131
دونوں ہاتھوں سے سلام کرتا ہوا نکل گیا ۔ میں اور سعید بھی چپ چاپ کھسک گئے ۔ چور صاحب قہر کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے مگر بے بس تھے ۔ جانتے تھے کہ مجھ پر ترپ لگا گیا ۔ اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول ڈال کر چمچہ صاف اڑا لے گیا ۔ مگر اصل حال نہ بتا سکتے تھے ۔ دل ہی دل میں کہہ رہے تھے
ہم تو مرشد تھے تم ولی نکلے
132
انجمن خدام ادب
133
انجمن خدام ادب
راجہ صاحب : کیا بکتا ہے بے وقوت ؟
ملازم: حضور کوئی پندرہ میں آدمی ڈیوڑھی پر کھڑے ہیں ۔
راجہ صاحب : آدمی ، کیسے آدمی ؟
ملازم : ہاں حضور آدمی ہیں ۔
راجہ صاحب :۔ ابے نامعقول کیسے آدمی ہیں ؟
ملازم: ۔ اب کیا بتاؤں حضور! آدمی ہیں جیسے آدمی ہوتے ہیں ۔
راجہ صاحب: نالائق ۔ جا سرفراز علی خاں کو بلا کے لا ۔
سرفراز علی خاں راجہ صاحب کے سیکریٹری تھے ۔ انہیں محل ہی میں دو عالی شان کمرے ملے ہوئے تھے ۔ راجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا۔
راجہ صاحب : سکتر صاحب ! دیکھے تویہ باہر کون لوگ
کھڑے ہیں ۔ کیا علاقے میں کچھ
بدنظمی ہے ؟
134
سکریٹری : نہیں حضور بدنظمی تو کچھ نہیں ۔ میں ابھی جاکر دریافت کرتا ہوں ۔
تھوڑی دیر کے بعد سکریٹری صاحب واپس آئے اور کہا ۔
سکریٹری : حضور! بیس بائیس اجلے پوش آدمی ڈیوڑھی پر کھڑے ہیں بعض تو رئیس معلوم ہوتے ہیں۔ حضور کے سلام کو حاضر ہوئے ہیں اجازت ہو تو بلا لاؤوں ۔
راجہ صاحب :۔ ( حیران ہو کر ) بیس بائیس آدمی سلام کو آئے ہیں ؟ یہ مصیبت کیا ہے ۔ بھائی جاکے پوچھو تو سہی بات کیا ہے ؟
سکریٹری: حضور میں نے پوچھا تھا کہ کیا کام ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ راجہ صاحب سے کچھ ضروری باتیں گزارش کرنی ہیں ۔
راجہ صاحب : ۔ تو ایک یا دو آدمیوں کو بلا لاؤ ۔ سکریٹری : میں نے یہی بات ان سے کہی تھی مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم سب ساتھ جائینگے ۔
راجہ صاحب: ڈر پوک آدمی نہیں تھے ۔ جوانی میں تو ان کے کس بل کی دھاک تھی ۔ ڈھائی من کی جوڑی ہلاتے تھے ۔ روزانہ تین میل ایک سانس میں بھاگتے تھے ، بڑاخو بصورت اور کسرتی بدن تھا ۔ جسے کھانے پینے کی کمی نہ ہو ، بے فکری ہو اور کسرت کا شوق ہو اس کے بدن کا کیا ٹھکانا ہے جیوٹ بھی ایسے تھے کہ
اکثر علاقے میں بلو د ہو گیا ہے ،
لکڑی چل رہی ہے
135
آپ بھی کہیں اتفاق سے سیر کرتے کرتے پہنچ گئے پاس کوئی ہتھیار تو در کنار لکڑی تک نہیں ۔ مگر گاڑی سے چھلانگ ماربھیڑ میں ایسے گھسے جیسے توپ کا گولہ وہیں کسی سے لکڑی چھینی اور پھر جو ہاتھ دکھانے شروع کئے ہیں تو کائی سی پھاڑ دی ۔ اس پچپن برس کی عمر میں بھی تیر کی طرح سدھ تھے ، کیا مجال جو کمر میں ذرا بھی خم آ یا ہو ۔ہاں گوشت تو ذرا لٹک گیا تھا مگر تھے اب بھی تگڑے ۔ غرض را جہ صاحب بزدل نہیں تھے مگرایکا ایکی بیس بائیس آدمیوں کا آنا سن کر اور وہ بھی اجلے پوشوں کا، سٹ پٹا ضرور گئے اور کہنے لگے ۔
راجہ صاحب : ارے میاں کہیں کانگریس کے آدمی تو نہیں ہیں ؟
سکریٹری : حضور معلوم نہیں ۔ شکل سے تو کچھ بوڑم ہی سے معلوم ہوتے ہیں
راجہ صاحب : ۔ اجی یہ کانگریس والے بڑے افعی ہوتے ہیں شکل سے تو بوڑم ہی معلوم ہوتے ہیں ۔ مگر ان سے اللہ ہی بچائے ۔ اچھا تم بلاؤ توسہی راجہ صاحب کے ہاں کرسیوں کی کیا کمی تھی ۔ ایک اشارے میں تمیں کرسیاں آگئیں ۔
راجہ صاحب بھی دم سادھ کر بیٹھ گئے ۔ وہ لوگ آے خوب جھک جھک کر سلام کئے ۔ راجہ صاحب نے کہا بیٹھئے ۔ تشریت رکھئے ۔
اب ذرا ملاحظہ ہو ۔ کرسیوں پر بیٹھے بیٹھے راجہ صاحب کا منہ تک رہے ہیں ، مسکوڑے لے رہے ہیں ، پہلو بدل رہے ہیں مگر منہ سے کوئی نہیں