فرخ منظور
لائبریرین
خرابی کچھ نہ پوچھو ملکتِ دل کی عمارت کی
غموں نے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی
نگاہِ مست سے جب چشم نے اس کی اشارت کی
حلاوت مے کی اور بنیاد میخانے کی غارت کی
سحرگہ میں نے پوچھا گل سے حالِ زار بلبل کا
پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اودھر اشارت کی
جلایا جس تجلی جلوہ گر نے طور کو ہم دم
اسی آتش کے پر کالے نے ہم سے بھی شرارت کی
نزاکت کیا کہوں خورشید رو کی کل شبِ مہ میں
گیا تھا سائے سائے باغ تک تس پر حرارت کی
نظر سے جس کی یوسف سا گیا پھر اس کو کیا سوجھے
حقیقت کچھ نہ پوچھو پیرِ کنعاں کی بصارت کی
ترے کوچے کے شوقِ طوف میں جیسے بگولا تھا
بیاباں میں غبارِ میرؔ کی ہم نے زیارت کی
(میر تقی میر)
غموں نے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی
نگاہِ مست سے جب چشم نے اس کی اشارت کی
حلاوت مے کی اور بنیاد میخانے کی غارت کی
سحرگہ میں نے پوچھا گل سے حالِ زار بلبل کا
پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اودھر اشارت کی
جلایا جس تجلی جلوہ گر نے طور کو ہم دم
اسی آتش کے پر کالے نے ہم سے بھی شرارت کی
نزاکت کیا کہوں خورشید رو کی کل شبِ مہ میں
گیا تھا سائے سائے باغ تک تس پر حرارت کی
نظر سے جس کی یوسف سا گیا پھر اس کو کیا سوجھے
حقیقت کچھ نہ پوچھو پیرِ کنعاں کی بصارت کی
ترے کوچے کے شوقِ طوف میں جیسے بگولا تھا
بیاباں میں غبارِ میرؔ کی ہم نے زیارت کی
(میر تقی میر)
آخری تدوین: