خریدی ہے سیاہی پل بھر سرور کی خاطر
از س ن مخمور
بس ٹریفک سگنل پر رکی تو میں نے اپنی نگاہ کا دئراہ مزید بڑھا دیا اور اردگرد کا جائزہ لینے لگا، اچانک میری نگاہ ایک اشتہاری بورڈ پر پڑی اور میں نے جھجھک کر نگاہوں کا رخ بس کے اندر کر لیا۔ میں بس میں عورتوں کی بیٹھک والے حصے سے ایک سیٹ چھوڑ کر بیٹھا تھا، کھڑکی کے پاس بیٹھنے کی وجہ سے یاتو میں کھڑکی سے باہر دیکھتا رہوں ، یا بالکل سامنے دیکھوں، کھڑکی سے باہر وہ اشتہاری بورڈ مجھے پریشان کر نے لگا تھا۔ اور سامنے عورتوں کی بیٹھک سے کسی جوان لڑکی کے آسیتن سے آزاد شانے پریشان کر رہے تھے۔ میں نے مجبوراَ آگے والی سیٹ پر اپنے ہاتھ رکھے اور اپنا سر ان پر ٹکا کر نیچے اپنے جوتوں کو دیکھنے لگا۔
یہ حال کم و بیش ہر روز کا ہے، مجھے بس سے آنا جانا پڑتا ہے اور میں اب اپنا اکثر سفر نیچے دیکھتے دیکھتے گزار دیتا ہوں۔ میرا جیسا حال معلوم نہیں کتنے افراد کا ہے مگر ہم تعداد میں ہو کر بھی اقلیت بن چکے ہیں۔ قاری پر اب بوجھ بن رہی ہوگی یہ تحریر، مگر جو کچھ میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ بوجھ وہ ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتا ہی گیا ہے دل و نظر پر اور اب آنے والے کل کی سیاہ سوچ کے خیال نے مجھے پریشان کردیا ہے۔ اور یہ ہی وہ بوجھ ہے جس نے کلمہ پڑھتی قوم کو گمراہی کے عمیق گڑھوں میں اتار دیا ہے۔
صاف طور سے کہوں تو ہم نے لذت ِنفس اور آنکھوں کی ٹھنڈک اور سرور کے لئے فیشن، جدید دور کے بہانے، موسم کے تقاضوں جیسے نہ جانے کتنے دروازے کھول کر صنف ِنازک کوتماشہ بنا دیا ہے۔ یہ کوئی تیس، بتیس سال پُرانی بات ہے میں اور میرے دوست کراچی یونیورسٹی میں شعبہ بی فارمیسی سے نکل کر ٹھنڈی سڑک پر خوش گپیاں کرتے ہوئے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کی جانب جا رہے تھے،آگے بیان سے’’ قبل ٹھنڈی سڑک ‘‘ نامی کے سڑک کے نام کا سبب جانتے چلیں۔دوستوں اس نام کا سبب شعبہ بی فارمیسی کی لڑکیوں تھیں جو فارغ اوقات میں اس سڑک کے کنارے لگی بینچوں پر جلوہ افروز ہوتی تھیں، یہ تمام حقیقت مجھےیونیورسٹی کی زندگی گزارکر پتہ چلی ورنہ یونیورسٹی کے زمانے میں ہم ٹھنڈی سڑک کو ٹھنڈا اس کے دونوں کناروں پر موجود گھنے درختوں کی وجہ سے سمجھتے تھے ۔توجناب یونیورسٹی کےصدردروازے کی جانب جاتے ہوئے ہمارے آگے ایک لڑکی سفید لباس میں ملبوس ، بال کھولے اس انداز سے چل رہی تھی جیسے فیشن شو میں ماڈلز بلی کی چال( کیٹ واک ) چلتی ہیں، ہمارے دوستوں میں ایک صاحب تھے جن کو جماعت کی تمام لڑکیاں بھائی کہتی تھیں اور وہ بھی واقعی انکے بھائی ہی تھے ،اور ایسی طبیعت کے مالک کہ جب تک ہمارا ساتھ رہے انہوں نے کبھی یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ حافظ ہیں اور یونیورسٹی سے سیدھا مدرسے جاتے ہیں پڑھانے ، وہ خود نمایائی جوعموما آج معاشرے میں حافظ حضرات یا واجبی سابھی علم رکھنے والے میں ہوتی ہے، نام کی بھی ان میں کبھی نظر نہ آئی،ایسے رفیق نے کہا ’’ بھائیوں یہ جس انداز سے چل رہی ہے اور جو لباس اس نے زیب تن کیا ہوا ہے وہ واضح طور پر گناہ کی دعوت دے رہا ہے ‘‘ اورہم تمام دوست تیز تیز قدم اٹھاتے اس سے آگے نکل گئے۔ یونیورسٹی کا وہ زمانہ، جوانی کا وہ وقت پر لگا کر اُڑ گیا۔ اب آج دیکھوں تو ہر طرف کچھ وقت کو نظر اٹھتی ہے پھر کوئی ایسا منظر نگاہ میں آجاتا ہے کہ جھجھک کر نظر وہاں سے ہٹانا پڑتی ہے۔
مردوں کے معاشرے میں عورت کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور نفسی لذت کے لئے ایسا استعمال کیا اور پیش کیا کہ بیان سے باہر ہے،میں نہ مفتی ہوں، نہ عالم ہوں اور نہ ہی کسی قسم کا علم رکھنے والا مگر جو لکھنے جا رہا ہوں اسکے لئے کسی علم کی نہیں بس لمحہ بھر کی سوچ ، آنے والے سیاہ وقت کا خوف ہونا لازم ہے اور بس پھر تمام منظر اپنے آپ ہی صاف ہوجائے گا ۔ تیس بتیس سال پہلے کا جو واقعہ اوپر بیان کیا ہے اس وقت وہ محترمہ لباس تو مکمل پہنی ہوئی تھیں مگر انداز ایسا کہ لگتا تھا انہوں نے کپڑے کے تھان پر لیٹ کر لباس سلوایا ہے، وہ وقت اور تھا، بڑا عجیب اور معیوب سا لگا تھا خاکسار اور اسکے احباب کو اتنی فیٹنگ کا لباس ۔مگردھیرے دھیرے فیشن کے نام ، جدید دور کے تقاضوں کے تحت اس طرح کی فیٹنگ ہم ہی لوگوں نے اپنی آنکھوں کے سرور اور نفسی لذت کے لئے عام کردی۔کپڑا موسم کے تقاضوں کی بدولت ہم نے باریک سا باریک کردیا اورلباس کے نیچے استر کا فیشن یا تو غائب کر دیا یا پھر استر کے لئے بھی اتنا ہلکا اور باریک کپڑا استعمال کیا کہ معاشرہ عورت کا اسکے لباس میں ہوتے ہوئے بھی ایکسرے کرنے کے قابل ہوگیا اور ہم راہ چلتے اپنی نگاہوں کو سیراب کرنے لگے۔
جدید دور میں ذہنی پسماندگی اتنی عروج پر پہنچ گئی کہ کسی بھی اشتہار میں عورت کی موجودگی لازم قرا ر پاگئی اور وہ بھی اس انداز سے کہ اشتہار اگر رنگت صاف کرنے کی کریم کا ہے تو سڑک کنارے بڑے بڑے اشتہاری بورڈ پر نہ صرف عورت کا گورا چہرہ دکھایا جا رہا ہے بلکہ عریاں شانے بھی خصوصی طور پر نمایاں ہوتے ہیں۔ اب رنگت صاف کرنے کی کریم کے اشتہار کے لئے نہ تو عورت ضروری تھی اور نہ ہی یہ عریانیت ۔ اور اگر عورت کی موجودگی ضروری تھی تو صرف چہرے سے کام باآسانی نکل جاتا مگر یہ عریاں شانے ۔۔۔۔۔ اف !! میں بھی کیسی دقیانوسی باتیں کرنے لگا، جدید دور میں یہ معمولی بات ہے اور میری ٹانگ یہیں ٹوٹ رہی ہے۔عجیب نامعقول انسان ہوں۔
ایک وقت تھا جب پاکستان کے واحد ٹی وی چینل پر خبریں یعنی حکومت نامہ پڑھا جاتا تھا تو پڑھنے والی کے سر پر دوپٹہ لازم قرار دے دیا گیا تھا اب صاحب آپ اس کو دوپٹہ کہیں یا روپٹہ کہیں وہ جو بھی تھا اب صرف پٹہ بن کے رہ گیا ہے جو خبریں پڑھنے والی کے گلے میں نظر آرہا ہوتا ہے۔ پہلے یہ اوڑھنی سر سے سینے تک تھی مگر جدید دور کے تقاضوں، نئے فیشن کی ضرورت اور دقیانوسی سیاہی ذہنوں پر سے چھٹنے کے سبب یہ سر سے اتر کر سینے کو اپنی گرفت میں لئےرہی اور پھر وقت کے ساتھ گلے تک محدود ہوگئی اور اب کہیں کہیں گلے سے بھی غائب ہوگئی اور آج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں ہمارے پاس ایسے گھرانے ہیں جنہوں نے یہ اوڑھنی صدوقوں میں بند کر کے ہم کو جدید دور سے روشناس کروایا ہے۔ میری تو آنکھیں خیرہ ہیں اس دور سے ، کبھی سوچتا ہوں مجھے تلواروں اور گھوڑوں کے زمانے میں ہونا چاہئیے تھا ۔مگر اس دور میں ہم جیسے گدھے قابل ِقبول نہیں تھے۔
اب ہم دیکھیں تو سڑک کنارے لگے بورڈز چاہے رنگت گوری کرنے والی کسی کریم کے ہوں، چاہے کسی لان کے یا بستر کے گدوں کے ، اس میں عورت کاعکس یعنی اسکی تصویر جسم کےکسی نہ کسی ڈھکے ہوئے حصے کی نمائش کے ساتھ لازمی ہے ۔ یہ تمام بالا باتیں جو فقیر کے ذہن میں آئی ہیں وہ عام سی باتیں ہیں ، لوگ اپنے نفس کو ان نظاروں سے لطف پہنچا رہے ہیں مگر جو سوال خاکسار کے ذہن میں ہے وہ اکثر ایسی سوچ تک فقیر کولیجاتا ہے جس کو وہ زیرِقلم نہیں لا سکتا ، اور آج بالا تمام باتیں بیان کرنے کے بعد وہ سوال قاری کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں۔
پرانے وقتوں میں عورت کی نمائش نہیں تھی، مگرانسان اپنے نفس کے سرور کے لئے مختلف بہانوں سے عورت کی نمائش کرتا رہا اور اب یہ عالم ہے کہ راہ چلتے ایسے اشتہار نظر آنے لگے ہیں جن میں یا تو عریانیت موجود ہے یا راہ چلتی صنف ِنازک ایسے لباس میں نظر آنے لگی ہیں جس کو پہنو یا نہ پہنو بات برابر ہے۔ اب بات کر تے ہیں ہم سے چھوٹوں کی ، جنہوں نے اس ماحول میں آنکھ کھولی ہے جو عورت کو لباس میں دیکھ تو رہے ہیں مگر عریاں شانوں اور ٹانگوں کے ساتھ۔ وہ یہ سب دیکھتے دیکھتے ان تمام نظاروں کے عادی ہوچکے ہیں ان کے لئے ان نظاروں میں کوئی نفسی لذت نہیں ہے ۔ اور اب ذرا سوچ لیں وہ اپنی کھوج اس نفسی لذت کے ہاتھوں کہاں تک جا سکتے ہیں جس کی انگلیوں پر رقص کرتے ہوئے ہم ان کو وراثت میں لبا س کے ساتھ بے لباسی دے رہے ہیں۔ اخبا ر ہو یا خواتین کے رسالے، اشتہار سگریٹ کا ہو یا کسی لان کا، کاونٹر کسی کوچنگ سینٹر کا ہو یا کسی ہسپتال کا ہم فیشن کے بہانے، جدید دور کے بہانے ، آزاد خیالی کے بہانے آنے والوں کو وہ راستہ دے رہے ہیں جس کو فقیر زیرِقلم نہیں لاسکتا ، ہم لذت کی وہ بھوک چھوڑے جا رہے ہیں جو رہی سہی انسانیت کو چاٹ جائے گی۔۔۔
ہماری نسل ان تمام نظاروں کی عادی ہو چکی ہے اسکو ان تمام نظاروں سے بڑھ کر کھوج ہے۔ ہم نے محض اپنی آنکھوں کے سرور کی خاطر اپنا کل نہ جانے کس تاریکی کے حوالے کر دیا ہے، ہمارا دل بہلا جب ہم عورت کو محفل تک لائے، پھر بھوک بڑھی ہم نے اسکی اوڑھنی چھین لی ، پھر وقت کے ساتھ طلب بڑھی تو مردانہ پہناوا پہنا دیا ، ہماری آنکھیں یہ منظر دیکھ دیکھ کر عادی ہوگئیں ، نفس کچھ اور کی طلب کرنے لگا توہم ایسا کپڑا لے آئے جس کو پہن کر بھی بدن کا پردہ نہ ہو، مگر طلب تھی کہ مٹنے ہی میں نہیں آرہی تھی اور پھر ہم وہ فیشن لے آئے جس میں کبھی شانے عریاں تو کہیں ٹانگیں عریاں ہو جائیں ۔اب ہمارا زمانہ تمام ہونے کو ہے اور باگ دوڑ ہماری نسل کے ہاتھوں میں ہے جو ان تمام نظاروں کی عادی ہوچکی ہے اب سوچیں کہ نفس کی یہ بھوک جب انکو پریشان کرے گی ۔ جب وہ اس طلب کے پیچھے رقص کریں گے تو اسکےتحت صنف ِنازک کو کہاں لا کھڑا کریں گے ۔آج جو بند کمروں کے تماشےہیں کل سڑک کے عام تماشے بنا دئیے جائیں گے ۔آخر کب تک ؟؟ اور کہاں تک؟؟
یہ سوال امید کی روشنیوں پر مہیب اندھیرا بن کر چھا تا جا رہا ہے مگر جب الفاظ اترتے ہیں قرطاس پر تو امید کی لو پھر بھڑک پڑتی ہے کہ شاید کبھی یہ الفاظ پڑھکر کسی سمت سے کوئی ایسا سورج ابھرے جو پھیلتی سیاہی کو روشنی میں تبدیل کر دے ۔ اب یہ پڑھنے والے پر ہے وہ یہ سوچ ، یہ پیغام کہا ں تک لے پہنچے۔ اور کل ہونے والے اندھیرے کے لئے روشنی کے چراغ ابھی سے جلا دے
خیر اندیش
س ن مخمور
امر تنہائی