ان کا سر یعقوب صاحب کے کندھے سے آلگا۔ انہوں نے خاتون کو جگاتے ہوئے کہا ’’ بی بی اٹھو! میں یقوب ناسک ہوں، مستنصر حسین تارڑ نہیں‘‘۔
ظہور اعوان صاحب عقیدت میں اس قدر بڑھ گئے اور یہ لکھنے سے بھی نہیں چوکے کہ "میں کسی زمانے میں مستنصر حسین تارڑ سے کہا کرتا تھا کہ تارڑ صاحب آپ کمرے سے غسل خانے تک جائیں تو اتنے عرصے کا بھی سفرنامہ لکھ دیں گے۔"
اس جملے سے یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ تعریف ہے یا کچھ اور۔ اعوان صاحب نے یہ غور نہیں کیا ان کی رائے پر عمل کے نتیجے میں تارڑ صاحب کے قاری کو ایک محتاط اندازے کے مطابق سال میں ان کے 1095 سفرنامے پڑھنے کو ملیں گے۔ تارڑ صاحب کے ناشر کو چھوڑ کر ان کے قارئین کو اس کا کتنا مالی نقصان ہوگا، اعوان صاحب نے اس بارے میں نہیں سوچاتھا۔
تارڑ صاحب کے سفرناموں نکلے تری تلاش میں، اندلس میں اجنبی اور ناول فاختہ پر معروف ادیب محمد خالد اختر کے تند و تیز مضامین بھی خاصے کی چیز ہیں۔ ان مضامین میں ستائش بھی ہے اور تنقید بھی ، محمد خالد اختر کے منفرد اسلوب نے ان مضامین کو کتابوں پر کیے گئے تبصروں میں ایک الگ مقام دیا ہے۔
انٹرویو کے آخر میں تارڑ صاحب سے ایک دلچسپ سوال کیا گیا، پوچھا گیا
Wearing so many feathers in his cap — a travel writer, a novelist, a playwright, a columnist, a television presenter and an actor — how would he like to be remembered, say, 50 years from now, I ask. He looks directly into my eyes for the first time during the conversation and puts me a counter question, rather wryly, “Fifty years from now, or fifty years from the day I’m buried under tons of soil in my family graveyard?”
After a deep breath, he says, “All these feathers in my cap will be blown away by the dust-storm of time. The travel writer, the novelist, the media person will vanish in the fog of future. If, however, the impossible happens and some crackpot discovers me in the future, I would like to be remembered as a person who devoted his whole life sweating at his study table, as a travel writer and a novelist. Presumptions are pretensions but two of my novels, Bahaao and
Khaso Khashaak Zamanay may survive.”