خراب و خوار مثالِ درختِ صحرا ہوں۔۔۔ نوید صادق

نوید صادق

محفلین
غزل
(نذرِ اقبال)

خراب و خوار مثالِ درختِ صحرا ہوں
میں پائمالِ سرِ راہِ سختِ صحرا ہوں

مجھے بھی اپنی طرف کھینچتے ہیں آئینے
مگر میں سب سے گریزاں کہ بختِ صحرا ہوں

تو کیا یہ لوگ مجھے بھول جائیں گے یکسر
تو کیا میں صرف بگولہ ہوں، لختِ صحرا ہوں

تو میرے ساتھ کہاں چل سکے گا عہدِ نَو
کہ تو نقیبِ تغیر، میں رختِ صحرا ہوں

کُھلے کُھلے نہ کُھلے اُس پہ میرے جسم کی پیاس
"نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہوں"

یہ بات باعثِ صد افتخار ہے کہ نوید
ثبوتِ رمزِ تعلق ہوں، تختِ صحرا ہوں

(نوید صادق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احباب کی کڑی رائے کا انتظار ہے۔
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ سبحان اللہ ، کیا با ت ہے نوید بھائی بہت خوبصورت کلام ہے ۔ رسید حاضرہے ۔
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! کیا خوب غزل ہے۔ واہ۔۔۔ واہ۔۔۔ واہ۔۔۔
نہ صرف معنویت کی لذت سے بھرپور ہے بلکہ ہر شعر پڑھ کر یہ تجسس رہا کہ اس سے اگلا قافیہ کیا ہو گا۔
غزل پڑھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ فیض نے یہ شعر شاید آپ کی اس غزل کے لیے کہا تھا:
رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
 

آصف شفیع

محفلین
بہت خوب نوید صاحب! کیا عمدہ غزل کہی ہے ۔ ایک ایک شعر کمال کا ہے۔ اتنے مشکل قافیوں کوجس خوبصورتی سے نبھایا یے وہ صرف آپ ہی کا حصہ ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ۔۔ مشکل قوافی میں بھی ہر شعر با معنی اور موزوں ہے، حالاں کہ محمود مغل گواہی دیں گے کہ میں مشکل زمینوں کو جان بوجھ کر اپنانا اور استادی دکھانا پسند نہیں کرتا۔ لیکن یہ غزل استثنا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
نوید۔۔ ابھی دوسری بار مطالعہ کیا، تو یہ فنی بات محسوس ہوئی۔ (پہلی بار میں تو محض تعریف ہی نکلی تھی)۔
کُھلے کُھلے نہ کُھلے اُس پہ میرے جسم کی پیاس
"نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہوں
اس میں ’پیاس کھلنے‘ کا محاورہ کچھ سوال پیدا کرتا ہے۔ ویسے زبان کے لحاظ سے کیا اچھا مصرع ہے۔۔ کھلے کھلے نہ کھلے۔۔۔۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
مجھے بھی اپنی طرف کھینچتے ہیں آئینے
مگر میں سب سے گریزاں کہ بختِ صحرا ہوں

تو کیا یہ لوگ مجھے بھول جائیں گے یکسر
تو کیا میں صرف بگولہ ہوں، لختِ صحرا ہوں

واہ واہ کیا بات ہے نوید صاحب کیا خوب غزل کہی ہے فاتح صاحب نے صحیح فرمایا کے ہر شعر کے بعد میں بھی یہی سوچتا رہا اگلا قافیہ کیا ہو گا بہت خوب کمال کی غزل ہے بہت شکریہ
 

مغزل

محفلین
جناب نوید صادق
آداب و سلامِ‌مسنون
رسید دے کر غائب ہوا تھا سو حاضر ہوں مقدور بھر سطریں آپ کی بصارت کی نذر:


خراب و خوار مثالِ درختِ صحرا ہوں
میں پائمالِ سرِ راہِ سختِ صحرا ہوں

داخلی کیفیات کا آئنہ دار ، استعارے اور تجرید کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ مصرع ثانی کا جواب نہیں ، تاہم ایک اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ ایک ساتھ چار اضافتیں ۔ مگر ۔ کھل نہیں رہا ، باہم دست و گریباں مطلع کہنے پر مبارکباد ، سب سے ممتاز بات یہ کہ آپ نے کیفیت کو تجسیم کیا۔

مجھے بھی اپنی طرف کھینچتے ہیں آئینے
مگر میں سب سے گریزاں کہ بختِ صحرا ہوں

سبحان اللہ ، سبحان اللہ ، کسی محمل نشیں کو فرصت نہیں کہ آئنہ دیکھے اور کسی کو صحرا سے ۔ وضاحت نہ کروں گا کہ شعر چھوٹا ہوجائے گا ( شاید اورا کا معاملہ ہے ) ۔ خوبصورت شعر پر دلی مبارکباد

تو کیا یہ لوگ مجھے بھول جائیں گے یکسر
تو کیا میں صرف بگولہ ہوں، لختِ صحرا ہوں

سوال نے اسے بڑا اور الگ کردیا ہے ۔ مسلمات سے سوال کشید کیا جانا بھی بڑی شاعری کی تعریف ہے ۔بظاہر گزشتہ شعر کا تسلسل لگ رہا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ غزل یک نشستی ہے اور ایک ہی کیفیت میں صفحہ قرطاس پر رونق افروز ہوئی ہے۔ سو مبارکباد

تو میرے ساتھ کہاں چل سکے گا عہدِ نَو
کہ تو نقیبِ تغیر، میں رختِ صحرا ہوں

میرا جواب دے دیا ہے میرے سرکار نے ، بہت خوب شعر ہے مصرع اولی میں بلا کی سی روانی ہے جس سے فہمائش کا عمل تیز ہورہا ہے۔ نقیبِ تغیّر اور رختِ صحرا کی بندش کا جواب نہیں ۔۔ کسی بھی منظر پر چسپاں کرلینے سے پہلے رخت و تغیّر کی کائنات تسخیر کرنی پڑے گی ۔۔ بہت خوب بلکہ بہت بہت خوب۔ اجازت ہو تو یہ غزل اپنے بلاگ کی زینت میں لے آؤں ؟

کُھلے کُھلے نہ کُھلے اُس پہ میرے جسم کی پیاس
"نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہوں"

یہاں کیفت غزل کے مجموعی مزاج سے مختلف محسوس ہوتی ہے ۔ میرے خیال میں اس شعر کا وقت آخرِ شب کا عمل ہے ۔ مگر مصرع اولی میں رمیدگی کے پہلو نے سپردگی و وصال کے اغلب امکان کی گرہ کشائی کی ہے ۔ مصرع ثانی واوین میں ہونے سے اصل کی طرف پیاس سفر کرنے کو ہے ( ذپ کردیجیے گا) کہیں ’’التجائے مسافر ‘‘ (اقبال) سے تو نہیں ؟ ۔یقیناً ہوگا ۔ سات بار فرشی سلام کہ حق ادا کردیا ۔ گرہ کا جواب نہیں ، یہاں‌ثانی وہا‌ں اولی ہے سو عین حق ہے کہ مصرع یہی ہوسکتا ہے دگر نہیں ۔۔

یہ بات باعثِ صد افتخار ہے کہ نوید
ثبوتِ رمزِ تعلق ہوں، تختِ صحرا ہوں
(نوید صادق)

مقطع نگاری میں ، نوید نے ہوں اور ہے کی تفریق مٹاد ی ہے ۔ معاملہ امکانِ خفی کا ہے سو جلی حروف میں‌لکھنا مجھے مقدور نہیں ۔ تخت سے میں ’’ عرش‘‘ کے مزے لے رہا ہوں ۔اب چونکہ بجلی جانے کا وقت ہے سو ۔۔ ایک بار پھر صمیمِ قلب سے مبارکباد ۔ مجھے امید ہے میری اس تفہیم کے ابلاغ کی کوشش کو آپ قبول فرمائیں گے، کہیں کوئی غلطی رہ گئی ہو، معارفی، معانوی اور املا انشا کی بھی تو معاف کردیجیے گا۔ والسلام

عاقبت نا اندیش
م۔م۔مغل
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ نوید بھائی عزت افزائی کیلیے۔
دعاؤں میں یاد رکھیں۔

وارث صاحب اور خرم بھیا ، شکریہ کاشکریہ
 

مغزل

محفلین
آصف شفیع, خرم شہزاد خرم, سخنور, محمد وارث صاحبان-------- آداب
میں نے مقدور بھر تفہیم کی کوشش کی ہے ، میں آپ سے گزارش کروں گا کہ میری غلطی کی نشاندہی کیجیے اور کلا م پر بحث کو جاری رکھا جائے ۔
تاکہ ہم ایسے نئے کہنے والوں کیلیے معاملات آسان ہوجائیں۔ دیگر احباب بھی کرم فرمائیں۔
والسلام
 

ادریس آزاد

محفلین
غزل
(نذرِ اقبال)

میں پائمالِ سرِ راہِ سختِ صحرا ہوں
اتنی زیادہ اضافتیں؟ اور سرراہ سخت صحرا کا ابلاغ نہیں

مجھے بھی اپنی طرف کھینچتے ہیں آئینے
مگر میں سب سے گریزاں کہ بختِ صحرا ہوں
مد کے بعد ہمزہ والے الفاظ کو کھینچ کر پڑھنا درست نہیں۔جیسے پاوں کو ہمیشہ پان کے قافیے پر پڑھا جائے گا۔lor]
تو کیا یہ لوگ مجھے بھول جائیں گے یکسر
تو کیا میں صرف بگولہ ہوں، لختِ صحرا ہوں
زبردست
تو میرے ساتھ کہاں چل سکے گا عہدِ نَو
کہ تو نقیبِ تغیر، میں رختِ صحرا ہوں
کوئی ابلاغ نہیں،رخت صحرا کا قافیہ استعمال کرنے کے لیے لکھا گیا ہے،نقیب تغیر کو دعوت مجادلہ و مقابلہ دینے کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ آپ اُس سے زیادہ تیز چل سکتے ہوں۔اور رخت صحرا کب ساکن ہوتا ہے کہ مقابلۃ لایا گیا۔
کُھلے کُھلے نہ کُھلے اُس پہ میرے جسم کی پیاس
"نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہوں"
زبردست
یہ بات باعثِ صد افتخار ہے کہ نوید
ثبوتِ رمزِ تعلق ہوں، تختِ صحرا ہوں
اچھا ہے
(نوید صادق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احباب کی کڑی رائے کا انتظار ہے۔

آپ نے اجازت دی تو جسارت کی معذرت کا طلبگار ہوں
ؤؤ
 

مغزل

محفلین
ادریس آزاد صاحب
آداب محفل میں‌خوش آمدید
آپ سے التماس ہے کہ ’’ تعارف ‘‘ کی لڑی میں اپنا مفصل تعارف پیش کیجیے ۔

غزل پر آپ کا تبصرہ نظر نواز ہوا ، قطع نظر اس کے کہ کئی ایک باتوں پر اختلاف بھی ہے ،لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ
غزل پر بات ہوئی محض واہ واہ ۔۔ اوہ اوہ ۔۔ آہا آہا ۔ لاجواب ۔۔ بہت خوب کہہ کر سر سے بوجھ نہیں اتارا گیا۔ مجھے امید
ہے کہ اسی طرح آپ کے خیالات سے مجھ ایسے کو بہت کچھ سیکھنےکو ملے گا۔

عاقبت نااندیش
کہساروں کی وادی ایبٹ آباد سے ہجرتی
م۔م۔مغل
 

الف عین

لائبریرین
ٌخوش آمدید ادریس آزاد۔۔ غزل پر تکنیکی رائے دینے کا شکریہ ۔ نوید صادق تو جب دیں ، وہ الگ۔
آپ نے تین اعتراضات کئے ہیں۔
پہلا۔۔ محض اضافتوں پر ہے۔۔۔ یہ کوئی خاص نہیں۔۔ شاعر جب جائز سمجھتا ہے تو کیا حرج ہے۔
دوسرا بلکہ تیسرا"درختِ صحرا" کے ساکن ہونے کا۔۔۔ بھائی شاعر مقابلہ کرنے نہیں نکلا ہے۔ اپنی بے بضاعتی کا اظہار کر رہا ہے۔
اب آئیے دوسرے اعتراض پر۔۔۔ شاید آپ کا مطلب ہے کہ آئینہ بر وزن فاعلن آنا چاہئے تھا، نہ کہ آ ئی نہ۔۔ بروزن فعلن فع۔ تو جناب ۔ میں اس وقت قاصر ہوں۔ وارث شاید سند میں اشعار لے آئیں جس میں آ۔ئی۔ نا باندھا گیا ہو۔ لیکن میرے خیال میں دونوں جائز ہیں۔ یہ بات محض ’آؤ‘ کے لئے درست ہو سکتی ہے۔ پاؤں اور گاؤں کی مثال مخصوص صورت ہے۔ یہ ہندی الفاظ ہیں۔ لیکن ہمزہ کے بعد ’آئی‘ بھی تو کھینچ کر وزن میں لایا جا سکتا ہے۔ اس سے میں متفق نہیں۔
 

مغزل

محفلین
سرکار ہم نے بھی باندھا ہے :

خون ہی خون ہے برسات کے آئینے میں
کوئی صورت نہیں حالات کے آئینے میں

آئنہ اور آئینہ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اقبال نے آئنہ اور آئینہ دونوں طرح باندھا ہے ،

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیزتر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں
-----------------------------------
ہے آج یہ اس قوم کا آئینہ ِ احوال
جس قوم کا اقبال ہے تاریخ کا اقبال
(حضرت علامہ محمد اقبال )

دھندلاتا ہے اس طرح سے آئینہ افکار
آتی ہے نظر اور ہی کچھ صورت کردار
--------------------------------
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
---------------------------------
اب کسی عکس پہ بھی مجھ کو بھروسا نہ رہا
ایسا دھندلایا ہے آئینہء خاطر میرا
-----------------------------------
بہ رنگِ کاغذِ آتش زدہ نیرنگِ بے تابی
ہزار آئینہ دل باندھے ہے بالِ یک تپیدن پر
(غالب)
----------------------------------
کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
--------------------------------------
گم ہوئے وہ آشنا چہروں کے آئینے کہاں؟
شہر ہے سارے کا سارا دھند میں لپٹا ہوا
-------------------------------------
سر بر زدہ ام با مۂ کنعاں ز یکے جیب
معشوق تماشا طلب و آئینہ گیرم
شیرازی
 

الف عین

لائبریرین
واہ محمود میاں۔۔تم نے تو ’ناطقہ‘ بند کر دیا۔۔۔ میں یاد داشت پر آج کل زور نہیں دے رہا ۔ ایک اٹیک بھگت چکا ہوں نا۔
 

مغزل

محفلین
واہ محمود میاں۔۔تم نے تو ’ناطقہ‘ بند کر دیا۔۔۔ میں یاد داشت پر آج کل زور نہیں دے رہا ۔ ایک اٹیک بھگت چکا ہوں نا۔

بابا جانی آپ نے تو ہمارے بلاگ کو بند کردیا :rollingonthefloor:
اللہ آپ کو صحتِ کاملہ عاجلہ عطا فرمائے ( اٰمین ثم اٰمین)
 

ادریس آزاد

محفلین
سرکار ہم نے بھی باندھا ہے :

خون ہی خون ہے برسات کے آئینے میں
کوئی صورت نہیں حالات کے آئینے میں

آئنہ اور آئینہ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اقبال نے آئنہ اور آئینہ دونوں طرح باندھا ہے ،

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیزتر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں
-----------------------------------
ہے آج یہ اس قوم کا آئینہ ِ احوال
جس قوم کا اقبال ہے تاریخ کا اقبال
(حضرت علامہ محمد اقبال )

دھندلاتا ہے اس طرح سے آئینہ افکار
آتی ہے نظر اور ہی کچھ صورت کردار
--------------------------------
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
---------------------------------
اب کسی عکس پہ بھی مجھ کو بھروسا نہ رہا
ایسا دھندلایا ہے آئینہء خاطر میرا
-----------------------------------
بہ رنگِ کاغذِ آتش زدہ نیرنگِ بے تابی
ہزار آئینہ دل باندھے ہے بالِ یک تپیدن پر
(غالب)
----------------------------------
کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
--------------------------------------
گم ہوئے وہ آشنا چہروں کے آئینے کہاں؟
شہر ہے سارے کا سارا دھند میں لپٹا ہوا
-------------------------------------
سر بر زدہ ام با مۂ کنعاں ز یکے جیب
معشوق تماشا طلب و آئینہ گیرم
شیرازی

کان پکڑتا ہوں‌مہاراج ! اور الف عین صاحب کا بھی شکر گزار، اساتذہ کی نشانی سی محسوس ہوئے۔اگرمجض علالت نے انہیں بزرگ نہیں‌کردیا تو۔
 
Top