عباد اللہ
محفلین
یہ کیسی افتاد آ پڑی ہے کہ میں نے جس سمت بھی نظر کی
تو کوئی مقہور کوئی معتوب سب بھکاری ہیں جن کے مابین اہلِ ثروت بہ وسعتِ ظرف طعن و دشنام ہی کی خیرات بانٹتے ہیں
مگر یہ دریوزہ ان کی میراث بن چکا ہے
جو آفرینش کی ابتدا سے سبک خرامی سے چلتے چلتے نہ جانے کتنی عظیم نسلوں، کئی زمانوں کے فرق کو پاٹتے ان تک آ گیا ہے
سو اب بجز صبر کوئی چارہ نہیں بچا ہے
اگر بچا ہے تو ایک کاسہ بچا ہوا ہے
اب ایسے آشوبِ کم نگاہی میں کون جانے خدا کہاں ہے
مگر وہ منظر کہ جس میں تقسیمِ مال و زر پر اسی کی چپ کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے
تو کوئی مقہور کوئی معتوب سب بھکاری ہیں جن کے مابین اہلِ ثروت بہ وسعتِ ظرف طعن و دشنام ہی کی خیرات بانٹتے ہیں
مگر یہ دریوزہ ان کی میراث بن چکا ہے
جو آفرینش کی ابتدا سے سبک خرامی سے چلتے چلتے نہ جانے کتنی عظیم نسلوں، کئی زمانوں کے فرق کو پاٹتے ان تک آ گیا ہے
سو اب بجز صبر کوئی چارہ نہیں بچا ہے
اگر بچا ہے تو ایک کاسہ بچا ہوا ہے
اب ایسے آشوبِ کم نگاہی میں کون جانے خدا کہاں ہے
مگر وہ منظر کہ جس میں تقسیمِ مال و زر پر اسی کی چپ کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے
آخری تدوین: