سید عمران

محفلین
والدین اور بڑے بوڑھوں کی بے اکرامی اور ان سے بدتمیزی گھر گھر کی داستان بن چکا ہے۔ یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کا نہیں ساری دنیا کا ہے۔ گزرے برسوں کی بات تھی جب غیر مسلم بھی اپنے والدین اور بزرگوں کا اکرام کرتے تھے۔ ہندوؤں میں تو یہ مقولہ مشہور تھا ’’ کرو گےسیوا ، ملے گا میوہ‘‘۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے چند برسوں میں صورتِ حال بالکل بدل گئی۔ یورپ اور امریکہ میں اولڈ ہومز قائم ہوگئے جہاں والدین کو بوڑھا ہونے پر پہنچا دیا جاتا ہے اور مرتے دم تک خبر نہیں لی جاتی۔
یہ رجحان ہمارے معاشرے میں بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ آہستہ آہستہ اولڈ ہومز قائم ہورہے ہیں جن میں بوڑھے والدین کو داخل کر دیا جاتا ہے ، پھر پلٹ کر پوچھتے بھی نہیں کہ کس حال میں ہیں۔ اور اگر والدین کو ساتھ رکھتے ہیں تو جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں کہ ان کو زنجیریں پہنا کر ایک کمرے میں قید کردیا گیا، وہیں ان کو کھانا پینا دیا اور ملازم آکر وقتاً فوقتاً صفائی کرگیا۔ ان بے چاروں کا دنیا اور دنیا کی خوشیوں سے کوئی رابطہ نہیں رہتا، یہ زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیاتِ مبارکہ میں جن چند باتوں پر انتہائی غضب ناک ہوئے ان میں سے ایک والدین کی نافرمانی بھی تھی۔ ایسے بدترین لوگوں کو آپ نے دل سے بددعا دی کہ ہلاک و برباد ہوجائے وہ شخص جس نے اپنے والدین کی خدمت نہیں کی۔ اور فرمایا کہ ہر گناہ کی سزا آخرت میں ملے گی لیکن والدین کے نافرمان کو اس وقت تک موت نہ دی جائے گی جب تک وہ اس گناہ کا عذاب نہ چکھ لے۔
یہی حال دوسرے رشتے داروں سے سلوک کا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچوں کی والدہ کی اپنے سسرال سے نہیں بنتی، خاص کر ساس اور نند سے۔ کچھ تو اس میں حقیقت ہوتی ہے اور کچھ بلاوجہ کا بیر۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ماں اپنی اولاد کو ان کے خلاف بھڑکاتی ہے، ان سے دور رکھتی ہے اور ان کے دلوں میں نفرت کے بیج بوتی ہے۔ یاد رکھیے آپ کی ماں کی ساس یا نند آپ کی دادی یا پھوپھی بھی ہیں۔ بڑوں کے جھگڑوں میں پڑ کر آپ کو ہرگز اپنی عاقبت خراب کرنے کی ضرورت نہیں۔ اوّل تو ان سب کو ادب و محبت سے سمجھائیں، یا تو خود بدگمانیاں دور کریں یا ان کے کسی ہم عمر یا بزرگ کے ذریعے معاملہ خوشگوار بنانے کی کوشش کریں۔ لیکن کوئی سدھرے یا نہیں آپ قطعاً نہ بگڑیں۔ اپنے ددھیال والوں سے دلی محبت، ادب اور خدمت کا وہی برتاؤ رکھیں جو ننھیال والوں سے کرتے ہیں۔ آپ کے وجود کو دنیا میں لانے کا سبب جس طرح آپ کے والدین ہیں اسی طرح آپ کے دادا اور دادی بھی ہیں۔ آپ کے والد کی طرح آپ کے چچا اور بھوپھی بھی آپ کے دادا اور دادی کی اولاد ہیں۔ اخلاقاً اور مروتاً ان کا ادب و احترام آپ پر اسی طرح واجب ہے جس طرح آپ کے والدین کا۔
بعض مرتبہ معاملہ اُلٹ ہوتا ہے۔ اسلام سے قبل عرب معاشرے میں اور آج بھی بعض علاقوں میں جہاں عورت کو کم حیثیت سمجھا جاتا ہے مرد اپنی سسرال کو بھی کم تر سمجھتا ہے، ساس اور سسر کو حقارت سے دیکھتا ہے اور اپنے بچوں کا اس کی ننھیال میں گھلنے ملنے یا زیادہ قریب ہونے کو پسند نہیں کرتا، اپنی بیوی کو بھی اس کے والدین اور بہن بھائیوں سے ملنے نہیں دیتا اور ان کا اپنے گھر آنا بھی پسند نہیں کرتا۔ ان سب باتوں کا اسلام سے، اللہ اور اس کے رسول سے حتی کہ انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ننھیال سے متعلق رشتوں کو بہت محبت سے سرفراز فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد مبارک ہے کہ خالہ ماں کے برابر ہوتی ہے۔ یعنی عزت و احترام کے لحاظ سے اس کا بھی وہی مرتبہ ہے جو تمہاری ماں کا ہے۔ جس طرح ماں سے بدتمیزی حرام ہے ماں کے بہن بھائیوں سے بھی حرام ہے۔ آپ نے تو اپنے اخلاق مبارک ایسے پیش کیے کہ آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد جب ان کی بہن حضرت ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے ایک مرتبہ آپ کے گھر آئیں تو آپ نے نہایت خوشی کا اظہار فرمایا اور بہت بشاشت سے ان کا استقبال کیا۔ اس عمل کا مقصد دنیا کو بتانا تھا کہ بیوی کے رشتے داروں کے لیے بھی عزت و محبت کا ایک حق ہے۔
بہرحال مرد اور عورت دونوں پر اپنے سسرال کا حق ہے۔ شوہر اور بیوی کے والدین اور بہن بھائیوں سے ادب و احترام اور رشتے داری نبھانے کا وہی حق ہے جو آپ کے سگے بہن بھائی اور والدین کا ہے مثلاً ان کی خوشی، غمی میں شرکت کرنا،بوقتِ ضرورت ان کے کام آنا، ان کی برائی نہ کرنا، ان سے لڑائی جھگڑا نہ کرنا اور اپنے بچوں کے دلوں میں ان کے خلاف بغض و نفرت کے بیج نہ بونا۔
بڑوں کا ادب و احترام صرف قریبی رشتے داروں تک محدود نہیں ہے بلکہ دور دراز کی رشتے داری ہو یا پاس پڑوس میں کوئی بزرگ ہو حتی کہ جس اجنبی بزرگ کو آپ نہیں جانتے اس کا ادب کرنا بھی آپ پر واجب اور اس سے بدتمیزی اور گستاخی کرنا حرام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے بڑوں کی عزت نہ کی اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھنا منظور نہیں پھر تو جو چاہے کریں لیکن اگر اس تعلق کو قائم رکھنا ہے، ا س میں ترقی کرنا ہے تو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔
آج خود اعتمادی اور بولڈ نیس کے نام پر بچوں کو بدتمیز اور گستاخ بنایا جارہا ہے۔ بچہ اپنے بڑوں کو بدتمیزی اور روکھے پن سے دو ٹوک جواب دے تو والدین خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے بچے میں کانفیڈینس یعنی خود اعتمادی کا لیول بہت ہائی ہے۔ بڑے ہوکر یہی بچہ اپنے منہ پھٹ ہونے پر فخر کرتا ہے کہ میں بہت اسٹریٹ فارورڈ ہوں، جو منہ میں آیا کہہ دیتا ہوں۔ خود اعتمادی، بولڈنیس اور اسٹریٹ فارورڈ کے نام پر بدتمیز اور بد تہذیب ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپس میں دل پھٹ گئے، معاشرتی مراسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئےحتی کہ ملازمت اور کاروبار میں بھی اعتماد اور رواداری کا فقدان ہوگیا۔
بدتہذیبی کے اس بگاڑ کا اثر جب دنیا کے معاشرتی بگاڑ اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی صورت میں ظاہر ہوا تو اس عالمگیر مسئلے کے سدِّباب کے لیے دنیا بھر میں بے شمار ادارے ’’سوشل انٹریکشن‘‘کے نام سے ہزاروں روپے کے کورس لے کر میدان میں اترے اور رواداری قائم کرنے اور بڑھتی ہوئی آدم بیزاری کو روکنے کے طریقے بتانے لگے۔برسوں کی بے راہ روی اور معاشرتی و خاندانی نظام تباہ کرنے کے بعد آج یہ لوگ ادب و احترام اور اخوت و محبت کی جن باتوں کا درس دے رہے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم مسلمانوں کی گھٹی میں ڈال دی تھیں۔ افسوس یہ گھٹی ہم نے اپنے بچوں کو منتقل نہیں کی جس کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگر اپنی اولاد اور اپنے چھوٹوں کو تمیز دار اور باادب بنانا ہے تو پہلے اپنا کردار ان کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ اس کے لیے آج ہی سے اپنے کیے کرائے کی تلافی کا عمل شروع کریں، اپنے بڑے بزرگوں کو وہ محبت اور وہ احترام دیں جن کے وہ مستحق ہیں۔ کیوں کہ صرف یہی عمل آپ کا کل، آپ کا مستقبل محفوظ و معزز بنا سکتا ہے۔
اپنے بڑوں کی خدمت گزاری ایک قصہ ہے۔ یہ قصہ آپ نے لکھنا ہے اور اسے آپ کے بچوں نے سنانا ہے۔ آپ یہ قصہ جتنا اچھا تحریر کریں گے، اتنا ہی اچھا سننے کو ملے گا۔
 

اے خان

محفلین
حق بات کہی آپ نے،
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ صلہ رحمی اس کا نام نہیں کہ بدلہ دیا جائے ،یعنی اس نے اس کے ساتھ احسان کیا تو اس نے بھی اس کے ساتھ کردیا بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ اُدھر سے کاٹا جاتا ہے اور یہ جوڑتا ہے ۔
 

یوسف سلطان

محفلین
ماشاءالله! الله پاک قلم میں مزيد بركت دے
الله پاک ہم سب كو بڑوں كا ادب كرنے كى توفيق عطا فرما آمين
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
حق بات کہی آپ نے،
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ صلہ رحمی اس کا نام نہیں کہ بدلہ دیا جائے ،یعنی اس نے اس کے ساتھ احسان کیا تو اس نے بھی اس کے ساتھ کردیا بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ اُدھر سے کاٹا جاتا ہے اور یہ جوڑتا ہے ۔
صحیح!!!
 
Top