ام اویس
محفلین
خدایا دے تو اپنے عشق کا درد
عنایت کر دل گرم و دم سرد
خم دل میں شراب درد بھر دے
پیالی چشم کی لبریز کر دے
عطا میرے تئیں کر یا الٰہی
جنوں کی مملکت کی بادشاہی
رہے روشن مری یوں شمع ہستی
کروں ہر آن جوں پروانہ مستی
مجھے کر عشق کے خنجر سے دمساز
تڑپنے کی حلاوت سے نہ رکھ باز
بسان شمع یہ دل آب کر دے
گداز تن سے لذت یاب کر دے
رواں رکھ تو مرے خامہ کو دن رات
لکھوں تا حمد میں بعد از مناجات
ثنا سننے کو تیری گل ہوا گوش
دہن میں سو زباں غنچے کی خاموش
جہاں اس باغ میں آب رواں ہے
تو موج اس کی تری رطب اللساں ہے
چمن کو دیکھ مرغان خوش آہنگ
کریں ہیں وصف تیرا سب بہر رنگ
ترے بارِ کرم سے شاخ ہے خم
بھرے ہے بلبل بستاں ترا دم
چراغ شام کو ہر شب تری لو
نسیم صبح کو تیری تگ و دو
عطا کی جب سے مشتِ خاک کو جاں
فراواں ہے دم آب و لب ناں
رکھے ہے کام میں جب تک زباں تر
نمک گاہے چکھا دے گاہ شکر
برائے پوشش تن بھی بہر حال
کبھو کمبل اڑھاتا ہے کبھو شال
ہمارے واسطے اے رب معبود
کرم ماں باپ سے تیرا ہے افزود
ترے احساں بیاں کیا ہم سے ہوویں
رہے بیدار تو بندے جو سو ویں
رکھے ہے گرم جب ہو موسم برد
پڑے گرمی تو دے ہے گوشہ سرد
رکھے ہے تجھ سے شیخ و برہمن راہ
تری کیا ذات ہے الله الله
سخن سننے کو تو نے بخشے ہیں گوش
سمجھنے کو دیا ہے فہم اور ہوش
زباں کی خلق منہ میں بہر گفتار
کریں تا درد دل آپس میں اظہار
بیاں کیا کیجیے تیری عنایت
دیے ہیں چشم اور نور بصارت
کہ تا معلوم ہو شام و سحر گاہ
چلیں پستی بلندی دیکھ کر راہ
زباں کو ذائقے سے دے ہے تسکیں
کیا معلوم جس نے ترش و شیریں
غرض کیا کیا کرم ہم پر ہے تیرا
شفیع حشر پیغمبر ہے تیرا