سید شہزاد ناصر
محفلین
شارت کا تقرر تو بطور اردو ٹیچر ہوا تھا، لیکن انہیں ٹیچروں کی کمی کے سبب تقریباً سبھی مضامین پڑھانے پڑتے تھے، سوائے دینیات کے۔جامع مسجد دھیرج گنج کے پیش امام نے یہ فتوٰی دیا تھا کہ جس شخص کے گھر میں کتا ہو، وہ اگر دینیات پڑھائے تو پڑھنے والوں پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔بشارت کی ریاضی، جو میٹری اور انگریزی بہت کمزور تھی، لیکن وہ اس ہینڈی کیپ سے ذرا جو پریشان ہوتے ہوں۔پڑھانے کا گر انہوں نے اپنے استاد ماسٹر فاخر حسین سے سیکھا تھا۔ماسٹر فاخر حسین کااپنا مضمون (بزعمِ خود) تاریخ تھا۔لیکن انہیں اکثر ماسٹر مینڈی لال، انگلش ٹیچر کی کلاس بھی لینی پڑھتی تھی۔ماسٹر مینڈی لال کا گردہ اور گریمر دونوں جواب دے چکے تھے۔اکثر دیکھا کہ جس دن نویں دسویں کلاس کی گریمر کی کلاس ہوتی، وہ گھر بیٹھ جاتا۔
اس کے گردے میں گریمر کا درد اٹھتاتھا۔سب ٹیچر اپنے مضمون کے علاوہ کوئی اور مضمون پڑھانے سے کچیاتے تھے۔ماسٹر فاخر حسین واحد استاد تھے جو ہر مضمون پڑھانے کے لیےہر وقت تیار رہتے تھے۔ حالانکہ انھوں نے بی-اے ‘‘وایا بٹھنڈہ“ کیا تھا۔ مطلب یہ کہ پہلے منشی فاضل کیا۔انگلش گریمر انھیں بالکل نہیں آتی تھی۔ وہ چاہتے تو انگریزی کا سارا گھنٹہ ہنس بول کر یا پند و نصائح میں گزار سکتے تھے۔لیکن ان کا ضمیر اس دفع الوقتی کی اجازت نہیں دیتا تھا۔دوسرے استادوں کی طرح لڑکوں کو مصروف رکھنے کی غرض سے وہ املا بھی لکھوا سکتے تھے۔مگر اس حیلے کو وہ اپنے تبحّرِ علمی اور منصبِ عالمانہ کے خلاف سمجھتے تھے۔چنانچہ جس بھاری پتھر کو سب چوم کر چھوڑ دیتے، اسے یہ گلے میں ڈال کر بحرِ علوم میں کود پڑتے۔ پہلے گریمر کی اہمیت پر لیکچر دیتے ہوئے یہ بنیادی نکتہ بیان کرتے کہ ہماری گائیکی کی بنیاد طبلے پر ہے۔ گفتگو کی بنیاد گالی پر۔اسی طرح انگریزی کی اساس گریمر ہے۔اگر کمال حاصل کرنا ہے تو پہلے بنیاد مضبوط کرو۔ماسٹر فاخر حسین کی اپنی انگریزی کی عمارت فن تعمیر کا نادر نمو نہ اور یکے از ہفت عجائباتِ عالم تھی۔مطلب یہ کہ بغیر نیو کے تھی۔ بیشتر جگہ تو چھت بھی نہیں تھی اور جہاں تھی، اسے چمگادڑ کی طرح اپنے پیروں کی اڑواڑ سے تھام رکھا تھا۔اس زمانے میں انگریزی بھی اردو میں پڑھائی جاتی تھی۔ لہٰذا کچھ گرتی ہوئی دیواروں کو اردو اشعار کے بر محل پشتے تھامے ہوئے تھے۔ بہت ہی منجھے اور گھسے ہوئے ماسٹر تھے۔ سخت سے سخت مقام سے آسان گزر جاتے۔ مثلا” “پارسنگ“ کروا رہے ہیں۔ اپنی دانست میں نہایت آسان سوال سےابتدا کرتے-بورڈ پر “ٹو گو“ لکھتے اور پوچھتے، اچھا بتاؤ یہ کیا ہے؟ ایک لڑکا ہاتھ اٹھا کر جواب دیتا, “سمپل انفیٹیو“ ، اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے فرماتے، بالکل ٹھیک، لیکن دیکھتے کہ دوسرا اٹھا ہوا ہاتھ ابھی نہیں گرا۔اس سے پوچھتے، آپ کو کیا تکلیف ہے؟ وہ کہتا، نہیں سر! “ناؤن انفیٹیو“ فرماتے، اچھا آپ اس لحاظ سے کہہ رہے ہیں۔ اب کیا دیکھتے ہیں کہ کلاس کا سب سے ذہین لڑکا ابھی تاک ہاتھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس سے کہتے، آپکا سگنل ابھی تک ڈاؤن نہیں ہوا، کہیے، کہیے! وہ کہتا ہے ''جیرینڈئیل انفینیٹو“ ہے جو ''ریفلیکسیو ورب“ سے مختلف ہوتا ہے۔ ''نیسفیلڈ“ گریمرمیں لکھا ہے۔ اس مرحلے پر ماسٹر فاخر حسین پر واضح ہو جاتا کہ۔۔۔۔۔گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم۔۔۔۔۔۔لیکن بہت سہج اور نکتہ فہم انداز میں فرماتے، اچھا! تو گویاآپ اس لحاظ سے کہہ رہے ہیں! اتنے میں نظر اس لڑکے کے اٹھے ہوئے ہاتھ پر پڑی جو ایک کانوینٹ سے آیا تھا اور فر فر انگریزی بولتا تھا۔ اس سے پوچھا “ویل!ویل!ویل!“ اس نے جواب دیا۔ “سر! آئی ایم افریڈ، دِ س از این انٹرانسیٹیو ورب“ فرمایا، اچھا! تو گویا آپ اس لحاظ سے کہہ رہے ہیں! پھر آئی ایم افریڈ کے محاورے سے نا واقفیت کے سبب بڑے مشفقانہ انداز میں پوچھا
عزیزِ من! اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟
موصوف اکثر فرماتے کہ انسان کو علمی تحقیق و تفحّص کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ خود انھوں نے ساری عمر بارہ دری میں گزاری۔اب ایسے استاد کہاں سے لائیں جن کی لا علمی پر بھی پیار آتا تھا۔
ماسٹر فاخر حسین سادہ دلانِ سلف اور اساتذہ پیشین کا حاضر جوابی کا آخری نمونہ تھے۔ ہر چند کہ ان کا علم مستحضر نہیں تھا، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ طبیعت حاضر نہ ہو۔
بشارت اکثر کہتے ہیں ‘‘ ماسٹر فاخر حسین کا مبلغ علم مجھ جیسے نالائق شاگردوں تک سے پوشیدہ نہ تھا۔ میں زندگی میں بڑے بڑے پروفیسروں اور جید عالموں سے ملا ہوں۔ لیکن مجھے آج بھی چوائس دی جائے تو میں ماسٹر فاخر حسین سے ہی پڑھنا پسند کروں گا۔ صاحب!وہ آدمی تھا۔کتاب نہیں زندگی پڑھاتا تھا۔
اس کے گردے میں گریمر کا درد اٹھتاتھا۔سب ٹیچر اپنے مضمون کے علاوہ کوئی اور مضمون پڑھانے سے کچیاتے تھے۔ماسٹر فاخر حسین واحد استاد تھے جو ہر مضمون پڑھانے کے لیےہر وقت تیار رہتے تھے۔ حالانکہ انھوں نے بی-اے ‘‘وایا بٹھنڈہ“ کیا تھا۔ مطلب یہ کہ پہلے منشی فاضل کیا۔انگلش گریمر انھیں بالکل نہیں آتی تھی۔ وہ چاہتے تو انگریزی کا سارا گھنٹہ ہنس بول کر یا پند و نصائح میں گزار سکتے تھے۔لیکن ان کا ضمیر اس دفع الوقتی کی اجازت نہیں دیتا تھا۔دوسرے استادوں کی طرح لڑکوں کو مصروف رکھنے کی غرض سے وہ املا بھی لکھوا سکتے تھے۔مگر اس حیلے کو وہ اپنے تبحّرِ علمی اور منصبِ عالمانہ کے خلاف سمجھتے تھے۔چنانچہ جس بھاری پتھر کو سب چوم کر چھوڑ دیتے، اسے یہ گلے میں ڈال کر بحرِ علوم میں کود پڑتے۔ پہلے گریمر کی اہمیت پر لیکچر دیتے ہوئے یہ بنیادی نکتہ بیان کرتے کہ ہماری گائیکی کی بنیاد طبلے پر ہے۔ گفتگو کی بنیاد گالی پر۔اسی طرح انگریزی کی اساس گریمر ہے۔اگر کمال حاصل کرنا ہے تو پہلے بنیاد مضبوط کرو۔ماسٹر فاخر حسین کی اپنی انگریزی کی عمارت فن تعمیر کا نادر نمو نہ اور یکے از ہفت عجائباتِ عالم تھی۔مطلب یہ کہ بغیر نیو کے تھی۔ بیشتر جگہ تو چھت بھی نہیں تھی اور جہاں تھی، اسے چمگادڑ کی طرح اپنے پیروں کی اڑواڑ سے تھام رکھا تھا۔اس زمانے میں انگریزی بھی اردو میں پڑھائی جاتی تھی۔ لہٰذا کچھ گرتی ہوئی دیواروں کو اردو اشعار کے بر محل پشتے تھامے ہوئے تھے۔ بہت ہی منجھے اور گھسے ہوئے ماسٹر تھے۔ سخت سے سخت مقام سے آسان گزر جاتے۔ مثلا” “پارسنگ“ کروا رہے ہیں۔ اپنی دانست میں نہایت آسان سوال سےابتدا کرتے-بورڈ پر “ٹو گو“ لکھتے اور پوچھتے، اچھا بتاؤ یہ کیا ہے؟ ایک لڑکا ہاتھ اٹھا کر جواب دیتا, “سمپل انفیٹیو“ ، اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے فرماتے، بالکل ٹھیک، لیکن دیکھتے کہ دوسرا اٹھا ہوا ہاتھ ابھی نہیں گرا۔اس سے پوچھتے، آپ کو کیا تکلیف ہے؟ وہ کہتا، نہیں سر! “ناؤن انفیٹیو“ فرماتے، اچھا آپ اس لحاظ سے کہہ رہے ہیں۔ اب کیا دیکھتے ہیں کہ کلاس کا سب سے ذہین لڑکا ابھی تاک ہاتھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس سے کہتے، آپکا سگنل ابھی تک ڈاؤن نہیں ہوا، کہیے، کہیے! وہ کہتا ہے ''جیرینڈئیل انفینیٹو“ ہے جو ''ریفلیکسیو ورب“ سے مختلف ہوتا ہے۔ ''نیسفیلڈ“ گریمرمیں لکھا ہے۔ اس مرحلے پر ماسٹر فاخر حسین پر واضح ہو جاتا کہ۔۔۔۔۔گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم۔۔۔۔۔۔لیکن بہت سہج اور نکتہ فہم انداز میں فرماتے، اچھا! تو گویاآپ اس لحاظ سے کہہ رہے ہیں! اتنے میں نظر اس لڑکے کے اٹھے ہوئے ہاتھ پر پڑی جو ایک کانوینٹ سے آیا تھا اور فر فر انگریزی بولتا تھا۔ اس سے پوچھا “ویل!ویل!ویل!“ اس نے جواب دیا۔ “سر! آئی ایم افریڈ، دِ س از این انٹرانسیٹیو ورب“ فرمایا، اچھا! تو گویا آپ اس لحاظ سے کہہ رہے ہیں! پھر آئی ایم افریڈ کے محاورے سے نا واقفیت کے سبب بڑے مشفقانہ انداز میں پوچھا
عزیزِ من! اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟
موصوف اکثر فرماتے کہ انسان کو علمی تحقیق و تفحّص کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔ خود انھوں نے ساری عمر بارہ دری میں گزاری۔اب ایسے استاد کہاں سے لائیں جن کی لا علمی پر بھی پیار آتا تھا۔
ماسٹر فاخر حسین سادہ دلانِ سلف اور اساتذہ پیشین کا حاضر جوابی کا آخری نمونہ تھے۔ ہر چند کہ ان کا علم مستحضر نہیں تھا، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ طبیعت حاضر نہ ہو۔
بشارت اکثر کہتے ہیں ‘‘ ماسٹر فاخر حسین کا مبلغ علم مجھ جیسے نالائق شاگردوں تک سے پوشیدہ نہ تھا۔ میں زندگی میں بڑے بڑے پروفیسروں اور جید عالموں سے ملا ہوں۔ لیکن مجھے آج بھی چوائس دی جائے تو میں ماسٹر فاخر حسین سے ہی پڑھنا پسند کروں گا۔ صاحب!وہ آدمی تھا۔کتاب نہیں زندگی پڑھاتا تھا۔