خدارا۔۔ خدارا انسانوں کو مت ماریں

نبیل

تکنیکی معاون
9 اپریل کو کراچی میں ظلم اور بربریت کا ایک نیا انداز سامنے آیا جب چھ افراد کو زندہ جلا کر مار دیا گیا۔ اس کے ذمہ دار افراد بھی کبھی نہیں پکڑے جا سکیں جیسے کہ 12 مئی 2007 کی قتل و غارت گری کے ذمہ داروں پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔ الٹا اس وقت کے حکمرانوں نے سٹیج پر بھنگڑے ڈالتے ہوئے مکے دکھائے تھے اور کہا تھا 'دیکھی ہماری طاقت'۔ ہر مرتبہ کی طرح اس دفعہ بھی الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔متحدہ والے بضد ہیں کہ جل کر مرنے والے ان کے کارکن ہیں۔ گزشتہ سال 12 مئی کے بعد بھی ایم کیو ایم والے بضد تھے کہ اصل میں ان کے کارکنوں کی لاشیں زیادہ تعداد میں گری ہیں۔ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ تنظیموں کو لاشوں اور قبروں کی گنتی میں اضافے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس میں ایم کیو ایم والے اکیلے نہیں ہیں۔ باقی جماعتیں بھی ہر گرنے والی لاش پر اپنا دعوٰی ثابت کرنے کے لیے بے چین ہوتی ہے۔ اس گنتی کے اضافے کے کھیل میں وہ لوگ مارے جاتے ہیں جنہیں مرتے وقت اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ انہیں کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔

حوالہ: خدارا انسانوں کو مت ماریں (بی بی سی - اردو)

20080411125719karachi_injured_203.jpg


’ان سے یہی کہوں گا کہ خدارا، خدارا، خدارا انسانوں کو مت مارو، انہیں زندہ مت جلاؤ ورنہ کل کو تم بھی جلو گے اور تھارے بچوں پر بھی خدا کا عذاب نازل ہوگا۔ کیا ان کو مرنا نہیں ہے کیا یہ سمجھتے ہیں کہ صدا طاقتور رہیں گے، میں تو بددعا نہیں دوں گا لیکن ان کے بچوں کی آہیں اور بددعائیں ان کو ضرور لگیں گی جن سے یہ زندگی چھینتے ہیں۔‘

مزید پڑھیں۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: نامعلوم 'دہشت گرد، حسن مجتبٰی (بی بی سی اردو) '

وہ ایسے نامعلوم دہشت گرد ہیں جنکا سب کو معلوم ہے کہ کون ہیں پھر بھی ’نا معلوم‘ بتائے جاتے ہیں۔


کراچی سٹی کورٹس کے سامنے وکیلوں کے چیمبرز طاہر پلازہ کی چھٹی منزل پر کمرہ نمبر چھ سو گیارہ میں وکیل الطاف عباسی سمیت چھ لوگوں کو ان کے دفتر کی کھڑکی سے کیمیکل پھینک کر زندہ جلا دینا کس کا طریقہء واردات ہو سکتا ہے، سب کو معلوم ہے لیکن ’قاتل نامعلوم‘۔

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو انیس سو اسی کی دہائي میں کراچی میں لکڑیوں کے ٹالوں میں سوئے ہوئے پٹھانوں کو زندہ جلا دینا سب جانتے ہیں کہ کس کی واردات تھی۔ شاہ فیصل کالونی نمبر ایک میں اپنے ہی بچپن کے دوست اور ساتھ کرکٹ کھیلنے والے پٹھان بچے کو اس کے کنبے سمیت لکڑیوں کے ٹال میں زندہ جلانے والے ’شرفاء کمیٹی‘ والے کون تھے بھلا اب حقیقی کہ غیر حقیقی؟ ’نامعلوم‘ سب ’نامعلوم‘!


مزید پڑھیں۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: اس انتہا پسندی کا ماخذ کیا ہے؟، خورشید ندیم (رونامہ جنگ، 14اپریل 2008 )

[اپنے بھا ئیوں اور بہنوں کی سوختہ لاشیں دیکھنے کے بعد اب کیا دیکھنا باقی ہے۔انسانوں کو زندہ جلا دینے کا حوصلہ تب ہوتا ہے جب کوئی انسانیت کا پیر ہن اتار ڈالے۔اس عالم کے پروردگار نے انسانوں کو شریعت دی اور مجرموں کو سزا دینے کا اختیار دیالیکن انہیں یہ حق نہیں دیاکہ کسی جرم میں مطلوب ایک فرد کوآگ میں پھینک دیا جائے۔ فساد کے مجرموں کے لیے عبرت ناک سزا، تقتیل،کا اعلان ہوا لیکن آگ میں جلانا اس میں بھی شامل نہیں تھا۔ اللہ کے آخری رسول محمد ﷺ نے فرمایا کہ یہ حق صرف اللہ ہی کا ہے کہ وہ کسی کو آگ کی سزا دے۔اس باب میں اسلام کی اس حساسیت کے باوجود ہم نے دیکھا کہ مسلمانوں کے ملک میں انسانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔یہ ایک بے معنی بحث ہے کہ وہ وکیل تھے یا نہیں،وہ انسان تھے اور ان کو جلا نے والوں پربھی انسان ہونے کا گمان تھا۔اسی طرح یہ بھی بے معنی ہے کہ ڈاکٹر شیر افگن یا اس سے پہلے نعیم بخاری اور خلیل ملک کو مارنے والے وکیل تھے یا نہیں،حقیقت واقعہ بس اتنی ہے کہ انسانوں نے یہ سلوک انسانوں کے ساتھ کیا۔ معافی کی پیشگی درخواست کے ساتھ میں خود کو یہ کہنے پر مجبور پاتا ہوں کہ ان واقعات کی ذمہ دار ہماری ملی قیادت ہے جس نے اپنے مذہبی وعظوں،سیاسی بیانات اور قلمی و لسانی تجزیوں سے اس معاشرے میں انتہا پسندی کے بیج بوئے۔ اب اس پر برگ وبار آنے لگے ہیں تو حیرت اور معذرت کیسی؛ میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیاہ خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے آمریت کے مذموم ہونے پر کسی مہذب معاشرے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں۔وہ لوگ بلاشبہ قابل تحسین ہیں جو آمرانہ رحجانات کے خلاف آواز اٹھا تے ہیں لیکن جب ایک راہنما بتکرار یہ کہتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف فرعون اور نمرود سے بھی بد تر حکمران ہیں اور یہ سن کر ان کے کسی معتقد میں موسوی اور ابراہیمی روح بیدار ہوتی ہے اور وہ مشرف صاحب کے ایک حواری شیر افگن کے گریبان میں ہاتھ ڈالتا،نعیم بخاری پر جوتے برساتا اور خلیل ملک کو کمرہ ِ عدالت میں رسوا کرتاہے تو اس پر حیرت کیسی۔

مزید پڑھیں۔۔
 
Top