ابن جمال
محفلین
خدانے ہرانسان کو الگ صلاحیتوں،طبائع اوردلچسپیوں سے نوازاہے۔ہرایک کی خواہش ،سوچنے سمجھنے کا انداز،رہنے سہنے کا ڈھنگ ،جینے کا طورطریقہ اورزندگی گزارنے کارنگ ایک دوسرے سے الگ ہوتاہے۔کوئی بھی انسان مکمل طورپر ایک دوسرے جیسانہیں ہوتاکہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی فرق ضرور رہتاہے۔شکل ایک سی ہوگی تودلچسپیاں الگ ہوں گی۔دلچسپیاں ایک ہیں توزندگی گزارنے کاڈھنگ الگ ہوگا۔اگراس میں موافقت ہے توہاتھ پائوں اورجسم کے نشانات الگ ہوں گے۔یہ کیوں ہے ؟یہ اس لئے کہ انسان کے مابین شناخت ہوسکے۔
ہرشخص جس کے اندردینی حس ہے اورایمانی بیداری ہے وہ چاہتاہے کہ وہ دین کی خدمت کرے،اللہ کے پیغام کو ،اسلام کی تعلیمات کو عام کرے،دین اسلام سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کوروشناس کرائے۔اس میں ہرشخص اپنے مزاج ،صلاحیت واستعداد اورافتادطبع کے اعتبار سے الگ راہ متعین کرتاہے یامتعینہ راہوں میں سے کسی ایک کاانتخاب کرتاہے۔
مسئلہ اس میں تب پیداہوتاہے جب ایک شخص یہ سمجھتاہے کہ وہ جوکام کررہاہے بس وہی خدمت دین ہے اوراس کے علاوہ اوردوسرے لوگ جوکچھ کررہے ہین وہ وقت کاضیاع ہے۔اس میں بسااوقات ایساہوتاہے کہ کچھ لوگ غلوسے کام لیتے ہیں اوراپنے طریقے سے کی جانے والی خدمت دین کو دوسرے تمام لوگوں کے طریقے سے افضل اوربرترنہ صرف سمجھناشروع کردیتے ہیں بلکہ دوسروں کواس کی بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی خدمت دین کا یہی طریق کاراختیار کریں۔
اس میں بسااوقات مناظرہ،مجادلہ ،مباحثہ اورمضاربہ (ایک دوسرے کوپیٹنا،شراکت کی اسلامی اصطلاحی نہ سمجھیں)
ایک مثال ،تبلیغی جماعت والے سمجھتے ہیں کہ خدمت دین توبس وہی کررہے ہیںاس کے علاوہ علماء جوکچھ درس وتدریس کررہے ہیں تویہ دوسرے اورتیسرے درجہ کا کام ہے،علماء یہ سمجھتے ہیں کہ جوکچھ خدمت دین کررہے ہین وہی ایک طریقہ ہے جس سے اسلام زندہ ہوسکتاہے اوردیگر ذرائع سے جوخدمت دین ہورہی ہے وہ لاحاصل اوروقت کاضیاع ہے۔توحید کی دعوت دینے والے سمجھتے ہیں کہ جوکام وہ کررہے ہیں بس اس کے علاوہ خدمت دین اورکچھ نہیں ہے،صوفی باصفاحضرات اپنے ہوحق کو ہی اصل مدارایمان سمجھے بیٹھے ہیں۔اورباقی تمام خدمت دین کے دوسرے شعبے ان کی نگاہ میں ہیچ اورپست ہیں۔پرجوش دینی حمیت رکھنے والے نوجوان جوانٹرنیٹ پر اسلام کے تعلق سے کام کررہے ہیں وہ اپنے کام کو وقت کی سب سے بڑی ضرورت بتانے سے کبھی نہیں چوکتے اوریہ کہتے نہیں تھکتے کہ علماء کاروایتی دورگزرگیا اوراب خدمت دین وہی ہے جو وہ کررہے ہیں۔
حالانکہ اگرغورکیاجائے اوردیکھاجائے توجس طرح کسی فیکٹری میں ایک پروڈکٹ کی تیاری میں بہت سارے شعبے کام کرتے ہیں اوران تمام شعبوں کا اس پروڈکٹ کی تیاری میں یکساں حصہ ہوتاہے ۔کبھی آپ نے نہ دیکھاہوگا اورنہ سناہوگاکہ کسی فیکٹری کا کوئی شعبہ اپنے کام کو برتراوردوسرے شعبہ کے کام کو ہیچ بتارہاہو۔بس سب اس میں یہی دیکھتے ہیں کہ تنخواہ اورسیلری کہاں زیادہ ہے جہاں زیادہ ہے وہی بہتراورسب سے اچھاہے۔
اسی طرح خدمت دین سے جڑے لوگوں کوبھی دوسروں کے متعلق سوچناچاہئے کہ خدمت دین ایک بہت وسیع اورعظیم الشان کام ہے نہ کوئی ایک فرد اسے تنہاکرسکتاہے اورنہ اس کیلئے صرف ایک ذریعہ اورطریق کار کافی ہوسکتاہے۔اس کیلئے توضروری ہے کہ قدیم اقدارکوبھی باقی رکھاجائے ،جدید ذرائع ووسائل بھی اختیار کئے جائیں۔ تبلیغی جماعت کی طرح لوگوں سے فردافردابھی ملاجائے اورانٹرنیٹ کے ذریعہ غائبانہ طورپر بھی لوگوں کو دین کی باتیں بتائی جائیں۔ درس وتدریس کے ذریعہ افراد کاربھی تیار کئے جائیں۔عقائد اسلامی ہوں اوروہی ہوں جو کتاب وسنت میں مذکور ہیں اس کی فکر بھی ضروری ہے اوراسی کے ساتھ تزکیہ نفس اورذکر وفکر کی بھی اہمیت کم نہیں۔اوراس کے بعد جس طرح کسی کارخانہ میں کام کرنے والے ملازموں کے درمیان اس پر کبھی بات نہیں چھڑتی کہ میں فلاں شعبے میںکام کررہاہوں تم فلاں شعبے میں بلکہ اصل مسئلہ یہ رہتاہے کہ میری تنخواہ اتنی ہے اورتمہاری اتنی۔ اسی طرح دینی کام کرنے والوں کے درمیان بھی اصل فکر اس کی ہونی چاہئے کہ ہم جوکام کررہے ہیں وہ خلوص نیت کے ساتھ خداکیلئے ہواوراللہ اس خدمت دین سے راضی ہوجائے۔
اہمیت اس کی نہیں کہ فلاں علامہ نے بخاری شریف کا اتنے سال درس دیا اورفلاں مولوی صاحب بیچارے پوری زندگی قاعدہ بغدادی پڑھاتے رہے۔اہمیت اس کی ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ رضائے الہی کیلئے کس نے پڑھایا اورعنداللہ کس کاپڑھانا مقبول ہوا۔قاری صدیق صاحب باندوی نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ کل قیامت کے دن بہت سارے بخاری شریف پڑھانے والوں سے زیادہ عنداللہ معزز اورمکرم قاعدہ بغدادی پڑھانے والے ہوں گے کیونکہ انہوں نے خداکی رضاء کیلئے پڑھایاہوگا۔
امام مالک رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی سے شاید ہی کوئی ناواقف ہوگا۔ وہ ائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں۔ اورحدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کا پوچھناہی کیاہے۔امام شافعی رضی اللہ عنہ ان کے شاگرد فرماتے ہیں جب علماء کا ذکر ہوتو امام مالک کی مثال ان کے درمیان روشن ستارے کی سی ہے۔ان کو ان کے دورکے ایک بڑے عابد نے عبادت وریاضت میں وقت لگانے کا اورتعلیم وتعلم کے سلسلہ کو کم کرنے کا مشورہ دیااوراس تعلق سے ایک مکتوب لکھا۔جواب میں امام مالک نے لکھا کہ شخص کی دلچسپیاں الگ ہوتی ہیں اوراستعدادکار الگ ہوتی ہے۔کوئی عبادت وریاضت کی جانب ملتفت ہوتاہے،کسی کوتعلیم وتعلیم کاچسکہ ہوتاہے۔کسی کو حج وزکوٰۃ میں لطف آتاہے اورکسی کیلئے روزہ رکھناہی سب سے مزیدار بات ہوتی ہے۔لہذا میں جوکام کررہاہوں وہ میرے خیال میں آپ کے کام سے کچھ کمتردرجے کا نہیں ہے اورہم دونوں خیرکاکام کررہے ہیں۔
قال الحافظ ابن عبدالبر فی التمہید ھذا کتبتہ من حفظی وغاب عنی اصلی:ان عبداللہ العمری العابدکتب الی مالک یحضہ علی الانفراد والعمل ،فکتب الیہ مالک:ان اللہ قسم الاعمال کماقسم الارزاق،فرب رجل فتح لہ فی الصلا،ولم یفتح لہ فی الصوم،وآخرفتح لہ فی الصدق ولم یفتح لہ فی الصوم،وآخرفتح لہ فی الجھاد فنشرالعلم من افضل اعمال البر،وقدرضیت بمافتح لی فیہ،ومااظن ماانافیہ بدون ماانت فیہ،وارجو ان یکون کلانا علی خیروبر(سیراعلام النبلا،مالک الامام /48-135)
ہرشخص جس کے اندردینی حس ہے اورایمانی بیداری ہے وہ چاہتاہے کہ وہ دین کی خدمت کرے،اللہ کے پیغام کو ،اسلام کی تعلیمات کو عام کرے،دین اسلام سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کوروشناس کرائے۔اس میں ہرشخص اپنے مزاج ،صلاحیت واستعداد اورافتادطبع کے اعتبار سے الگ راہ متعین کرتاہے یامتعینہ راہوں میں سے کسی ایک کاانتخاب کرتاہے۔
مسئلہ اس میں تب پیداہوتاہے جب ایک شخص یہ سمجھتاہے کہ وہ جوکام کررہاہے بس وہی خدمت دین ہے اوراس کے علاوہ اوردوسرے لوگ جوکچھ کررہے ہین وہ وقت کاضیاع ہے۔اس میں بسااوقات ایساہوتاہے کہ کچھ لوگ غلوسے کام لیتے ہیں اوراپنے طریقے سے کی جانے والی خدمت دین کو دوسرے تمام لوگوں کے طریقے سے افضل اوربرترنہ صرف سمجھناشروع کردیتے ہیں بلکہ دوسروں کواس کی بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی خدمت دین کا یہی طریق کاراختیار کریں۔
اس میں بسااوقات مناظرہ،مجادلہ ،مباحثہ اورمضاربہ (ایک دوسرے کوپیٹنا،شراکت کی اسلامی اصطلاحی نہ سمجھیں)
ایک مثال ،تبلیغی جماعت والے سمجھتے ہیں کہ خدمت دین توبس وہی کررہے ہیںاس کے علاوہ علماء جوکچھ درس وتدریس کررہے ہیں تویہ دوسرے اورتیسرے درجہ کا کام ہے،علماء یہ سمجھتے ہیں کہ جوکچھ خدمت دین کررہے ہین وہی ایک طریقہ ہے جس سے اسلام زندہ ہوسکتاہے اوردیگر ذرائع سے جوخدمت دین ہورہی ہے وہ لاحاصل اوروقت کاضیاع ہے۔توحید کی دعوت دینے والے سمجھتے ہیں کہ جوکام وہ کررہے ہیں بس اس کے علاوہ خدمت دین اورکچھ نہیں ہے،صوفی باصفاحضرات اپنے ہوحق کو ہی اصل مدارایمان سمجھے بیٹھے ہیں۔اورباقی تمام خدمت دین کے دوسرے شعبے ان کی نگاہ میں ہیچ اورپست ہیں۔پرجوش دینی حمیت رکھنے والے نوجوان جوانٹرنیٹ پر اسلام کے تعلق سے کام کررہے ہیں وہ اپنے کام کو وقت کی سب سے بڑی ضرورت بتانے سے کبھی نہیں چوکتے اوریہ کہتے نہیں تھکتے کہ علماء کاروایتی دورگزرگیا اوراب خدمت دین وہی ہے جو وہ کررہے ہیں۔
حالانکہ اگرغورکیاجائے اوردیکھاجائے توجس طرح کسی فیکٹری میں ایک پروڈکٹ کی تیاری میں بہت سارے شعبے کام کرتے ہیں اوران تمام شعبوں کا اس پروڈکٹ کی تیاری میں یکساں حصہ ہوتاہے ۔کبھی آپ نے نہ دیکھاہوگا اورنہ سناہوگاکہ کسی فیکٹری کا کوئی شعبہ اپنے کام کو برتراوردوسرے شعبہ کے کام کو ہیچ بتارہاہو۔بس سب اس میں یہی دیکھتے ہیں کہ تنخواہ اورسیلری کہاں زیادہ ہے جہاں زیادہ ہے وہی بہتراورسب سے اچھاہے۔
اسی طرح خدمت دین سے جڑے لوگوں کوبھی دوسروں کے متعلق سوچناچاہئے کہ خدمت دین ایک بہت وسیع اورعظیم الشان کام ہے نہ کوئی ایک فرد اسے تنہاکرسکتاہے اورنہ اس کیلئے صرف ایک ذریعہ اورطریق کار کافی ہوسکتاہے۔اس کیلئے توضروری ہے کہ قدیم اقدارکوبھی باقی رکھاجائے ،جدید ذرائع ووسائل بھی اختیار کئے جائیں۔ تبلیغی جماعت کی طرح لوگوں سے فردافردابھی ملاجائے اورانٹرنیٹ کے ذریعہ غائبانہ طورپر بھی لوگوں کو دین کی باتیں بتائی جائیں۔ درس وتدریس کے ذریعہ افراد کاربھی تیار کئے جائیں۔عقائد اسلامی ہوں اوروہی ہوں جو کتاب وسنت میں مذکور ہیں اس کی فکر بھی ضروری ہے اوراسی کے ساتھ تزکیہ نفس اورذکر وفکر کی بھی اہمیت کم نہیں۔اوراس کے بعد جس طرح کسی کارخانہ میں کام کرنے والے ملازموں کے درمیان اس پر کبھی بات نہیں چھڑتی کہ میں فلاں شعبے میںکام کررہاہوں تم فلاں شعبے میں بلکہ اصل مسئلہ یہ رہتاہے کہ میری تنخواہ اتنی ہے اورتمہاری اتنی۔ اسی طرح دینی کام کرنے والوں کے درمیان بھی اصل فکر اس کی ہونی چاہئے کہ ہم جوکام کررہے ہیں وہ خلوص نیت کے ساتھ خداکیلئے ہواوراللہ اس خدمت دین سے راضی ہوجائے۔
اہمیت اس کی نہیں کہ فلاں علامہ نے بخاری شریف کا اتنے سال درس دیا اورفلاں مولوی صاحب بیچارے پوری زندگی قاعدہ بغدادی پڑھاتے رہے۔اہمیت اس کی ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ رضائے الہی کیلئے کس نے پڑھایا اورعنداللہ کس کاپڑھانا مقبول ہوا۔قاری صدیق صاحب باندوی نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ کل قیامت کے دن بہت سارے بخاری شریف پڑھانے والوں سے زیادہ عنداللہ معزز اورمکرم قاعدہ بغدادی پڑھانے والے ہوں گے کیونکہ انہوں نے خداکی رضاء کیلئے پڑھایاہوگا۔
امام مالک رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی سے شاید ہی کوئی ناواقف ہوگا۔ وہ ائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں۔ اورحدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کا پوچھناہی کیاہے۔امام شافعی رضی اللہ عنہ ان کے شاگرد فرماتے ہیں جب علماء کا ذکر ہوتو امام مالک کی مثال ان کے درمیان روشن ستارے کی سی ہے۔ان کو ان کے دورکے ایک بڑے عابد نے عبادت وریاضت میں وقت لگانے کا اورتعلیم وتعلم کے سلسلہ کو کم کرنے کا مشورہ دیااوراس تعلق سے ایک مکتوب لکھا۔جواب میں امام مالک نے لکھا کہ شخص کی دلچسپیاں الگ ہوتی ہیں اوراستعدادکار الگ ہوتی ہے۔کوئی عبادت وریاضت کی جانب ملتفت ہوتاہے،کسی کوتعلیم وتعلیم کاچسکہ ہوتاہے۔کسی کو حج وزکوٰۃ میں لطف آتاہے اورکسی کیلئے روزہ رکھناہی سب سے مزیدار بات ہوتی ہے۔لہذا میں جوکام کررہاہوں وہ میرے خیال میں آپ کے کام سے کچھ کمتردرجے کا نہیں ہے اورہم دونوں خیرکاکام کررہے ہیں۔
قال الحافظ ابن عبدالبر فی التمہید ھذا کتبتہ من حفظی وغاب عنی اصلی:ان عبداللہ العمری العابدکتب الی مالک یحضہ علی الانفراد والعمل ،فکتب الیہ مالک:ان اللہ قسم الاعمال کماقسم الارزاق،فرب رجل فتح لہ فی الصلا،ولم یفتح لہ فی الصوم،وآخرفتح لہ فی الصدق ولم یفتح لہ فی الصوم،وآخرفتح لہ فی الجھاد فنشرالعلم من افضل اعمال البر،وقدرضیت بمافتح لی فیہ،ومااظن ماانافیہ بدون ماانت فیہ،وارجو ان یکون کلانا علی خیروبر(سیراعلام النبلا،مالک الامام /48-135)