مہوش علی
لائبریرین
اکبر خان، چنگلائی، تحصیل مٹہ، سوات
رات کا وقت تھا کہ کتوں نے مسلسل بھونکنا شروع کردیا۔ میرے دو بھائی جب باہر نکلے تو انہوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جن کی شکل ازبکوں اور چینیوں سے مشابہ تھی۔وہ شخص خوفزدہ اور تھکا ماندہ دکھائی دے رہا تھا۔ اسے چونکہ زبان نہیں آتی تھی تو وہ رو دھو کر اور ہاتھ جوڑ کر اندر آنے کی درخواست کرتا رہا۔
میرے بھائی اسے اندر لے گئے اور پتہ چلا کہ یہ تو مغوی چینی انجنیئر ہے جو طالبان کی قید سے فرار ہو کر یہاں پہنچا ہے۔ اب ہم ایک ایسے امتحان میں پڑ گئے جس سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک طرف طالبان کا خوف دوسری طرف ایک بے بس انسان جن کا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جو پاکستان کا دوست ہے۔
بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ ہم انہیں یہیں گھر میں کہیں چھپا کر کل سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیں گے لیکن انہیں ڈر یہ تھا کہ کہیں طالبان گاؤں کی تلاشی لے کر اسے ڈھونڈ نہ لیں۔اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ہمارے خاندان کی خیر نہیں۔ ہم نے چینی انجینئر کو مال مویشیوں کے کمرے میں چارے کے ٹب میں لٹا کر اس پر ایک پرانا کمبل ڈال دیا تاکہ طالبان اگر تلاشی لیں بھی تو شاید وہ مویشیوں کے کمرے میں نہ جائیں۔ چینی انجینئر سولہ گھنٹے تک چارے کے ٹب میں خوف کی وجہ سے بے حس و حرکت پڑا رہا۔
مٹہ میں اکبر خان کے گھر کا ایک منظر
اگلی صبح طالبان آئے، انہوں نے گاؤں میں گھر گھر کی تلاشی لی، سڑک سے گزرنے والی ہرگاڑی، ٹریکٹر اور موٹر سائیکل کو چیک کرتے رہے۔ انہوں نے مساجد سے اعلان کیا کہ کسی نے بھی چینی انجینئر کو ان کے حوالے کیا اس سے تیس لاکھ روپے انعام دیا جائے گا اور کچھ دیر بعد انہوں نے یہ رقم بڑھا کر نوے لاکھ روپے کردی۔ طالبان نے ہمارے گھر کی بھی تلاشی لی اور وہ مویشیوں کے کمرے کے دروازے پر رکے اور واپس لوٹے۔ یہ مرحلہ خیریت سے گزرا۔ اب سب سے مشکل مرحلہ چینی انجینئر کو یہاں سے نکالنے کا تھا۔ ہم نے چینی انجینئر کو گھر سے تقریباً چھ سو میٹر کے فاصلے پر موجود وینئی چیک پوسٹ پر تعینات سکیورٹی فورسز کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔
اب اس فیصلے پر عملدرآمد کیسے کیا جائے۔ حکمت عملی یہ تیار کی گئی کہ ہم سکیورٹی فورسز کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد چینی انجینئر کو سڑک کے کنارے چھوڑ دیں گے اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار آ کر انہیں اٹھالیں گے اور اس طرح طالبان کو ہمارے بارے میں پتہ نہیں چلے گا۔جب ہم نے سکیورٹی اہلکاروں سے رابطہ کرکے انہیں حوالے کرنے کا طریقہ بتایا تو انہوں نے خوف کے مارے چیک پوسٹ سے نکلنے سے انکار کیا اور ہمیں کہا کہ آپ لوگ خود انہیں چیک پوسٹ پر پہنچا دیں۔ بالاخر مجبور ہوکر ہم نے ایسا ہی کیا۔
یہاں سے ہماری مصیبتیں شروع ہوگئیں۔ طالبان کو پتہ چل گیا اور انہوں نے ہمارے دو رشتہ داروں جنہیں انہوں نے کسی اور معاملے میں اغواء کیا تھا رہا کرنے کے بعد ان کے ذریعے ہمیں دھمکی بھیجی کہ آپ لوگوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ اس کے بعد ہمارے تین خاندانوں نے گاؤں چھوڑ دیا مگر دو بھائی لیاقت خان اور جمال خان نے گاؤں چھوڑنے سے انکار کردیا۔ بیس نومبر دو ہزار آٹھ کو لیاقت علی خان اپنی گاڑی میں جارہے تھے کہ کُرئی کے مقام پر طالبان نے انہیں پکڑ کر قتل کردیا اور گاڑی کو آگ لگادی۔
حکمت عملی یہ تیار کی گئی کہ ہم سکیورٹی فورسز کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد چینی انجینئر کو سڑک کے کنارے چھوڑ دیں گے اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار آ کر انہیں اٹھالیں گے اور اس طرح طالبان کو ہمارے بارے میں پتہ نہیں چلے گا۔جب ہم نے سکیورٹی اہلکاروں سے رابطہ کرکے انہیں حوالے کرنے کا طریقہ بتایا تو انہوں نے خوف کے مارے چیک پوسٹ سے نکلنے سے انکار کیا اور ہمیں کہا کہ آپ لوگ خود انہیں چیک پوسٹ پر پہنچا دیں۔ بالاخر مجبور ہوکر ہم نے ایسا ہی کیا۔
ہماری حالت ایسی تھی کہ ہم پشاور میں تھے اور ان کی جنازے اور فاتحہ میں شرکت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ میں مینگورہ گیا اور اپنے بال بچوں کو گاؤں بھیج دیا۔ ہم نے وہاں پر مقیم دوسرے بھائی جمال خان کو جو پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے مجبور کر دیا کہ اب گاؤں میں مزید ٹھہرنا خطرناک ہے لہذا وہ نکل آئیں۔ ہم نے بڑی مشکلوں سے انہیں نکلنے پر راضی کیا۔ ہمارے تمام خاندانوں نے جب مکانات خالی کر دیے تو طالبان نے جا کر سب کچھ لوٹ لیا یہاں تک کہ پرانی چارپائی بھی لے گئے۔
لیاقت خان کی ہلاکت کے بعد طالبان ہمارے باغوں کی رکھوالی کرنے والے مزارعین کے پاس گئے اور ان میں سے دو کو اغواء کیا۔ اس موقع پر خواتین نے اپنے مردوں کو چھڑانے کی کوشش کی کہ ان تینوں خواتین کو گولیاں مار ہلاک کر دیا گیا۔ طالبان دو مزارعین کو اپنے ساتھ لے گئے لیکن بعد میں ان کے رشتہ داروں نے مال مویشی بیچ کر تاوان ادا کیا اور انہیں چھڑا لیا۔
جمال خان جب پشاور آئے تو انہیں طالبان کی جانب سے فون پر دھمکیاں ملتی رہیں۔ ایک دفعہ دھمکی آمیز خط بھی ملا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چینی انجینئر کے چھڑانے کے بدلے آپ لوگوں نے کثیر رقم لی ہے لہذا اس میں سے ہمیں بھی حصہ ادا کریں۔
جمال خان کی ایک بیٹی امریکہ میں رہتی ہیں اور انہوں نے اپنے والد کی جان کو خطرے میں دیکھ کر انہیں امیگریشن ویزا دلوایا۔ اس سال تین اکتوبر کو انہوں نے پشاور سے دبئی کے راستے نیویارک جانا تھا لیکن اٹھائیسں ستمبر کو وہ غائب ہوگئے۔ پہلے پہل تو میں نے سوچا کہ وہ شائد گاؤں گئے ہوئے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ اصرار کرتے تھے کہ امریکہ جانے سے پہلے وہ ایک دفعہ گاؤں ضرور جائیں گے لیکن میں انہیں ایسا کرنے سے منع کرتا رہا۔
طیاروں کی بمباری سے تباہ ہونے والا گھر
جب ہمارا ان سے فون پر کوئی رابطہ نہیں ہوا تو ہماری پریشانی بڑھ گئی۔ صبح میں اپنے چوکیدار کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا کہ اس نے پوچھا آپ بہت خفا معلوم ہورہے ہیں۔ میں نے واقعہ سنایا۔اب خدا کا کرنا دیکھو رات کو اس چوکیدار کا فون آیا اور کہنے لگا کہ’سر خبر ہے تو بری لیکن آپ نے حوصلے سے کام لینا ہے‘۔ اس نے کہا کہ آپ نے جس شخص کا حلیہ بتایا ہے اس کے بارے میں میرے ایک دوست جو ہسپتال میں کام کرتے ہیں کہنا ہے کہ انہوں نے اس حلیے کے حامل ایک شخص کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔
اس کے بعد ہم نے اور بھی پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ اس شخص کو لاوارث سمجھ کر پشاور کے رحمان بابا قبرستان میں دفنا دیا گیا ہے۔ہم نے قبر کشائی کی تو دیکھا کہ لاش جمال خان کی ہے۔
ہماری مصیبتیں یہاں ختم نہیں ہوئیں۔ اس دوران سوات میں فوجی کارروائی بھی جاری تھی کہ ہمیں خبر موصول ہوئی کہ لڑاکا طیاروں نے ہمارے مکانات پر بمباری کر کے انہیں تباہ کردیاہے۔ اس کے علاوہ ہمارے جو باغات تھے ان پر مزارعین نے قبضہ کر لیا کیونکہ وہ طالبان کے صفوں میں شامل ہوگئے تھے۔
جمال خان کی ہلاکت سے قبل ہم نے ایک اعلی فوجی اہلکار سے ملاقات کی اور وزیراعظم کے نام ایک خط لکھا جس میں ہم نےاپنے جانوں کی حفاظت اور بچوں کے تعلیم کے بندوبست کی درخواست کی۔ خط پر مرحوم جمال خان کے دستخط بھی موجود تھے مگر چین جیسے دوست ملک کے شہری کی جان کی حفاظت اور ملک کی اتنی بڑی خدمت کرنے کے باوجود حکومت نے ہماری جان و مال کی حفاظت کرنا تو درکنار بلکہ الٹا ہمارے مکانات کو جیٹ طیاروں سے تباہ کر دیا۔ہم آج بھی سوات میں حکومتی رٹ کی بحالی میں حکومت کی حمایت کرتے ہیں لیکن اب بھی ہماری جان کو خطرہ ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/11/091107_war_stories7_zs.shtml
رات کا وقت تھا کہ کتوں نے مسلسل بھونکنا شروع کردیا۔ میرے دو بھائی جب باہر نکلے تو انہوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جن کی شکل ازبکوں اور چینیوں سے مشابہ تھی۔وہ شخص خوفزدہ اور تھکا ماندہ دکھائی دے رہا تھا۔ اسے چونکہ زبان نہیں آتی تھی تو وہ رو دھو کر اور ہاتھ جوڑ کر اندر آنے کی درخواست کرتا رہا۔
میرے بھائی اسے اندر لے گئے اور پتہ چلا کہ یہ تو مغوی چینی انجنیئر ہے جو طالبان کی قید سے فرار ہو کر یہاں پہنچا ہے۔ اب ہم ایک ایسے امتحان میں پڑ گئے جس سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک طرف طالبان کا خوف دوسری طرف ایک بے بس انسان جن کا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جو پاکستان کا دوست ہے۔
بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ ہم انہیں یہیں گھر میں کہیں چھپا کر کل سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیں گے لیکن انہیں ڈر یہ تھا کہ کہیں طالبان گاؤں کی تلاشی لے کر اسے ڈھونڈ نہ لیں۔اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ہمارے خاندان کی خیر نہیں۔ ہم نے چینی انجینئر کو مال مویشیوں کے کمرے میں چارے کے ٹب میں لٹا کر اس پر ایک پرانا کمبل ڈال دیا تاکہ طالبان اگر تلاشی لیں بھی تو شاید وہ مویشیوں کے کمرے میں نہ جائیں۔ چینی انجینئر سولہ گھنٹے تک چارے کے ٹب میں خوف کی وجہ سے بے حس و حرکت پڑا رہا۔
اگلی صبح طالبان آئے، انہوں نے گاؤں میں گھر گھر کی تلاشی لی، سڑک سے گزرنے والی ہرگاڑی، ٹریکٹر اور موٹر سائیکل کو چیک کرتے رہے۔ انہوں نے مساجد سے اعلان کیا کہ کسی نے بھی چینی انجینئر کو ان کے حوالے کیا اس سے تیس لاکھ روپے انعام دیا جائے گا اور کچھ دیر بعد انہوں نے یہ رقم بڑھا کر نوے لاکھ روپے کردی۔ طالبان نے ہمارے گھر کی بھی تلاشی لی اور وہ مویشیوں کے کمرے کے دروازے پر رکے اور واپس لوٹے۔ یہ مرحلہ خیریت سے گزرا۔ اب سب سے مشکل مرحلہ چینی انجینئر کو یہاں سے نکالنے کا تھا۔ ہم نے چینی انجینئر کو گھر سے تقریباً چھ سو میٹر کے فاصلے پر موجود وینئی چیک پوسٹ پر تعینات سکیورٹی فورسز کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔
اب اس فیصلے پر عملدرآمد کیسے کیا جائے۔ حکمت عملی یہ تیار کی گئی کہ ہم سکیورٹی فورسز کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد چینی انجینئر کو سڑک کے کنارے چھوڑ دیں گے اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار آ کر انہیں اٹھالیں گے اور اس طرح طالبان کو ہمارے بارے میں پتہ نہیں چلے گا۔جب ہم نے سکیورٹی اہلکاروں سے رابطہ کرکے انہیں حوالے کرنے کا طریقہ بتایا تو انہوں نے خوف کے مارے چیک پوسٹ سے نکلنے سے انکار کیا اور ہمیں کہا کہ آپ لوگ خود انہیں چیک پوسٹ پر پہنچا دیں۔ بالاخر مجبور ہوکر ہم نے ایسا ہی کیا۔
یہاں سے ہماری مصیبتیں شروع ہوگئیں۔ طالبان کو پتہ چل گیا اور انہوں نے ہمارے دو رشتہ داروں جنہیں انہوں نے کسی اور معاملے میں اغواء کیا تھا رہا کرنے کے بعد ان کے ذریعے ہمیں دھمکی بھیجی کہ آپ لوگوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ اس کے بعد ہمارے تین خاندانوں نے گاؤں چھوڑ دیا مگر دو بھائی لیاقت خان اور جمال خان نے گاؤں چھوڑنے سے انکار کردیا۔ بیس نومبر دو ہزار آٹھ کو لیاقت علی خان اپنی گاڑی میں جارہے تھے کہ کُرئی کے مقام پر طالبان نے انہیں پکڑ کر قتل کردیا اور گاڑی کو آگ لگادی۔
حکمت عملی یہ تیار کی گئی کہ ہم سکیورٹی فورسز کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد چینی انجینئر کو سڑک کے کنارے چھوڑ دیں گے اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار آ کر انہیں اٹھالیں گے اور اس طرح طالبان کو ہمارے بارے میں پتہ نہیں چلے گا۔جب ہم نے سکیورٹی اہلکاروں سے رابطہ کرکے انہیں حوالے کرنے کا طریقہ بتایا تو انہوں نے خوف کے مارے چیک پوسٹ سے نکلنے سے انکار کیا اور ہمیں کہا کہ آپ لوگ خود انہیں چیک پوسٹ پر پہنچا دیں۔ بالاخر مجبور ہوکر ہم نے ایسا ہی کیا۔
ہماری حالت ایسی تھی کہ ہم پشاور میں تھے اور ان کی جنازے اور فاتحہ میں شرکت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ میں مینگورہ گیا اور اپنے بال بچوں کو گاؤں بھیج دیا۔ ہم نے وہاں پر مقیم دوسرے بھائی جمال خان کو جو پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے مجبور کر دیا کہ اب گاؤں میں مزید ٹھہرنا خطرناک ہے لہذا وہ نکل آئیں۔ ہم نے بڑی مشکلوں سے انہیں نکلنے پر راضی کیا۔ ہمارے تمام خاندانوں نے جب مکانات خالی کر دیے تو طالبان نے جا کر سب کچھ لوٹ لیا یہاں تک کہ پرانی چارپائی بھی لے گئے۔
لیاقت خان کی ہلاکت کے بعد طالبان ہمارے باغوں کی رکھوالی کرنے والے مزارعین کے پاس گئے اور ان میں سے دو کو اغواء کیا۔ اس موقع پر خواتین نے اپنے مردوں کو چھڑانے کی کوشش کی کہ ان تینوں خواتین کو گولیاں مار ہلاک کر دیا گیا۔ طالبان دو مزارعین کو اپنے ساتھ لے گئے لیکن بعد میں ان کے رشتہ داروں نے مال مویشی بیچ کر تاوان ادا کیا اور انہیں چھڑا لیا۔
جمال خان جب پشاور آئے تو انہیں طالبان کی جانب سے فون پر دھمکیاں ملتی رہیں۔ ایک دفعہ دھمکی آمیز خط بھی ملا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چینی انجینئر کے چھڑانے کے بدلے آپ لوگوں نے کثیر رقم لی ہے لہذا اس میں سے ہمیں بھی حصہ ادا کریں۔
جمال خان کی ایک بیٹی امریکہ میں رہتی ہیں اور انہوں نے اپنے والد کی جان کو خطرے میں دیکھ کر انہیں امیگریشن ویزا دلوایا۔ اس سال تین اکتوبر کو انہوں نے پشاور سے دبئی کے راستے نیویارک جانا تھا لیکن اٹھائیسں ستمبر کو وہ غائب ہوگئے۔ پہلے پہل تو میں نے سوچا کہ وہ شائد گاؤں گئے ہوئے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ اصرار کرتے تھے کہ امریکہ جانے سے پہلے وہ ایک دفعہ گاؤں ضرور جائیں گے لیکن میں انہیں ایسا کرنے سے منع کرتا رہا۔
جب ہمارا ان سے فون پر کوئی رابطہ نہیں ہوا تو ہماری پریشانی بڑھ گئی۔ صبح میں اپنے چوکیدار کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا کہ اس نے پوچھا آپ بہت خفا معلوم ہورہے ہیں۔ میں نے واقعہ سنایا۔اب خدا کا کرنا دیکھو رات کو اس چوکیدار کا فون آیا اور کہنے لگا کہ’سر خبر ہے تو بری لیکن آپ نے حوصلے سے کام لینا ہے‘۔ اس نے کہا کہ آپ نے جس شخص کا حلیہ بتایا ہے اس کے بارے میں میرے ایک دوست جو ہسپتال میں کام کرتے ہیں کہنا ہے کہ انہوں نے اس حلیے کے حامل ایک شخص کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔
اس کے بعد ہم نے اور بھی پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ اس شخص کو لاوارث سمجھ کر پشاور کے رحمان بابا قبرستان میں دفنا دیا گیا ہے۔ہم نے قبر کشائی کی تو دیکھا کہ لاش جمال خان کی ہے۔
ہماری مصیبتیں یہاں ختم نہیں ہوئیں۔ اس دوران سوات میں فوجی کارروائی بھی جاری تھی کہ ہمیں خبر موصول ہوئی کہ لڑاکا طیاروں نے ہمارے مکانات پر بمباری کر کے انہیں تباہ کردیاہے۔ اس کے علاوہ ہمارے جو باغات تھے ان پر مزارعین نے قبضہ کر لیا کیونکہ وہ طالبان کے صفوں میں شامل ہوگئے تھے۔
جمال خان کی ہلاکت سے قبل ہم نے ایک اعلی فوجی اہلکار سے ملاقات کی اور وزیراعظم کے نام ایک خط لکھا جس میں ہم نےاپنے جانوں کی حفاظت اور بچوں کے تعلیم کے بندوبست کی درخواست کی۔ خط پر مرحوم جمال خان کے دستخط بھی موجود تھے مگر چین جیسے دوست ملک کے شہری کی جان کی حفاظت اور ملک کی اتنی بڑی خدمت کرنے کے باوجود حکومت نے ہماری جان و مال کی حفاظت کرنا تو درکنار بلکہ الٹا ہمارے مکانات کو جیٹ طیاروں سے تباہ کر دیا۔ہم آج بھی سوات میں حکومتی رٹ کی بحالی میں حکومت کی حمایت کرتے ہیں لیکن اب بھی ہماری جان کو خطرہ ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/11/091107_war_stories7_zs.shtml