خاک پر پھول تو افلاک پہ تارے دیکھوں ۔

ایم اے راجا

محفلین
( تازہ غزل )

خاک پر پهول تو افلاک پہ تارے دیکهوں
ہر طرف تیری محبت کے نظارے دیکهوں

یہ مری ماں کی دعا ہے کہ لگوں ڈوبنے جب
چل کے میں اپنی طرف آتے کنارے دیکهوں

تجهہ سے مل جائے کبهی میرا مقدر شاید
روز اخبار میں قسمت کے ستارے دیکهوں

کسی آسیب کا سایہ ہے ترے شہر پہ کیا ؟
لوگ سارے ہی یہاں خوف کے مارے دیکهوں

دشت_ برباد میں بهی اترے گلابی موسم
سر ہلاتے ہوئے پهولوں کے اشارے دیکهوں

ایک مدت سے مچلتی ہے یہ حسرت دل میں
تیری محفل میں ترے شوخ نظارے دیکهوں
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہ
بہت خوب
ایک مدت سے مچلتی ہے یہ حسرت دل میں​
تیری محفل میں ترے شوخ نظارے دیکهوں​
بہت دعائیں
 

الف عین

لائبریرین
حض ’ترے ہیں‘ کہو تو؟ے۔ اب تفصیل سے
یہ مری ماں کی دعا ہے کہ لگوں ڈوبنے جب
چل کے میں اپنی طرف آتے کنارے دیکهوں
الفاظ کی نشست یا الفاظ بدل کر بہتری پیدا کی جا سکتی ہے۔

تجهہ سے مل جائے کبهی میرا مقدر شاید
روز اخبار میں قسمت کے ستارے دیکهوں
۔۔ اخباروں میں قسمت کا حال بتایا جاتا ہے، ستارے ہی نہیں دکھاے جاتے، بہر حال یوں بھی گوارا ہے۔

کسی آسیب کا سایہ ہے ترے شہر پہ کیا ؟
لوگ سارے ہی یہاں خوف کے مارے دیکهوں
÷÷ قافیئے کا استعمال عجیب ہے۔ لوگ خوف کے مارے ہیں‘ کی بجائے خیال یوں بھی جاتا ہے کہ میں خوف کے مارے دیکھ رہا ہوں۔ قافئے کی وجہ سے نشست بھی نہیں بدلی جا سکتی۔

دشت_ برباد میں بهی اترے گلابی موسم
سر ہلاتے ہوئے پهولوں کے اشارے دیکهوں
۔۔’بھی اترے‘ کی جگہ اگر محض ’اترے ہیں‘ کہو تو!!

ایک مدت سے مچلتی ہے یہ حسرت دل میں
تیری محفل میں ترے شوخ نظارے دیکهوں
درست
 
Top