اقبال خاک داں

تُو اے اسیرِ مکاں! لامکاں سے دور نہیں
وہ جلوہ‌گاہ ترے خاک‌داں سے دور نہیں
وہ مرغزار کہ بیمِ خزاں نہیں جس میں
غمیں نہ ہو کہ ترے آشیاں سے دور نہیں
یہ ہے خلاصۂ علمِ قلندری کہ حیات
خدنگِ جَستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں
فضا تری مہ و پرویں سے ہے ذرا آگے
قدم اُٹھا، یہ مقام آسماں سے دور نہیں
کہے نہ راہ‌نُما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو
یہ بات راہروِ نکتہ‌داں سے دُور نہیں
 
اک دانشِ نُورانی، اک دانشِ بُرہانی
ہے دانشِ بُرہانی، حیرت کی فراوانی
اس پیکرِ خاکی میں اک شے ہے، سو وہ تیری
میرے لیے مشکل ہے اُس شے کی نگہبانی
اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک
تُو نے ہی سِکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی
ہو نقش اگر باطل، تکرار سے کیا حاصل
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟
مجھ کو تو سِکھا دی ہے افرنگ نے زِندیقی
اس دَور کے مُلّا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی!
تقدیر شکن قُوّت باقی ہے ابھی اس میں
ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زِندانی
تیرے بھی صنم خانے، میرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی، دونوں کے صنم فانی
 
Top