جاویداقبال
محفلین
ہوئی۔ایک معنی وہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کےاستادسمجھےجاسکتےہیں۔انھوں نےاموی سلطنت کےخلاف بغاوت کی لیکن انکےساتھیوں نےانکاساتھ۔ چھوڑدیا۔آخرکاروہ گرفتارہوئےاورانھیں 120ہجری میں قتل کردیاگیا۔امام حنیفہ کی وفات 150ھ میں ہوئی،120 ھ اور150ھ کےمابین انھوں نےایک مستقل کتاب لکھی،جس کانام"کتاب السیر"تھا۔اسکی تاریخ دلچسپ ہے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وہ فقیہ ہیں جنھوں نے فتوی دیاکہ اگرساری تدبیریں اورکوششیں ناکام ہوجائیں تواسلامی سلطنت کےمسلمان حکمران کے خلاف بھی تلوارلےکربغاوت کی جاسکتی ہے۔دوسرے فقہاء اسطرح فتوی دینےسے جھجکتےتھےبلکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نےیہ فتوی دیاتوانھوں نےاسکی تردیدکےلیےکتابیں لکھی۔بہرحال امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کافتوی اس حدیث پرمبنی ہے۔من رآی منکم منکرافلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وہ ذلک اضعف الایمان۔یعنی اگرکوئی کسی برائي کودیکھےتوچاہیے کہ اسےبزوربدل دےاوراسکی اصلاح کرے۔اگربزوربدلنےکااسکےلیےامکان نہ ہوتوکم از کم دل ہی میں اس کوبراسمجھے۔اگرکوئی شخص برائی کودیکھ۔ کردل میں بھی اسکوبرانہیں سمجھتاتووہ اچھامسلمان نہیں۔ کم از کم دل میں براسمجھناضعف الایمان یاضعیف ترین ایمان ہے۔یہ امام ابوحنیفہ کااستدلال تھا۔دوسرے امام جو اس کےخلاف رائےرکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بغاوت نہیں کی جانی چاہیے،انکااستدلال ایک دوسری حدیث تھی۔وہ حدیث تھی کہ اگرحکمران تمہارے ساتھ۔ عدل کرتاہےتوخداکاشکراداکرواوراگرتم پرظلم کرتاہےتوصبرکرو۔توایک ہی معنی میں دوحدیثیں ملتی ہیں جن میں بظاہرتضادمعلوم ہوتاہے۔اگرچہ سیاق وسباق جداجداہے۔امام ابوحنیفہ بھی یہ نہیں کہتےکہ ہروقت، ہرچھوٹی بات پر،حکومت سےبغاوت کروبلکہ وہ شرط لگاتے ہیں کہ پرامن وسائل کی ساری کوششیں رائیگاں ہوجائیں تواس وقت جائزہےکہ حکمران کےخلاف ہتھیاراٹھائےجائیں۔بہرحال جس موضوع سےمیں بحث کررہاہوں اس میں یعنی انٹرنیشنل لاکی تاریخ میں اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ جب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نےوہ کتاب لکھی توفوراایک معاصرفقیہ امام اوزاعی نےاسکی تردیدمیں ایک رسالہ لکھا۔بدقسمتی سےاس وقت ہمارےپاس نہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب موجودہےاورنہ امام اوزاعی کارسالہ ، بجزان کارسالہ،بجزان اقتباسات کےجوامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نےاپنی"کتاب الام"میں جمع کیےہیں۔اس سےنظرآتاہےکہ کن چیزوں کےمتعلق امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائےسےامام اوزاعی نےاختلاف کیاتھاجب امام اوزاعی نے،جودمشق کےفقیہ تھے،امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جوکوفہ یعنی عراق کےفقیہ تھے،کی کتاب پرایک رسالہ لکھاتوامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نےمناسب نہیں سمجھاکہ خوداسکاجواب دیں۔ان کےایک شاگردامام ابویوسف نےاسکاجواب لکھا۔یہ کتاب بھی ہمارے پاس محفوظ نہیں،لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی"کتاب الام"میں جواقتباسات ہیں،ان میں اسکابھی ذکرآتاہے۔چنانچہ ان اقتباسات کی مددسے
ایک کتاب مرتب کی گئی جوحیدرآباددکن میں "مجلس دائرۃ المعارف"کےاہتمام سےشائع ہوگئی ہے۔اس کتاب سےامام ابوحنیفہ،امام اوزاعی ،امام ابویوسف اورآخرمیں خودامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کےنقطہ نظراوران کےاعتراضات وجوابات کااندازہ ہوتاہے۔اسطرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ تصنیف کی بدولت ان نایاب کتابوں کاایک بڑانادرذخیرہ ہمارے پاس محفوظ ہوگیاہےاگرچہ وہ کتابیں کامل طورپرہم تک نہیں پہنچیں۔اس سلسلےمیں ابن حجرنےاپنی کتاب"تاسیس التوالیف۔ ۔ ۔ ۔"میں جوامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح عمری ہے،ایک جگہ لکھاہےکہ "سیر"پرسب سےپہلےامام ابوحنیفہ نےایک کتاب لکھی،جسکاجواب امام اوزاعی نےدیااوراسکاجواب الجواب امام ابویوسف نےلکھا،پھران پرتبصرہ امام شافعی نےاپنی "کتاب الام"میں کیاہے۔انٹرنیشنل لاسےمتعلق تالفیوں کےآغازکی یہ سرگزشت تھی۔
انٹرنیشنل لاء کاذکرسب سےزیدبن علی کی "کتاب المجموع"میں آیاہے،لیکن اس کتاب کاصرف ایک باب اس موضوع سےمتعلق ہے۔جیساکہ ابن حجرنےبیان کیا۔اس موضوع پرایک مستقل کتاب سب سےپہلے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نےتصنیف کی اوروہ یقیناوہ اپنےمعمول کےمطابق اپنےشاگردوں کواس موضوع پردرس بھی دیتےرہےہوں گے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےدرس کاطریقہ یہ معلوم ہوتاہےکہ پہلےوہ اپنےخیالات بیان کرتے،پھراپنےشاگردوں سےبحث بھی کرتےاورپوچھتےکہ تمہاری کیارائےہے؟اس بحث کی وجہ سےمختلف پہلوواضح ترہوجاتےتھے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ وبرکاتہ کی کتاب ہم تک نہیں پہنچی ہےلیکن میرااندازہ ہےکہ وہ بیس پچیس صفحوں کارسالہ ہوگا۔لیکن انکےشاگردوں میں سےامام محمدشیبائی رحمۃ اللہ علیہ،امام زفراورامام ابراہیم الفزاری کی کتابیں سینکڑوں صفحوں پرمشتمل ہیں۔میرا خیال ہے،ممکن ہےصحیح نہ ہو،کہ جب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب کادرس دیتے رہےتواس درس کی یادداشتیں کتابی صورت میں مدون ہوئیں جوبعدمیں شاگردوں کی طرف منسوب ہوگئے۔ان میں امام الفزاری کی کتاب ایک مخطوطےکی صورت میں مراکش میں موجودہے۔میں نےایک مرتبہ اس کوپڑھتےکی کوشش کی،لیکن چونکہ یہ کوفی خط میں ہےاسلیےبڑی مشکل سےصرف چندصفحےپڑھےاسکےبعداسےالتواء میں ڈال دیا۔اب تک اسکےفوٹومیرےپاس پڑےہوئےہیں۔اسکی اشاعت کی نوبت ہی نہیں آئی۔
امام محمدشیبائی رحمۃ اللہ علیہ نےجوامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےشاگردوں میں سےتھے،اس موضوع پردوکتابیں لکھیں،کتاب السیرالصغیراورکتاب السیرالکبیر،کہاجاتاہےکہ پہلےانہوں نےالسیرالصغیرلکھی توامام اوزاعی نےطنزاکہاکہ عراق والوں کواس موضوع پرلکھنےکی جرات کیسےہوئی جب کہ وہ علم حدیث سےزیادہ واقفیت نہیںرکھتے۔اس پرامام محمدشیبانی نےکتاب السیرکےنام سےایک جامع ترکتاب لکھی اوراسکاایک
ایڈیشن تیارکیاجواتنابڑاتھاکہ اسےجب خلیفہ ہارون الرشیدکےپاس تحفہ دینےکےلیےجایاگیاتوگاڑی میں ڈال کرلےجاناپڑا۔بہرحال کتاب السیرالکبیرہمارےپاس پہنچی ہے،ایک شرح کی صورت میں۔اسکوشرح سےالگ کرکےہم دوبارہ مرتب کرسکتے ہیں لیکن شرح بھی بہت اچھی ہے۔امام سرخسی نےجوپانچویں صدی ہجری کےمشہورحنفی فقیہ گزرےہیں،اس کتاب کی شرح لکھی ہے،امام سرخسی کی تالیف"شرح السیرالکبیر"کےبارےمیں ایک بڑی عبرت ناک بات آپ سےعرض کرتاچلوں۔امام سرخسی ایک بہت ہی ذہین ، حق گواوربےباک فقیہ تھے۔انکے بارےمیں یہ واقعہ مشہورہےکہ ان کوقیدکردیاگیا۔میرےاستادمحترم،مولانامناظراحسن گیلانی مرحوم کی رائےیہ تھی کہ غالباامام سرخسی کوایک فتوی کی بناپرقیدکی سزادی گئي تھی۔ان کےزمانےمیں جوقرب خانی حکمران تھے،انھوں نےبہت سےظالمانہ ٹیکس لگادیےتھے۔امام سرخسی نےفتوی دیاکہ ظالمانہ ٹیکس اداکرنےکی کوئی ضرورت نہیں۔کون ساحکمران ہےجواس گستاخی کومعاف کرسکتاہے؟لیکن وہ بہت بڑے فقیہ تھےاسلیےیہ جرات نہیں ہوئی انھیں سزائےموت دی جائےبلکہ ان کوایک اندھےکنویں میں قیدکردیاگیا۔اس قیدکےچودہ سال کےدوران میں کسی طرح انھیں حکمران یامجلس کےمہتمم سےیہ اجازت مل گئی کہ انکے شاگردکنویں کی منڈیرپرآکربیٹھیں اوراستادکےارشادات کونوٹ کرتےرہیں۔مجلس کےمہتمم کی اس علم دوستی میں بھی ممنون ہوں یقیناآپ بھی ہوں گے۔اس چودہ سال کے عرصےمیں باآوازبلنداملاکرانےکےذریعےسےامام سرخسی نےجوکتابیں لکھی ہیں ان کی فہرست دیکھ۔ کرمیں حیرت زدہ ہوجاتاہوں۔غالباآپ جانتےہوں گےکہ "کتاب الیسبوط"تیس جلدوں میں چھپ چکی ہے۔یہ پوری کتاب کنویں کےاندرسےاملاکرائی گئی۔شرح السیرالکبیرچارجلدوں کی ضخیم کتاب ہےوہ بھی قیدخانےمیں املاکرائی گئی۔اسطرح شرح فلاں،فلاں کوئي درجن بھرکتابیں ہیں جواس قیدکےزمانےکی تالیف ہیں۔خدانےہمیں آزادی نصیب کی ہے۔ہمیں چاہیےکہ اس آزادی سےفائدہ اٹھائیں اورعالم سے سبق لیں جس نےقیدخانےکےاندر،جہاں ایک کتاب انکےپاس نہیں تھی،اپناعلمی کام جاری رکھااورعلم کی وہ خدمت انجام دی کہ بڑے بڑےعالم کی بھی اسکےعشرعشیرپرفخرکریں۔
بہرحال ان تالیفوں میں سےایک شرح السیرالکبیرہے۔یہاں ایک مسئلےکی وضاحت کردوں کہ کیاکوئی شخص کتاب المسبوط اورشرح السیرالکبیرجیسی ضخیم کتابیں بغیرموادسامنےموجودہوئےاملاکراسکتاہے؟میری گزارش یہ ہے کہ استادکےپاس کتابیں نہیں تھیں لیکن شاگردوں کےپاس کوئی رکاوٹ نہیں تھی کہ کتاب لائيں اورپڑھیں،استاداسکی شرح کرے۔چنانچہ کتاب المسبوط جوتیس جلدوں میں لکھی گئی ہےوہ اصل میں کتاب الکافی کی شرح ہے۔سات آٹھ۔ سوصفحوں کااس کامخطوطہ میں نےاستنبول میں دیکھاہے۔اسےغالباشاگردپڑھتےتھے۔شاگردوں کی آوازوہ کنویں کےاندرسن سکتے
تھےاوراندرسےجملہ بہ جملہ اسکی شرح کرتےجاتےاورشاگردنوٹ کرتےجاتےتھے،غرض شرح السیرالکبیراس طرح تالیف ہوئی اورمیری دانست میں آج دنیامیں اس موضوع کی قدیم ترین کتاب ہے۔اس کےعلاوہ اگرہم امام ابراہیم الفزاری کےرسالہ کوکتاب قراردیں تووہ ابھی تک چھپی نہیں ہے۔سرخسی کی شرح السرالکبیرسنہ 1335ھ میں حیدرآباددکن میں شائع ہوئی تھی،لیکن بدقسمتی سےاب تک اسکاکوئی نیامکمل ایڈیشن نہیں آیا۔مصرمیں اسکےنئےایڈیشن کی کوشش شروع ہوئی لیکن آدھےسےبھی کم حصہ اب تک چارجلدوں میں شائع ہواہے،باقی حصہ میرے ان لیکچروں کےوقت تک چھپ نہیں سکا۔اس کتاب کی اہمیت دیکھ۔ کریونیسکوUnescoنےیہ فیصلہ کیاکہ اسکافرانسیی زبان میںترجمہ کیاجائے،یہ کام میرے سپردہوااورمیں نےاسکاترجمہ مکمل کرکےبھیج دیا،لیکن اب تک اسکی اشاعت کی بھی نوبت نہیں آئی۔بہرحال اس ترجمہ کےسلسلےمیں میرےسامنے حیدرآباددکن دائرہ المعارف کاایڈیشن بھی رہااورصلاح الدین منجدکاشائع کردہ نیاایڈیشن بھی میرےسامنےرہا۔میں نےدیکھاوہ دونوں ناکافی ہیں۔مجھےخوش قسمتی سےاستنبول جانےکاسالہاسال تک موقع ملتارہااورتین تین مہینےہرباررہ کروہاں کے کتب خانوں سےاستفادہ کاموقع پاتارہا۔چنانچہ اس کتاب کےترجمہ میں جہاں کہیں مجھےکوئی دشواری نظرآئی میں ان مخطوطوں کی طرف رجوع کرتاجواستنبول میں ہیں۔ایک مخطوطہ مجھےبیروت میں بھی ملااورایک پیرس میں بھی ملاجوسب سےقدیم نسخہ ہےاورمخطوطوں کی مددسےمیں ان مقامات کاجن کاکوئی مطلب سمجھ۔ نہیں آتاصحیح لفظ معلوم کرسکااوراسطرح یہ ترجمہ مکمل ہوا۔
انٹرنیشنل لاکی تاریخ میں،جیسامیں نےابھی آپ سےعرض کیا،یہ کتاب جوامام محمدشیبانی نےلکھی ہے،بڑی اہمیت رکھتی ہے۔انکےہم عصرلوگوں میں ابراہیم الفزاری جوامام حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےشاگردتھے،انھوں نےبھی ایک کتاب لکھی۔یہی نہیں بعض اورممتازاورمشہورفقہاء نےبھی اس موضوع پرکام کیاچنانچہ امام مالک نےبھی ایک کتاب السیرکےنام سے ایک کتاب لکھی۔بدقسمتی سےاب یہ کتاب ناپیدہے۔انکی کتاب المؤطامیں مشکل سےآدھےصفحےکاایک باب ضرورہےلیکن ظاہرہے یہ ہماری ضرورتوں کےلیےکافی نہیں۔اسی طرح ان کےایک اورمعاصر،مشہورمؤرخ واقدی انےبھی "کتاب السیر"کےنام سے ایک کتاب لکھی۔وہ بھی اب نایاب ہےلیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب الدم"میں "سیرالواقدی"کےنام سےایک بہت طویل اقتباس ہے تقریباپچاس ساٹھ۔ بڑی تقطیع کےصفحوں کا۔شایدوہ واقدی کےکتاب کی نقل یااقتباس ہو۔اس موضوع پرابتدائی کتابیں تھیں اورآخری کتابیں بھی یہی ہیں۔یعنی ایک خاص زمانےمیں کسی خاص ضرورت سےمستقل کتابیں لکھی جانےلگیں۔،پھراس کےبعدشایداسکی ضرورت نہ رہی اوریکایک یہ سلسلہ بندہوگیا۔لیکن اس علم سے مسلمانوں کی دلچسپی برقراررہی اس معنی میں فقہ کی جتنی کتابیں ابتداء سےلےکرآج تک لکھی گئیں،
چاہے وہ کسی بھی مذہب اورفرقےکی ہوں،حنفی،شافعی،مالکی،حنبلی،شیعی یافاطمی وغیرہ،ان سارےمؤلفوں کی کتابوں میں"کتاب السیر"کاباب ضرورملتاہےمجھےکچھ۔ مقابلہ کرنےکاموقع ملاتاکہ یہ معلوم کروں کہ شیعہ،سنی اورفاطمی وغیرہ مؤلفوں کےخیالات میں اس موضع سےمتعلق کوئی فرق ہےیانہیں؟حیرت ہےکہ ان میں کوئی نہیں ملتا۔ہم عقائدکی بناپرضرورجھگڑیں گے،سنی شیعوں سے،شعیہ سنیوں سےلیکن ان کی فقہ میں کوئی ایساامتیازنہیں آتاکہ یہ شیعہ قانون ہے،یہ سنی قانون ہے۔سبھی اپنےآپ کواولاقرآن اورثانیاسیرت پرمبنی کرتےہیں۔ظاہرایسےمیں کیافرق ہوگا۔تاریخی واقعات میں چاہےایک کاراوی فلاں اوردوسری کاراوی فلاں دوسراصحابی ہولیکن جس چیزکاذکرہوگااس چیزمیں کوئی فرق پیدانہیں ہوسکتا۔چنانچہ گزشتہ تیرہ سوسال سےجوفقہ کی کتابیں چاردانگ عالم میں لکھی جاتی رہیں اورمختلف مذہبوں کےمؤلفوں کےقلم سےنکلی ہیں،ہم ان میں ہرجگہ"کتاب السیر"کوپاتےہیں۔حتی کہ جوکتاب کتابوں کااقتباس کہی جاتی ہے۔یعنی"فتاوائےعالمگیری"اس میں بھی اس پرایک باب ہےبہت ہی دلچسپ معلومات اس سےملتی ہیں خصوصااس بناپرکہ بعض ایسی کتابیں جن سےعالم گیربادشاہ کےزمانےمیں استفادہ ممکن تھا۔اب نایاب ہوگئی ہیں اورانکےاقتباسات اس میں ملتے ہیں۔ان کتابوں کاجوسلسلہ شروع سےجاری رہاوہ ایک معنی میں شرح اورتمثیل ہوسکتاتھایعنی اصولوں کی حدتک کوئی فرق نہیں ہوتامثالیں زیادہ دی جاتی ہیں،تشریحیں اورتفصیلیں زیادہ کی جاتی ہیں۔کہیں کہیں مجھےایسانظرآیاہے کہ بعض ممالک کی خصوصیات کی وجہ سے بعض چیزوں کاذکرکرتےہیں۔جن کوبعض دیگرممالک کےلوگ بیان نہیں کرتے۔مثال کےطورپرامام سرخسی اپنی کتاب میں جنگ کےدوران میں بیلوں کاذکرکرتےہیں۔مثلایہ لوگ بیلوں پربیٹھ۔ کردشمن سےجنگ کرتےہیں،ظاہرہےکہ یہ کسی ملک میں ہوگاجہاں بیل ہوتےہیں ورنہ اورملکوں میں مثلاعرب میں بیلوں کاذکرنہیں آئے گا۔اسی طرح مالکی مذہب کےمؤرخ اورمؤلف جن کاتعلق شمالی افریقہ سےہےاورانکےتعلقات اسپین وغیرہ سےزیادہ قریبی رہے،اکثرزہریلی چیزوں کاذکرکرتےہیں۔یعنی تیرمیں زہرشامل کیاجاتاتھاتاکہ اگردشمن زخمی ہوتواسکازخم اچھانہ ہوپائےاسکاذکرمجھےاورمقاموں کی کتابوں میں نہیں ملا۔غالبااسکی وجہ یہی ہے کہ اسکارواج دوسرےملکوں میں نہیں تھا۔اسی طرح امام سرخسی کتابوں میں سامان کولینےاورلےجانےکےليےگاڑیوں کاذکرآتاہے۔دوسرے مؤلفوں کی کتابوں میں اسکاذکرنہیں ملتا۔غالباانکے زمانےمیں جانورپرسامان لاددیاجاتاتھا۔گاڑی کےاندرسامان رکھ۔ کراسکوجانورکےذریعےایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانےکارواج ان ملکوں میں نہیں تھا۔غرض بہت سی مخصوص معاشرتی مثالیں ہمیں ان کتابوں میں ملتی ہیں۔
یہ چندتفصیلیں انٹرنیشنل لاکی تاریخ کےسلسلےمیں،میں نےآپ سے بیان کیں۔اب کچھ۔
مختصرااس کےمندرجات کاآپ سے ذکرکروں گاکہ انٹرنیشنل لامیں کیاچیزیں بیان ہوتی ہیں۔آجکل ہمارے زمانے میں" Public Internationol Law اور Private Internationol Law"دومختلف فن اورمختلف علم سمجھےجاتےہیں۔لیکن ہمارےفقہاءکی کتابوں میں یہ امتیازنہیں ملتا۔ایک ہی کتاب میں دونوں علوم کےاحکام بیان کرتےہیں۔کچھ۔ مثالیں دےکرواضح کروں گاکہ ان دونوں علوم میں کیافرق ہے۔Privat Internatinol Lawمیں ایک حکومت کےتعلقات دوسرے سلطنت کی رعیت سےہوتے ہیں اس کے برخلاف Public Internationol Law میں ایک حکومت کے تعلقات دوسری حکومت سے ہوتے ہیں اس کی رعیت سےبراہ راست تعلقات نہیں ہوتے۔یہ بنیادی فرق ہےمیں آپکوکچھ۔ مثالیں دیتاہوں۔مثلاقومیت Nationality کاقانون کہ ایک شخص کوکس شہریت کاحامل سمجھاجائےگاوہ اپنی قومیت کوبدل سکتاہےیانہیں؟اگربدل سکتاہےتوکن احکام وقواعدکےذریعے سےاس کاذکرپرائیویٹ انٹرنیشنل لامیں آئے گا۔پبلک انٹرنیشنل میں اسکاذکرنہیں آئےگااس طرح اورچیزیں ہیں اورہم کہہ سکتےہیں مسلمان مؤلفوں کےتصورکےمطابق اس پرائیویٹ انٹرنیشنل لامیں مسلمانوں کےاندرونی تعلقات کاذکربھی آجاتاہے۔مثلاشیعہ اورسنی فرقوں کےتعلقات پرقانونی نقطہ نظرسےبحث ہوتی ہے۔فرض کیجئےایک حاکم عدالت کےسامنےایک مقدمہ پیش ہوتاہے۔مرنےوالامذہباشیعہ ہےاوراسکی بیوی جووارث بنی ہےوہ سنی ہےکس قانون کےمطابق وارثت تقسیم کی جائےگی؟اس مسئلےکاتعلق مسلمانوں کےپرائیویٹ انٹرنیشنل لاسےہوگااسی طرح فرض کیجئےکہ ایک مسلمان فردرعیت نےکسی اجنبی ملک کے فردرعیت سے کاروباراورتجارت وغیرہ کےسلسلےمیں معاہدہ کیا۔اجنبی ملک کاقانون حکم دیتاہے کہ جوشخص سرکاری طورپربالغ نہ ہویعنی اسکی عمراٹھارہ سال سے کم ہوتواسےمعاہدہ کرنےکاحق نہیں،اسکاکیاہوامعاہدہ لغوسمجھاجائےگا۔اسلامی قانون میں عمرکاتعین نہیں ہےبلکہ جسمانی بلوغ دیکھاجاتاہے جوممکن ہےاٹھارہ سال سے کم عمرمیں ہوجائے۔ایک مرتبہ کسی جھگڑےکی وجہ سے مقدمہ عدالت کےسامنے آتاہےاوروکیل صاحب کہتے ہیں کہ میرےمؤکل نےجب معاہدہ کیاتھا،وہ نابالغ تھا،اس پرکوئی ذمہ داری عائدنہیں ہوتی،لہذامعاہدہ کالعدم قراردیاجائے۔اس قسم کےجومسائل ہوتےہیں ان کاتعلق پرائیوٹ انٹرنیشنل لاسےہوتاہےاوراس کے قواعدمقررہیں کہ مدعی علیہ کےقانون کےمطابق عمل کیاجائےگا،مدعی کےقانون کےلحاظ سےنہیں کیاجائے گاوغیرہ وغیرہ۔اسکےبرخلاف پبلک انٹرنیشنل لاء میں تین چیزوں یعنی قانون امن قانون جنگ اورقانون غیرجانبداری سےبحث ہوتی ہے۔قانون غیرجانبداری کامقصدیہ ہوتاہےکہ جنگ میں ہماری حکومت مثلاغیرجانبدارہےتواسکےتعلقات دونوں فریقین جنگ کےساتھ۔ کس طرح ہوں گےیافریق جنگ کےتعلقات ان ملکوں سےجوجنگ میں شریک نہیں ہیں،کسی
طرح کے ہوں گے؟اس کی تفصیلیں اس باب میں ملتی ہیں۔قانون امن میں زیادہ ترتین چارچیزوں سےبحث ہوتی ہے۔Sovereigntyیعنی حاکمیت یااقتداراعلی سےکہ کس مملکت کوخودمختارسمجھاجائے۔انٹرنیشنل لاکی جدیدکتابوں میں،واقعتاخودمختارسلطنتوں کےعلاوہ باغیوں کوبھی شامل کیاجاتاہے،مگراس وقت جب ان کی بغاوت ترقی کرکےایک حدتک مستحکم ہوجائےاوروہ کسی علاقہ پرخودمختارانہ طورپرحکمرانی کرنےلگیں۔اسی طرح اس میں Sovereigntyکی تفصیلات ہوتی ہیں کہ کن کن چیزوں میں Sovereigntyکی ضرورت ہوتی ہے۔مثلافرض کیجئےکہ برٹش انڈیامیں انگریزی دورمیں ایک علاقہ تھاجس پرانگریزبراہ راست حکومت کرتےتھے۔لیکن کچھ۔ ریاستیں بھی تھیں جیسے بہاولپور،حیدرآباداورکشمیروغیرہ۔آیاان ریاستوں کوانٹرنیشنل لاکی اغراض کےلیےمملکت تسلیم کیاجائےگایانہیں؟اگرکیاجائےتواس کےکیاقواعدہوں گے؟چنانچہ کہاجاتاہےکہ اگروہ ریاست سوفی صدخودمختارنہ ہولیکن اسےایک حدتک خودمختاری حاصل ہومثلااسےاس کی اجازت ہوکہ اپناایک سفیررکھے،چاہےساری دنیاکی مملکتوں میں نہیں،صرف ایک ہی سلطنت میں توبھی ہم اسےانٹرنیشنل لاکاموضوع قراردیں گے۔غرض اسطرح کی تفیصلیں اس باب میں ملتی ہیں۔ایک دوسراباب جائیدادPropertyکےمتعلق ہے۔جس میں زیادہ ترفتوحات سےبحث ہوتی ہے۔ہم ایک دوسری سلطنت کاکچھ۔ علاقہ فتح کرلیں توکیاوہ خودبخودہماری سلطنت کاجزوبن جاتاہےیااسکےلیےکوئی رسمی کاروائی درکارہے؟اگرہےتووہ کیاہوتی ہے؟اسی طرح جائیدادکی فروخت کرنےکےمتعلق بھی اس میں بعض دلچسپ چیزیں ملتی ہیں یعنی کبھی توفتح کےذریعہ سے کسی علاقہ پرقبضہ ہوتاہے،کبھی تبادلہ علاقہ کے ذریعہ سے ایک علاقہ دوسری سلطنت کودیاجاتاہےیاکبھی تحفہ کےطورپر۔اسکی بہت سی مثالیں اسلامی تاریخ ہندمیں ملتی ہیں۔دوحکمرانوں میں ایک علاقہ کےمتعلق جھگڑاہوتاہے،بالآخراس بات پرمصالحت ہوجاتی ہےکہ میری بیٹی کانکاح تمہارےبیٹےسےہوجائےتومیں جہیزمیں وہ علاقہ تمہیں دےدوں گا۔ہارمان کرنہیں دوں گاوغیرہ وغیرہ اسطرح کی بہت سی چیزیں تاریخ میں پیش آتی رہی ہیں۔جائیدادکےمتعلق جوقواعدہیں انکابھی اسمیں ذکریاجاتاہے۔
اس میں ایک اورچیزکاذکرآتاہے۔Jurisdicitionیعنی دائرہ اختیارسماعت کےمتعلق کہ ایک ملک کےقواعددوسرےملک کی رعیت پرچلیں گےیانہیں،اورچلیں گےتوکس حدتک چلیں گےاورکون ساقانون نافذہوگا؟اس سلسلےمیں ایک چھوٹی سی چیزآپ کےسامنےعرض کروں۔امام محمدشیبانی کی۔"السیرالکبیر"میں ایک باب بہت دلچسپ ہےوہ کہتے ہیں کہ اگرغیرملک کےلوگ ہمارے ملک میں آئیں اورہماری عدالت سے رجوع کریں توہماری قاضی ان پرانہی کاقانون نافذکرےگا۔فرض کیجئےدوپاکستان آئے۔ان میں آپس میں جھگڑاہوااوروہ ہماری عدالت سےرجوع کرتے ہیں توہندؤں یاہندوستان کاقانون ان پرنافذ ہوگا،پاکستانی قانون کےمطابق عمل نہیں کیاجائےگا۔اس سلسلےمیں وہ کہتے ہیں کہ
ہمارے فقہاء اورہمارے قاضیوں کوغیرملکوں کےقانون سےواقفیت پیداکرنےکی ضرورت پیش آتی ہےوہ غالباعہدنبوی کی بعض مثالوں سےاستدلال کرتے ہیں۔مثلالکھاہےکہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں چندیہودی حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئےاورایک نوجوان جوڑےکوپکڑکرکہاکہ انھوں نےآپس میں زناکیا،تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےان سے فرمایاکہ توریت میں زناکاکیاحکم ہے؟شروع میں انہوں نےکہاکہ ان کے منہ پرکالک لگائی جائےاورانہیں گدھےپراس طرح سوارکرایاجائےکہ گدھےکےمنہ کی طرف ان کی پیٹھ۔ ہو،گدھےکی دم کی طرف ان کامنہ ہواورانھیں سارےشہرمیں ڈھنڈوراپیٹتےہوئےگھمایاجائے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا،نہیں تم جھوٹ کہتے ہو!پھرکہاکہ توریت کانسخہ لاؤاورجب نسخہ لاياگیاتوفرمایاکہ ایک نومسلم یہودی،حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کی موجودگی میں پڑھو۔یہودی نےپڑھناشروع کیا۔ایک مقام پرانگلی رکھ۔ کرآگےبڑھ گیا۔حضرت عبداللہ بن سلام نےکہایہ انگلی اٹھاکرنیچےعبارت پڑھو۔وہاں لکھاتھاکہ زناکی سزارجم ہوگی۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےان کورجم کرایا۔یہ نظیربتاتی ہے کہ اجنبیوں پراسلامی قانون نافذنہیں کیاجاتا،بلکہ انہی کاقانون نافذکیاجاتاہے۔چنانچہ امام محمدشیبانی نےکئی صفحوں کی طویل بحث میں بتایاکہ اجنبیوں پراجنبیوں کاقانون ہماری عدالت میں کس اندازسےنافذہوتاہے۔اسی طرح انٹرنیشنل لاکےقانون میں امن (Law of Peace)کاتعلق سفارت سےہے۔قدیم زمانےمیں سفیرمستقل نہیں ہوتے تھےبلکہ معینہ غرض کےلیےمعینہ مدت کے لیے بھیجےجاتے اورکام سرانجام دینےکےبعدواپس آجاتےتھےاس سلسلےمیں امیر علی History of Saracensمیں لکھاہے کہ مستقل سفیروں کاآغازیورپ سےدوسوسال پہلےمسلمانوں میں ہوا۔یہ ایک دلچسپ چیزہے۔قانون جنگ میں جن مسائل پربحث ہوتی ہےوہ یہ ہیں کہ انسانوں کےمتعلق قانون جنگ کیاہے؟جائیدادکےمتعلق قانون جنگ کیاہے؟جنگ کے خاتمےپرجومعاہدہ یاصلح نامہ ہوتاہے،اس میں کن عناصروشرائط کاہوناضروری ہے؟وغیرہ وغیرہ مختصریہ کہ انٹرنیشنل برتاؤیعنی ایک مملکت کےدوسری مملک سےباہمی تعلق میں جن اصول وضوابط پرعمل کیاجاتاہےاسکامجموعہ انٹرنیشنل لاکےنام سےموسوم ہوتاہے۔
سوالات وجوابات
برادران کرام! خواہران محترم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کچھ۔ سوالات جوآپکی طرف سےآئےہیں ان کے جوابات دینےکی کوشش کرتاہوں۔
سوال نمبر1:-آپ نےفرمایاکہ بقول سیدامیرعلی مستقل سفیروں کاآغازیورپ سےپہلےمسلمانوں نےتقریبادوسوسال قبل کیا۔یہ مسلمانوں کی کون سی حکومت کےزمانے میں ہوا؟
جواب: اگرآپ میرے ماخذHistroy of Saracensکودیکھیں توآپ کواسکی تفیصل مل جائےگی۔خلاصہ یہ ہے کہ بنوعباس کے آخری دورمیں مسلمانوں کی آزادسلطنتیں قائم ہوگئی تھیں۔اس سلسلےمیں امیرعلی نےلکھاکہ خلیفہ کانمائندہ ان عملاآزاداسلامی مملکتوں میں ہوتاتھااوران عملاآزادمملکتوں کاایک نمائندہ خلیفہ کےدربارمں مستقلارہتاتھا۔یہ نہیں کہ کسی متعین کام کےلیےآیااورچلاگیاہو۔
سوال نمبر2:- مکی دورمیں مسلمان ریاست مکہ کی اطاعت نہیں کرتےتھےاس کےلیےکیاتاریخی دلیل ہےکہ مسلمان اہل مکہ کےاس دستورکی اطاعت نہیں کرتےتھےجواسلامی تعلیمات کےبھی خلاف نہیں تھا۔کیایہ اطاعت اولی الامرکےخلاف نہیں ہے؟کیااسےغیرمسلم،بغاوت کانام نہیں دےسکتے؟
جواب: میں نےبیان کیاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والےاہل مکہ اپنےہرمسئلےکےلیےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتےتھے۔چاہےانکاآپس کاجھگڑاہویاکسی چیزپربغیرجھگڑےکےعمل کرنےکاسوال ہو،شہری مملکت مکہ میں دوقسم کے وزیرعدلیہ پائےجاتےتھے،ایک دیوانی مقدمات کےلیےاورایک فوجداری کےلیے۔لیکن مسلمان ان افسروں کےپاس نہیں جاتےتھے۔غرض میرامنشاءیہ ہےکہ اس ابتدائی زمانےمیں مسلمان اپنی ہرچیزکےلیےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتےتھےاسکومیں نےمملکت درمملکت کانام دیا۔جب مسلمان اہل مکہ کی مملکت کوقبول ہی نہیں کرتےتھےتواس کےاحکام کی اطاعت کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔اولی الامراس وقت ہوں گےاسی لیےوہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم اورمسلمانوں کواذیتیں بھی دیتےتھےبعض کوانھوں نےقتل بھی کیااوریہ داستان تاریخ عالم کےالمیوں میں سےایک ہےکہ کسطرح اہل مکہ ہراچھی چیزکودیکھتےہوئےبھی محض اپنی ہٹ دھرمی کےباعث اس کوقبول کرنےسےسالہاسال تک انکارکرتےرہے۔لیکن الحمداللہ اس المیہ کااختتام اچھاہوایعنی فتح مکہ کےدن ایک چھوٹاساواقعہ پیش آیاجس کی وجہ سےسارےاہل مکہ اپنی دشمنی کوبھول کرخلوص دل سے اسلام قبول کرلیتے ہیں۔وہ واقعہ یہ تھاکہ فتح مکہ کےدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسارےشہرمیں ڈھنڈوراپٹوایاکہ شایدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سےکچھ۔ کہناچاہتےہیں،ہرشخص آئےچنانچہ کعبہ کی مسجدکےاحاطےمیں سب لوگ آئےاورسوچ رہےتھےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کوئی سزاسنائیں گے۔غرض پریشانی کےعالم میں مکہ کہ مفتوح لوگ وہاں آئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کوحکم دیاکہ وہ کعبہ کی چھت پرچڑھ کراذان دیں۔ایک غیرمسلم نےجب کعبہ کی چھت پرسےحضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کواذان دیتے ہوئے سناتواپنےپاس بیٹھےہوئےایک دوسرےمشرک ساتھ۔ کاناپھوسی کی کہ خداکاشکرہے،میراباپ آج زندہ نہیں ہے ورنہ برداشت نہ کرسکتاکہ خداکےگھرپرایک کالاگدھاچڑھ کرہنگے۔اس کےبعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےنمازپڑھائی۔نمازکےبعدحاضرین سےمخاطب ہوکرکچھ۔ اشارۃ انھیں بتایاکہ گزشتہ بیس سال سےتم میرےساتھ۔ جوسلوک کرتےرہےہو،اب اس سلسلےمیں مجھ۔ سےکیاتوقع رکھتےہو؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجواب تاریخی نقطہ نظرسےبھی قابل ذکرہے۔نفسیاتی نقطہ نظرسےبھی،اوراس کے نتائج بھی حیرت انگیزہیں۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتےتویہ حکم دیتےکہ ان سارےاہل مکہ کوقتل کرڈالو۔آپ کےپاس فوج تھی،قوت تھی اورشہرپرقبضہ ہوچکاتھا۔اورشایدوہ اس کےمستحق بھی تھےکہ انھیں سزائےموت دی جائے۔کم از کم یہ حکم دےسکتے تھےکہ ان کوغلام بنالو۔اس کےوہ مستحق بھی تھےاوراس کاامکان بھی تھا۔مگرخداکےآخری پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نےان میں سےکچھ۔ بھی نہیں کیاآپ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے منہ سےہی جملہ نکلا"آج کے دن تم سے کوئی بازپرس نہیں"کوئی محاسبہ نہیں،جاؤتم سب کورہاکیاجاتاہے۔۔۔"لاتثریب علیکم الیوم اذھبوا انتم الطقاءاس پروہی شخص جوابھی تھوڑی دیرپہلےحضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ پرطعن کررہاتھا،بے اختیار یکایک اٹھااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنےحاضرہوکرکہااےمحمدصلی اللہ علیہ وسلم میں عتاب بن اسیدہوں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامشہوردشمن:اشھدان لاالہ الااللہ محمدارسول اللہ اس اعلان معافی کانفسیاتی اثریہ ہواکہ عتاب بن اسیدہی نہیں،سارے شہرمکہ نےراتوں رات خوشدلی کےساتھ۔ اسلام قبول کیااورپھرجب دوسال بعدصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی،اوربہت سےقبیلےمرتدبھی ہوئے،توجن لوگوں نےاسلام پربرقراررہ کر،بغیرہچکچائے،اسلام کی خدمت کےلیےخودکوپیش کیا،ان میں سب سےآگےاسی شہرمکہ کےلوگ تھے،جسےمسلمانوں نےبزور،اورقوت کےذریعےسےفتح کیاتھا۔میں اس قصہ کی تکمیل کرتاہوں کہ جب عتاب ابن اسیدنےکلمہ پڑھاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکیاجواب تھا؟جواب یہ تھاکہ میں تمہیں شہرمکہ کاگورنرمقررکرتاہوں۔ایک سیکنڈپہلےکےدشمن کواسی مفتوحہ شہرکامطلق العنان حکمران بناکر،مدینہ واپس جاتےہیں اورمکہ میں اپناایک سپاہی بھی Garrisonکےطورپرنہیں چھوڑتےاوراس پرآپ کوپچھتانابھی نہیں پڑا۔یہ چندباتیں ہیں جوہمیں اس سلسلےمیں پیش نظررکھنی چاہیں۔اسلام دیگرقسم کی دنیاوی اورمادی تحریکوں کی طرح نہیں تھا۔وہ ربانی عنایت تھی جوانسان تک پہنچائی گئی اوراس پرعمل کرنےوالاوہ کردارتھاجس نےتاریخ عالم میں اپنالاثانی نقش چھوڑاہے۔آج بھی جولوگ غیرجانبداری سےمطالعہ کرسکتےہیں وہ اس پرسردھننےپرمجبورہیں۔ان حالات میں میں نہیں سمجھتاکہ مسلمانان مکہ کواہل مکہ کی اطاعت کرنےکی ضرورت تھی؟کیونکہ وہ ایک نئی آئیڈیالوجی پیش کررہےتھےجس میں اہل مکہ کےلیےبھلائی تھی،بشرطیکہ وہ اسےقبول کرتے۔
سوال نمبر3:انٹرنیشنل لاکےتاریخی ارتقاء کےسلسلےمیں آپ نےیونانی اوررومی سلطنتوں کےقوانین کاذکرکیا۔اس سلسلےمیں حضرت سلیمان علیہ السلام کاقوم سباکےساتھ۔ سفارت کاذکرقرآن پاک میں واضح
طورپرملتاہے۔اس ضمن مین اسکاکیامقام ہے؟
جواب:- یونانیوں اوررومیوں کےعلاوہ اوربھی قوموں کےذکرکی ضرورت ہے،ہندوؤں یہودیوں بلکہ ریڈانڈین لوگوں کابھی ذکرآسکتاہے۔ہمارےپاس بہت سی معلومات ہیں۔لیکن وقت کی کمی کی وجہ سےمیں ان کاذکرنہیں کرسکا۔یہودی قانون کےسلسلےمیں حضرت سلیمان علیہ السلام بھی آئيں گے۔یہودی قانون صرف وہ نہیں ہےجوحضرت موسی علیہ ا لسلام کےزمانےمیں تھابلکہ ان کےبعدکی صدیوں میں اس میں تبدیلیاں اوراضافےبھی ہوتےرہے۔لیکن یہودی قانون کاکم از کم موجودتوریت کی اساس پرتاریخ اسلام کےدرخشاں ابواب سےمقابہ نہیں کیاجاسکتا۔کتاب تثنیہ کوآپ پڑھیں،اس میں انکےبیان کےمطابق خداحضرت موسی علیہ السلام کوحکم دیتاہےکہ تم کسی شہرکےقریب پہنچو،اس پرقبضہ کرنےکےلیے،توپہلےوہاں کےلوگوں کےسامنےامن پیش کرو،اگروہ اس کوقبول کرکےاپنےدروازےکھول دیں توشہرمیں فاتحانہ داخل ہوجاؤاورمفتوحہ کےسارےلوگ تمہارےغلام اورتمہارےخراج گزاربنیں گےاورتمہارےخدمت گاررہیں گے۔اس کےبرخلاف اگروہ مقاومت کریں اورتم بعدمیں اس شہرکوتلوارکےزورسےفتح کرلوتووہاں کےکسی متنفس کوزندہ نہ رکھو،مرد،عورت،بچے،بوڑھے،گدھے،اونٹ جانوروغیرہ ان سب کوتہ تیغ کرکےختم کردو۔یہ موسی علیہ السلام کی طرف منسوب قانون ہے۔اس کےبعدحضرت یوشع علیہ السلام کی کتاب توریت ہمیں ملتی ہے،وہاں بھی اسی Genocide کےقانون پرعمل کیاجاتاہے۔ایسی باتیں ملتی ہیں کہ یہودی فلاں شہرمیں گئےاورانھوں نےوہاں کی عورتوں،بوڑھوں،دودھ پیتےبچوں اورجانوروں وغیرہ سب کوقتل کرڈالا۔اس کےبعدحضرت اشموئیل علیہ السلام کی کتاب دیکھیے۔اس میں بھی ہمیں یہی چیزیں ملتی ہیں۔یہ تھاوہ قانون جویہودیوں کےدین نےسکھایا۔شایداسی کااثرہےکہ آج بھی ہم اسرائیل میں وہ بات نہیں پاتے جوایک متمدن قوم میں ہونی چاہیے۔حضرت سلیمان علیہ السلام اورحضرت داؤدعلیہ السلام یقیناپیغمبرتھے۔میں یہ بھی نہیں جانتاکہ موسی علیہ السلام،یوشمع علیہ السلام اوراشموئیل علیہ السلام کی طرف موجودہ توریت میں جوچیزیں منسوب ہیں وہ صحیح بھی ہیں یانہیں،یقینایہودی تاریخ میں بھی انٹرنیشنل لاملتاہے،حالت جنگ میں بھی اورحالت امن بھی۔ظاہرہےکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کاجوتعلق ملکہ سبابلقیس سےرہاوہ اس کی ایک مثال ہے۔وہ حالت امن کےروابط کےسلسلےمیں ورنہ جنگ دونوں میں نہیں ہوئی تھی۔
سوال نمبر4:- آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نےفتنہ ارتدادکےخلاف جہادکےبارےمیں پہلےاجماع ہونےکی رائےظاہرفرمائی تھی۔بخاری شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبیان میں مذکورہےکہ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نےفرمایاکہ جویہ کہےگاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئےہیں اسکی گردن اڑادوں گا۔اس پرحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نےخطبہ دیااورکچھ۔ قرآنی آیات تلاوت کیں۔ اس پرحضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ اوردوسرے تمام صحابہ خاموش ہوگئے۔کیااس واقعہ کوصحابہ کاپہلااجماع قرارنہیں دیاجاسکتاجوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرصحابہ کےمابین ہوا؟
جواب:- میں عرض کروں گاکہ اجماع اسی وقت ہوتاہےجب قرآن وحدیث ساکت ہوں اورجب قرآن کی آیت پیش کی جائےاوراس پرسب سرتسلیم خم کریں تومیں اسےفنی نقطہ نظرسے"اجماع"نہیں کہوں گا۔
سوال نمبر5:- پاکستان میں کچھ۔ لوگوں کاخیال ہے کہ اپنی سوسائٹی کواسلامی رنگ دینےکےلیےاسلامی قانون ضروری ہے۔دوسرےلوگ کہتےہیں کہ جب تک انفرادی اصلاح نہ ہوجائے،اس وقت تک اسلامی قوانین نہ پورےطورپرنافذہوسکتےہیں اورنہ معاشرےکواسلامی رنگ دیاجاسکتاہے۔آپ کی رائےمیں کونساخیال درست ہے؟
جواب:اگرچہ یہ سوال آج کی تقریرسےمتعلق نہیں،بہرحال میں یہ عرض کروں گاکہ اگرہم اسلامی معاشرےکی اصلاح کےبعداسلامی قانون نافذکرناچاہیں تواسکےانتظارمیں قیامت آجائےگی۔اس لیےبیک وقت اصلاح کی کوشش بھی جاری رکھنی چاہیےاوراسلامی قانون بھی نافذکرناچاہیے۔کیونکہ اسلامی قانون بہت سےلوگوں کومجبورکرےگاکہ وہ سزاکےخوف سےنیک بنیں۔مثال کےطورپرچورکےہاتھ۔ کاٹنے کی سزاپربہت سےلوگ اعتراض کرتےہیں اوراسےوحشیانہ قراردیتےہیں۔میں انکی خدمت میں عرض کروں گاکہ اگرہاتھ۔ کاٹنےکی سزانافذکی جائےتومملک کےسارےباشندےبےہاتھ۔ والےنہیں ہوجائيں گے۔ایک یادوآدمیوں کاہاتھ۔ کٹتاہےپھراس سے سب لوگوں کوعبرت حاصل ہوگی اورکسی کوچوری کی جرات نہیں رہےگی۔یہ چیزبہترہےکہ ایک دوآدمیوں کےہاتھ۔ کٹیں پھرسارےلوگ اپنےگھرمیں اطمینان سےسوسکیں۔نہ چوری کاڈرنہ ڈاکےکاخوف،یاوہ صورت جومیں اپنی آنکھوں سےپیرس میں دیکھی ہےکہ چورکواپنےگھرسےبھی زیادہ آسائش سےجیل خانوں میں رکھاجاتاہے۔اس وجہ سےبعض کام میں چوروں کوترغیب مقصودہوتی ہےکہ بجائےمحنت کرکےکمانےکے،جس سےذراتکلیف ہوتی ہے،سرکاری مہمان نوازی کالطف اٹھائیں۔بہرحال عرض کرنایہ ہےکہ میری رائےمیں نفاذقانون اسلامی اورتربیت اسلامی دونوں کاموں کوبیک وقت ہوناچاہیے۔جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےمیں ہواتھا۔اس کےبرخلاف عمل کیاجائےتوہمیں قیامت تک انتظارہی کرناپڑےگا۔
سوال نمبر6:- اسلام میں دوسری ریاست پرجارحیت کرناجائزنہیں لیکن مدینہ کی ریاست جب مضبوط ہوگئی تومکہ پرحملہ کرنےمیں پہل کی گئی ۔ اسکی کیاوجہ تھی؟
جواب:- مکہ پرحملہ کرنےمیں پہل مسلمانوں نےکی تھی،اسکاثبوت آپ کوپیش کرناچاہیےغالباآپ کویادہوگاکہ حدیبیہ مقام پر6ھ میں مسلمانوں اوراہل مکہ کےدرمیان صلح ہوئی تھی،اس میں شرط یہ تھی
ایک کتاب مرتب کی گئی جوحیدرآباددکن میں "مجلس دائرۃ المعارف"کےاہتمام سےشائع ہوگئی ہے۔اس کتاب سےامام ابوحنیفہ،امام اوزاعی ،امام ابویوسف اورآخرمیں خودامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کےنقطہ نظراوران کےاعتراضات وجوابات کااندازہ ہوتاہے۔اسطرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ تصنیف کی بدولت ان نایاب کتابوں کاایک بڑانادرذخیرہ ہمارے پاس محفوظ ہوگیاہےاگرچہ وہ کتابیں کامل طورپرہم تک نہیں پہنچیں۔اس سلسلےمیں ابن حجرنےاپنی کتاب"تاسیس التوالیف۔ ۔ ۔ ۔"میں جوامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح عمری ہے،ایک جگہ لکھاہےکہ "سیر"پرسب سےپہلےامام ابوحنیفہ نےایک کتاب لکھی،جسکاجواب امام اوزاعی نےدیااوراسکاجواب الجواب امام ابویوسف نےلکھا،پھران پرتبصرہ امام شافعی نےاپنی "کتاب الام"میں کیاہے۔انٹرنیشنل لاسےمتعلق تالفیوں کےآغازکی یہ سرگزشت تھی۔
انٹرنیشنل لاء کاذکرسب سےزیدبن علی کی "کتاب المجموع"میں آیاہے،لیکن اس کتاب کاصرف ایک باب اس موضوع سےمتعلق ہے۔جیساکہ ابن حجرنےبیان کیا۔اس موضوع پرایک مستقل کتاب سب سےپہلے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نےتصنیف کی اوروہ یقیناوہ اپنےمعمول کےمطابق اپنےشاگردوں کواس موضوع پردرس بھی دیتےرہےہوں گے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےدرس کاطریقہ یہ معلوم ہوتاہےکہ پہلےوہ اپنےخیالات بیان کرتے،پھراپنےشاگردوں سےبحث بھی کرتےاورپوچھتےکہ تمہاری کیارائےہے؟اس بحث کی وجہ سےمختلف پہلوواضح ترہوجاتےتھے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ وبرکاتہ کی کتاب ہم تک نہیں پہنچی ہےلیکن میرااندازہ ہےکہ وہ بیس پچیس صفحوں کارسالہ ہوگا۔لیکن انکےشاگردوں میں سےامام محمدشیبائی رحمۃ اللہ علیہ،امام زفراورامام ابراہیم الفزاری کی کتابیں سینکڑوں صفحوں پرمشتمل ہیں۔میرا خیال ہے،ممکن ہےصحیح نہ ہو،کہ جب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب کادرس دیتے رہےتواس درس کی یادداشتیں کتابی صورت میں مدون ہوئیں جوبعدمیں شاگردوں کی طرف منسوب ہوگئے۔ان میں امام الفزاری کی کتاب ایک مخطوطےکی صورت میں مراکش میں موجودہے۔میں نےایک مرتبہ اس کوپڑھتےکی کوشش کی،لیکن چونکہ یہ کوفی خط میں ہےاسلیےبڑی مشکل سےصرف چندصفحےپڑھےاسکےبعداسےالتواء میں ڈال دیا۔اب تک اسکےفوٹومیرےپاس پڑےہوئےہیں۔اسکی اشاعت کی نوبت ہی نہیں آئی۔
امام محمدشیبائی رحمۃ اللہ علیہ نےجوامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےشاگردوں میں سےتھے،اس موضوع پردوکتابیں لکھیں،کتاب السیرالصغیراورکتاب السیرالکبیر،کہاجاتاہےکہ پہلےانہوں نےالسیرالصغیرلکھی توامام اوزاعی نےطنزاکہاکہ عراق والوں کواس موضوع پرلکھنےکی جرات کیسےہوئی جب کہ وہ علم حدیث سےزیادہ واقفیت نہیںرکھتے۔اس پرامام محمدشیبانی نےکتاب السیرکےنام سےایک جامع ترکتاب لکھی اوراسکاایک
ایڈیشن تیارکیاجواتنابڑاتھاکہ اسےجب خلیفہ ہارون الرشیدکےپاس تحفہ دینےکےلیےجایاگیاتوگاڑی میں ڈال کرلےجاناپڑا۔بہرحال کتاب السیرالکبیرہمارےپاس پہنچی ہے،ایک شرح کی صورت میں۔اسکوشرح سےالگ کرکےہم دوبارہ مرتب کرسکتے ہیں لیکن شرح بھی بہت اچھی ہے۔امام سرخسی نےجوپانچویں صدی ہجری کےمشہورحنفی فقیہ گزرےہیں،اس کتاب کی شرح لکھی ہے،امام سرخسی کی تالیف"شرح السیرالکبیر"کےبارےمیں ایک بڑی عبرت ناک بات آپ سےعرض کرتاچلوں۔امام سرخسی ایک بہت ہی ذہین ، حق گواوربےباک فقیہ تھے۔انکے بارےمیں یہ واقعہ مشہورہےکہ ان کوقیدکردیاگیا۔میرےاستادمحترم،مولانامناظراحسن گیلانی مرحوم کی رائےیہ تھی کہ غالباامام سرخسی کوایک فتوی کی بناپرقیدکی سزادی گئي تھی۔ان کےزمانےمیں جوقرب خانی حکمران تھے،انھوں نےبہت سےظالمانہ ٹیکس لگادیےتھے۔امام سرخسی نےفتوی دیاکہ ظالمانہ ٹیکس اداکرنےکی کوئی ضرورت نہیں۔کون ساحکمران ہےجواس گستاخی کومعاف کرسکتاہے؟لیکن وہ بہت بڑے فقیہ تھےاسلیےیہ جرات نہیں ہوئی انھیں سزائےموت دی جائےبلکہ ان کوایک اندھےکنویں میں قیدکردیاگیا۔اس قیدکےچودہ سال کےدوران میں کسی طرح انھیں حکمران یامجلس کےمہتمم سےیہ اجازت مل گئی کہ انکے شاگردکنویں کی منڈیرپرآکربیٹھیں اوراستادکےارشادات کونوٹ کرتےرہیں۔مجلس کےمہتمم کی اس علم دوستی میں بھی ممنون ہوں یقیناآپ بھی ہوں گے۔اس چودہ سال کے عرصےمیں باآوازبلنداملاکرانےکےذریعےسےامام سرخسی نےجوکتابیں لکھی ہیں ان کی فہرست دیکھ۔ کرمیں حیرت زدہ ہوجاتاہوں۔غالباآپ جانتےہوں گےکہ "کتاب الیسبوط"تیس جلدوں میں چھپ چکی ہے۔یہ پوری کتاب کنویں کےاندرسےاملاکرائی گئی۔شرح السیرالکبیرچارجلدوں کی ضخیم کتاب ہےوہ بھی قیدخانےمیں املاکرائی گئی۔اسطرح شرح فلاں،فلاں کوئي درجن بھرکتابیں ہیں جواس قیدکےزمانےکی تالیف ہیں۔خدانےہمیں آزادی نصیب کی ہے۔ہمیں چاہیےکہ اس آزادی سےفائدہ اٹھائیں اورعالم سے سبق لیں جس نےقیدخانےکےاندر،جہاں ایک کتاب انکےپاس نہیں تھی،اپناعلمی کام جاری رکھااورعلم کی وہ خدمت انجام دی کہ بڑے بڑےعالم کی بھی اسکےعشرعشیرپرفخرکریں۔
بہرحال ان تالیفوں میں سےایک شرح السیرالکبیرہے۔یہاں ایک مسئلےکی وضاحت کردوں کہ کیاکوئی شخص کتاب المسبوط اورشرح السیرالکبیرجیسی ضخیم کتابیں بغیرموادسامنےموجودہوئےاملاکراسکتاہے؟میری گزارش یہ ہے کہ استادکےپاس کتابیں نہیں تھیں لیکن شاگردوں کےپاس کوئی رکاوٹ نہیں تھی کہ کتاب لائيں اورپڑھیں،استاداسکی شرح کرے۔چنانچہ کتاب المسبوط جوتیس جلدوں میں لکھی گئی ہےوہ اصل میں کتاب الکافی کی شرح ہے۔سات آٹھ۔ سوصفحوں کااس کامخطوطہ میں نےاستنبول میں دیکھاہے۔اسےغالباشاگردپڑھتےتھے۔شاگردوں کی آوازوہ کنویں کےاندرسن سکتے
تھےاوراندرسےجملہ بہ جملہ اسکی شرح کرتےجاتےاورشاگردنوٹ کرتےجاتےتھے،غرض شرح السیرالکبیراس طرح تالیف ہوئی اورمیری دانست میں آج دنیامیں اس موضوع کی قدیم ترین کتاب ہے۔اس کےعلاوہ اگرہم امام ابراہیم الفزاری کےرسالہ کوکتاب قراردیں تووہ ابھی تک چھپی نہیں ہے۔سرخسی کی شرح السرالکبیرسنہ 1335ھ میں حیدرآباددکن میں شائع ہوئی تھی،لیکن بدقسمتی سےاب تک اسکاکوئی نیامکمل ایڈیشن نہیں آیا۔مصرمیں اسکےنئےایڈیشن کی کوشش شروع ہوئی لیکن آدھےسےبھی کم حصہ اب تک چارجلدوں میں شائع ہواہے،باقی حصہ میرے ان لیکچروں کےوقت تک چھپ نہیں سکا۔اس کتاب کی اہمیت دیکھ۔ کریونیسکوUnescoنےیہ فیصلہ کیاکہ اسکافرانسیی زبان میںترجمہ کیاجائے،یہ کام میرے سپردہوااورمیں نےاسکاترجمہ مکمل کرکےبھیج دیا،لیکن اب تک اسکی اشاعت کی بھی نوبت نہیں آئی۔بہرحال اس ترجمہ کےسلسلےمیں میرےسامنے حیدرآباددکن دائرہ المعارف کاایڈیشن بھی رہااورصلاح الدین منجدکاشائع کردہ نیاایڈیشن بھی میرےسامنےرہا۔میں نےدیکھاوہ دونوں ناکافی ہیں۔مجھےخوش قسمتی سےاستنبول جانےکاسالہاسال تک موقع ملتارہااورتین تین مہینےہرباررہ کروہاں کے کتب خانوں سےاستفادہ کاموقع پاتارہا۔چنانچہ اس کتاب کےترجمہ میں جہاں کہیں مجھےکوئی دشواری نظرآئی میں ان مخطوطوں کی طرف رجوع کرتاجواستنبول میں ہیں۔ایک مخطوطہ مجھےبیروت میں بھی ملااورایک پیرس میں بھی ملاجوسب سےقدیم نسخہ ہےاورمخطوطوں کی مددسےمیں ان مقامات کاجن کاکوئی مطلب سمجھ۔ نہیں آتاصحیح لفظ معلوم کرسکااوراسطرح یہ ترجمہ مکمل ہوا۔
انٹرنیشنل لاکی تاریخ میں،جیسامیں نےابھی آپ سےعرض کیا،یہ کتاب جوامام محمدشیبانی نےلکھی ہے،بڑی اہمیت رکھتی ہے۔انکےہم عصرلوگوں میں ابراہیم الفزاری جوامام حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کےشاگردتھے،انھوں نےبھی ایک کتاب لکھی۔یہی نہیں بعض اورممتازاورمشہورفقہاء نےبھی اس موضوع پرکام کیاچنانچہ امام مالک نےبھی ایک کتاب السیرکےنام سے ایک کتاب لکھی۔بدقسمتی سےاب یہ کتاب ناپیدہے۔انکی کتاب المؤطامیں مشکل سےآدھےصفحےکاایک باب ضرورہےلیکن ظاہرہے یہ ہماری ضرورتوں کےلیےکافی نہیں۔اسی طرح ان کےایک اورمعاصر،مشہورمؤرخ واقدی انےبھی "کتاب السیر"کےنام سے ایک کتاب لکھی۔وہ بھی اب نایاب ہےلیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی "کتاب الدم"میں "سیرالواقدی"کےنام سےایک بہت طویل اقتباس ہے تقریباپچاس ساٹھ۔ بڑی تقطیع کےصفحوں کا۔شایدوہ واقدی کےکتاب کی نقل یااقتباس ہو۔اس موضوع پرابتدائی کتابیں تھیں اورآخری کتابیں بھی یہی ہیں۔یعنی ایک خاص زمانےمیں کسی خاص ضرورت سےمستقل کتابیں لکھی جانےلگیں۔،پھراس کےبعدشایداسکی ضرورت نہ رہی اوریکایک یہ سلسلہ بندہوگیا۔لیکن اس علم سے مسلمانوں کی دلچسپی برقراررہی اس معنی میں فقہ کی جتنی کتابیں ابتداء سےلےکرآج تک لکھی گئیں،
چاہے وہ کسی بھی مذہب اورفرقےکی ہوں،حنفی،شافعی،مالکی،حنبلی،شیعی یافاطمی وغیرہ،ان سارےمؤلفوں کی کتابوں میں"کتاب السیر"کاباب ضرورملتاہےمجھےکچھ۔ مقابلہ کرنےکاموقع ملاتاکہ یہ معلوم کروں کہ شیعہ،سنی اورفاطمی وغیرہ مؤلفوں کےخیالات میں اس موضع سےمتعلق کوئی فرق ہےیانہیں؟حیرت ہےکہ ان میں کوئی نہیں ملتا۔ہم عقائدکی بناپرضرورجھگڑیں گے،سنی شیعوں سے،شعیہ سنیوں سےلیکن ان کی فقہ میں کوئی ایساامتیازنہیں آتاکہ یہ شیعہ قانون ہے،یہ سنی قانون ہے۔سبھی اپنےآپ کواولاقرآن اورثانیاسیرت پرمبنی کرتےہیں۔ظاہرایسےمیں کیافرق ہوگا۔تاریخی واقعات میں چاہےایک کاراوی فلاں اوردوسری کاراوی فلاں دوسراصحابی ہولیکن جس چیزکاذکرہوگااس چیزمیں کوئی فرق پیدانہیں ہوسکتا۔چنانچہ گزشتہ تیرہ سوسال سےجوفقہ کی کتابیں چاردانگ عالم میں لکھی جاتی رہیں اورمختلف مذہبوں کےمؤلفوں کےقلم سےنکلی ہیں،ہم ان میں ہرجگہ"کتاب السیر"کوپاتےہیں۔حتی کہ جوکتاب کتابوں کااقتباس کہی جاتی ہے۔یعنی"فتاوائےعالمگیری"اس میں بھی اس پرایک باب ہےبہت ہی دلچسپ معلومات اس سےملتی ہیں خصوصااس بناپرکہ بعض ایسی کتابیں جن سےعالم گیربادشاہ کےزمانےمیں استفادہ ممکن تھا۔اب نایاب ہوگئی ہیں اورانکےاقتباسات اس میں ملتے ہیں۔ان کتابوں کاجوسلسلہ شروع سےجاری رہاوہ ایک معنی میں شرح اورتمثیل ہوسکتاتھایعنی اصولوں کی حدتک کوئی فرق نہیں ہوتامثالیں زیادہ دی جاتی ہیں،تشریحیں اورتفصیلیں زیادہ کی جاتی ہیں۔کہیں کہیں مجھےایسانظرآیاہے کہ بعض ممالک کی خصوصیات کی وجہ سے بعض چیزوں کاذکرکرتےہیں۔جن کوبعض دیگرممالک کےلوگ بیان نہیں کرتے۔مثال کےطورپرامام سرخسی اپنی کتاب میں جنگ کےدوران میں بیلوں کاذکرکرتےہیں۔مثلایہ لوگ بیلوں پربیٹھ۔ کردشمن سےجنگ کرتےہیں،ظاہرہےکہ یہ کسی ملک میں ہوگاجہاں بیل ہوتےہیں ورنہ اورملکوں میں مثلاعرب میں بیلوں کاذکرنہیں آئے گا۔اسی طرح مالکی مذہب کےمؤرخ اورمؤلف جن کاتعلق شمالی افریقہ سےہےاورانکےتعلقات اسپین وغیرہ سےزیادہ قریبی رہے،اکثرزہریلی چیزوں کاذکرکرتےہیں۔یعنی تیرمیں زہرشامل کیاجاتاتھاتاکہ اگردشمن زخمی ہوتواسکازخم اچھانہ ہوپائےاسکاذکرمجھےاورمقاموں کی کتابوں میں نہیں ملا۔غالبااسکی وجہ یہی ہے کہ اسکارواج دوسرےملکوں میں نہیں تھا۔اسی طرح امام سرخسی کتابوں میں سامان کولینےاورلےجانےکےليےگاڑیوں کاذکرآتاہے۔دوسرے مؤلفوں کی کتابوں میں اسکاذکرنہیں ملتا۔غالباانکے زمانےمیں جانورپرسامان لاددیاجاتاتھا۔گاڑی کےاندرسامان رکھ۔ کراسکوجانورکےذریعےایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچانےکارواج ان ملکوں میں نہیں تھا۔غرض بہت سی مخصوص معاشرتی مثالیں ہمیں ان کتابوں میں ملتی ہیں۔
یہ چندتفصیلیں انٹرنیشنل لاکی تاریخ کےسلسلےمیں،میں نےآپ سے بیان کیں۔اب کچھ۔
مختصرااس کےمندرجات کاآپ سے ذکرکروں گاکہ انٹرنیشنل لامیں کیاچیزیں بیان ہوتی ہیں۔آجکل ہمارے زمانے میں" Public Internationol Law اور Private Internationol Law"دومختلف فن اورمختلف علم سمجھےجاتےہیں۔لیکن ہمارےفقہاءکی کتابوں میں یہ امتیازنہیں ملتا۔ایک ہی کتاب میں دونوں علوم کےاحکام بیان کرتےہیں۔کچھ۔ مثالیں دےکرواضح کروں گاکہ ان دونوں علوم میں کیافرق ہے۔Privat Internatinol Lawمیں ایک حکومت کےتعلقات دوسرے سلطنت کی رعیت سےہوتے ہیں اس کے برخلاف Public Internationol Law میں ایک حکومت کے تعلقات دوسری حکومت سے ہوتے ہیں اس کی رعیت سےبراہ راست تعلقات نہیں ہوتے۔یہ بنیادی فرق ہےمیں آپکوکچھ۔ مثالیں دیتاہوں۔مثلاقومیت Nationality کاقانون کہ ایک شخص کوکس شہریت کاحامل سمجھاجائےگاوہ اپنی قومیت کوبدل سکتاہےیانہیں؟اگربدل سکتاہےتوکن احکام وقواعدکےذریعے سےاس کاذکرپرائیویٹ انٹرنیشنل لامیں آئے گا۔پبلک انٹرنیشنل میں اسکاذکرنہیں آئےگااس طرح اورچیزیں ہیں اورہم کہہ سکتےہیں مسلمان مؤلفوں کےتصورکےمطابق اس پرائیویٹ انٹرنیشنل لامیں مسلمانوں کےاندرونی تعلقات کاذکربھی آجاتاہے۔مثلاشیعہ اورسنی فرقوں کےتعلقات پرقانونی نقطہ نظرسےبحث ہوتی ہے۔فرض کیجئےایک حاکم عدالت کےسامنےایک مقدمہ پیش ہوتاہے۔مرنےوالامذہباشیعہ ہےاوراسکی بیوی جووارث بنی ہےوہ سنی ہےکس قانون کےمطابق وارثت تقسیم کی جائےگی؟اس مسئلےکاتعلق مسلمانوں کےپرائیویٹ انٹرنیشنل لاسےہوگااسی طرح فرض کیجئےکہ ایک مسلمان فردرعیت نےکسی اجنبی ملک کے فردرعیت سے کاروباراورتجارت وغیرہ کےسلسلےمیں معاہدہ کیا۔اجنبی ملک کاقانون حکم دیتاہے کہ جوشخص سرکاری طورپربالغ نہ ہویعنی اسکی عمراٹھارہ سال سے کم ہوتواسےمعاہدہ کرنےکاحق نہیں،اسکاکیاہوامعاہدہ لغوسمجھاجائےگا۔اسلامی قانون میں عمرکاتعین نہیں ہےبلکہ جسمانی بلوغ دیکھاجاتاہے جوممکن ہےاٹھارہ سال سے کم عمرمیں ہوجائے۔ایک مرتبہ کسی جھگڑےکی وجہ سے مقدمہ عدالت کےسامنے آتاہےاوروکیل صاحب کہتے ہیں کہ میرےمؤکل نےجب معاہدہ کیاتھا،وہ نابالغ تھا،اس پرکوئی ذمہ داری عائدنہیں ہوتی،لہذامعاہدہ کالعدم قراردیاجائے۔اس قسم کےجومسائل ہوتےہیں ان کاتعلق پرائیوٹ انٹرنیشنل لاسےہوتاہےاوراس کے قواعدمقررہیں کہ مدعی علیہ کےقانون کےمطابق عمل کیاجائےگا،مدعی کےقانون کےلحاظ سےنہیں کیاجائے گاوغیرہ وغیرہ۔اسکےبرخلاف پبلک انٹرنیشنل لاء میں تین چیزوں یعنی قانون امن قانون جنگ اورقانون غیرجانبداری سےبحث ہوتی ہے۔قانون غیرجانبداری کامقصدیہ ہوتاہےکہ جنگ میں ہماری حکومت مثلاغیرجانبدارہےتواسکےتعلقات دونوں فریقین جنگ کےساتھ۔ کس طرح ہوں گےیافریق جنگ کےتعلقات ان ملکوں سےجوجنگ میں شریک نہیں ہیں،کسی
طرح کے ہوں گے؟اس کی تفصیلیں اس باب میں ملتی ہیں۔قانون امن میں زیادہ ترتین چارچیزوں سےبحث ہوتی ہے۔Sovereigntyیعنی حاکمیت یااقتداراعلی سےکہ کس مملکت کوخودمختارسمجھاجائے۔انٹرنیشنل لاکی جدیدکتابوں میں،واقعتاخودمختارسلطنتوں کےعلاوہ باغیوں کوبھی شامل کیاجاتاہے،مگراس وقت جب ان کی بغاوت ترقی کرکےایک حدتک مستحکم ہوجائےاوروہ کسی علاقہ پرخودمختارانہ طورپرحکمرانی کرنےلگیں۔اسی طرح اس میں Sovereigntyکی تفصیلات ہوتی ہیں کہ کن کن چیزوں میں Sovereigntyکی ضرورت ہوتی ہے۔مثلافرض کیجئےکہ برٹش انڈیامیں انگریزی دورمیں ایک علاقہ تھاجس پرانگریزبراہ راست حکومت کرتےتھے۔لیکن کچھ۔ ریاستیں بھی تھیں جیسے بہاولپور،حیدرآباداورکشمیروغیرہ۔آیاان ریاستوں کوانٹرنیشنل لاکی اغراض کےلیےمملکت تسلیم کیاجائےگایانہیں؟اگرکیاجائےتواس کےکیاقواعدہوں گے؟چنانچہ کہاجاتاہےکہ اگروہ ریاست سوفی صدخودمختارنہ ہولیکن اسےایک حدتک خودمختاری حاصل ہومثلااسےاس کی اجازت ہوکہ اپناایک سفیررکھے،چاہےساری دنیاکی مملکتوں میں نہیں،صرف ایک ہی سلطنت میں توبھی ہم اسےانٹرنیشنل لاکاموضوع قراردیں گے۔غرض اسطرح کی تفیصلیں اس باب میں ملتی ہیں۔ایک دوسراباب جائیدادPropertyکےمتعلق ہے۔جس میں زیادہ ترفتوحات سےبحث ہوتی ہے۔ہم ایک دوسری سلطنت کاکچھ۔ علاقہ فتح کرلیں توکیاوہ خودبخودہماری سلطنت کاجزوبن جاتاہےیااسکےلیےکوئی رسمی کاروائی درکارہے؟اگرہےتووہ کیاہوتی ہے؟اسی طرح جائیدادکی فروخت کرنےکےمتعلق بھی اس میں بعض دلچسپ چیزیں ملتی ہیں یعنی کبھی توفتح کےذریعہ سے کسی علاقہ پرقبضہ ہوتاہے،کبھی تبادلہ علاقہ کے ذریعہ سے ایک علاقہ دوسری سلطنت کودیاجاتاہےیاکبھی تحفہ کےطورپر۔اسکی بہت سی مثالیں اسلامی تاریخ ہندمیں ملتی ہیں۔دوحکمرانوں میں ایک علاقہ کےمتعلق جھگڑاہوتاہے،بالآخراس بات پرمصالحت ہوجاتی ہےکہ میری بیٹی کانکاح تمہارےبیٹےسےہوجائےتومیں جہیزمیں وہ علاقہ تمہیں دےدوں گا۔ہارمان کرنہیں دوں گاوغیرہ وغیرہ اسطرح کی بہت سی چیزیں تاریخ میں پیش آتی رہی ہیں۔جائیدادکےمتعلق جوقواعدہیں انکابھی اسمیں ذکریاجاتاہے۔
اس میں ایک اورچیزکاذکرآتاہے۔Jurisdicitionیعنی دائرہ اختیارسماعت کےمتعلق کہ ایک ملک کےقواعددوسرےملک کی رعیت پرچلیں گےیانہیں،اورچلیں گےتوکس حدتک چلیں گےاورکون ساقانون نافذہوگا؟اس سلسلےمیں ایک چھوٹی سی چیزآپ کےسامنےعرض کروں۔امام محمدشیبانی کی۔"السیرالکبیر"میں ایک باب بہت دلچسپ ہےوہ کہتے ہیں کہ اگرغیرملک کےلوگ ہمارے ملک میں آئیں اورہماری عدالت سے رجوع کریں توہماری قاضی ان پرانہی کاقانون نافذکرےگا۔فرض کیجئےدوپاکستان آئے۔ان میں آپس میں جھگڑاہوااوروہ ہماری عدالت سےرجوع کرتے ہیں توہندؤں یاہندوستان کاقانون ان پرنافذ ہوگا،پاکستانی قانون کےمطابق عمل نہیں کیاجائےگا۔اس سلسلےمیں وہ کہتے ہیں کہ
ہمارے فقہاء اورہمارے قاضیوں کوغیرملکوں کےقانون سےواقفیت پیداکرنےکی ضرورت پیش آتی ہےوہ غالباعہدنبوی کی بعض مثالوں سےاستدلال کرتے ہیں۔مثلالکھاہےکہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں چندیہودی حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئےاورایک نوجوان جوڑےکوپکڑکرکہاکہ انھوں نےآپس میں زناکیا،تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےان سے فرمایاکہ توریت میں زناکاکیاحکم ہے؟شروع میں انہوں نےکہاکہ ان کے منہ پرکالک لگائی جائےاورانہیں گدھےپراس طرح سوارکرایاجائےکہ گدھےکےمنہ کی طرف ان کی پیٹھ۔ ہو،گدھےکی دم کی طرف ان کامنہ ہواورانھیں سارےشہرمیں ڈھنڈوراپیٹتےہوئےگھمایاجائے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا،نہیں تم جھوٹ کہتے ہو!پھرکہاکہ توریت کانسخہ لاؤاورجب نسخہ لاياگیاتوفرمایاکہ ایک نومسلم یہودی،حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ کی موجودگی میں پڑھو۔یہودی نےپڑھناشروع کیا۔ایک مقام پرانگلی رکھ۔ کرآگےبڑھ گیا۔حضرت عبداللہ بن سلام نےکہایہ انگلی اٹھاکرنیچےعبارت پڑھو۔وہاں لکھاتھاکہ زناکی سزارجم ہوگی۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےان کورجم کرایا۔یہ نظیربتاتی ہے کہ اجنبیوں پراسلامی قانون نافذنہیں کیاجاتا،بلکہ انہی کاقانون نافذکیاجاتاہے۔چنانچہ امام محمدشیبانی نےکئی صفحوں کی طویل بحث میں بتایاکہ اجنبیوں پراجنبیوں کاقانون ہماری عدالت میں کس اندازسےنافذہوتاہے۔اسی طرح انٹرنیشنل لاکےقانون میں امن (Law of Peace)کاتعلق سفارت سےہے۔قدیم زمانےمیں سفیرمستقل نہیں ہوتے تھےبلکہ معینہ غرض کےلیےمعینہ مدت کے لیے بھیجےجاتے اورکام سرانجام دینےکےبعدواپس آجاتےتھےاس سلسلےمیں امیر علی History of Saracensمیں لکھاہے کہ مستقل سفیروں کاآغازیورپ سےدوسوسال پہلےمسلمانوں میں ہوا۔یہ ایک دلچسپ چیزہے۔قانون جنگ میں جن مسائل پربحث ہوتی ہےوہ یہ ہیں کہ انسانوں کےمتعلق قانون جنگ کیاہے؟جائیدادکےمتعلق قانون جنگ کیاہے؟جنگ کے خاتمےپرجومعاہدہ یاصلح نامہ ہوتاہے،اس میں کن عناصروشرائط کاہوناضروری ہے؟وغیرہ وغیرہ مختصریہ کہ انٹرنیشنل برتاؤیعنی ایک مملکت کےدوسری مملک سےباہمی تعلق میں جن اصول وضوابط پرعمل کیاجاتاہےاسکامجموعہ انٹرنیشنل لاکےنام سےموسوم ہوتاہے۔
سوالات وجوابات
برادران کرام! خواہران محترم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کچھ۔ سوالات جوآپکی طرف سےآئےہیں ان کے جوابات دینےکی کوشش کرتاہوں۔
سوال نمبر1:-آپ نےفرمایاکہ بقول سیدامیرعلی مستقل سفیروں کاآغازیورپ سےپہلےمسلمانوں نےتقریبادوسوسال قبل کیا۔یہ مسلمانوں کی کون سی حکومت کےزمانے میں ہوا؟
جواب: اگرآپ میرے ماخذHistroy of Saracensکودیکھیں توآپ کواسکی تفیصل مل جائےگی۔خلاصہ یہ ہے کہ بنوعباس کے آخری دورمیں مسلمانوں کی آزادسلطنتیں قائم ہوگئی تھیں۔اس سلسلےمیں امیرعلی نےلکھاکہ خلیفہ کانمائندہ ان عملاآزاداسلامی مملکتوں میں ہوتاتھااوران عملاآزادمملکتوں کاایک نمائندہ خلیفہ کےدربارمں مستقلارہتاتھا۔یہ نہیں کہ کسی متعین کام کےلیےآیااورچلاگیاہو۔
سوال نمبر2:- مکی دورمیں مسلمان ریاست مکہ کی اطاعت نہیں کرتےتھےاس کےلیےکیاتاریخی دلیل ہےکہ مسلمان اہل مکہ کےاس دستورکی اطاعت نہیں کرتےتھےجواسلامی تعلیمات کےبھی خلاف نہیں تھا۔کیایہ اطاعت اولی الامرکےخلاف نہیں ہے؟کیااسےغیرمسلم،بغاوت کانام نہیں دےسکتے؟
جواب: میں نےبیان کیاتھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والےاہل مکہ اپنےہرمسئلےکےلیےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتےتھے۔چاہےانکاآپس کاجھگڑاہویاکسی چیزپربغیرجھگڑےکےعمل کرنےکاسوال ہو،شہری مملکت مکہ میں دوقسم کے وزیرعدلیہ پائےجاتےتھے،ایک دیوانی مقدمات کےلیےاورایک فوجداری کےلیے۔لیکن مسلمان ان افسروں کےپاس نہیں جاتےتھے۔غرض میرامنشاءیہ ہےکہ اس ابتدائی زمانےمیں مسلمان اپنی ہرچیزکےلیےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتےتھےاسکومیں نےمملکت درمملکت کانام دیا۔جب مسلمان اہل مکہ کی مملکت کوقبول ہی نہیں کرتےتھےتواس کےاحکام کی اطاعت کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔اولی الامراس وقت ہوں گےاسی لیےوہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم اورمسلمانوں کواذیتیں بھی دیتےتھےبعض کوانھوں نےقتل بھی کیااوریہ داستان تاریخ عالم کےالمیوں میں سےایک ہےکہ کسطرح اہل مکہ ہراچھی چیزکودیکھتےہوئےبھی محض اپنی ہٹ دھرمی کےباعث اس کوقبول کرنےسےسالہاسال تک انکارکرتےرہے۔لیکن الحمداللہ اس المیہ کااختتام اچھاہوایعنی فتح مکہ کےدن ایک چھوٹاساواقعہ پیش آیاجس کی وجہ سےسارےاہل مکہ اپنی دشمنی کوبھول کرخلوص دل سے اسلام قبول کرلیتے ہیں۔وہ واقعہ یہ تھاکہ فتح مکہ کےدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسارےشہرمیں ڈھنڈوراپٹوایاکہ شایدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سےکچھ۔ کہناچاہتےہیں،ہرشخص آئےچنانچہ کعبہ کی مسجدکےاحاطےمیں سب لوگ آئےاورسوچ رہےتھےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کوئی سزاسنائیں گے۔غرض پریشانی کےعالم میں مکہ کہ مفتوح لوگ وہاں آئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کوحکم دیاکہ وہ کعبہ کی چھت پرچڑھ کراذان دیں۔ایک غیرمسلم نےجب کعبہ کی چھت پرسےحضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کواذان دیتے ہوئے سناتواپنےپاس بیٹھےہوئےایک دوسرےمشرک ساتھ۔ کاناپھوسی کی کہ خداکاشکرہے،میراباپ آج زندہ نہیں ہے ورنہ برداشت نہ کرسکتاکہ خداکےگھرپرایک کالاگدھاچڑھ کرہنگے۔اس کےبعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےنمازپڑھائی۔نمازکےبعدحاضرین سےمخاطب ہوکرکچھ۔ اشارۃ انھیں بتایاکہ گزشتہ بیس سال سےتم میرےساتھ۔ جوسلوک کرتےرہےہو،اب اس سلسلےمیں مجھ۔ سےکیاتوقع رکھتےہو؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاجواب تاریخی نقطہ نظرسےبھی قابل ذکرہے۔نفسیاتی نقطہ نظرسےبھی،اوراس کے نتائج بھی حیرت انگیزہیں۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتےتویہ حکم دیتےکہ ان سارےاہل مکہ کوقتل کرڈالو۔آپ کےپاس فوج تھی،قوت تھی اورشہرپرقبضہ ہوچکاتھا۔اورشایدوہ اس کےمستحق بھی تھےکہ انھیں سزائےموت دی جائے۔کم از کم یہ حکم دےسکتے تھےکہ ان کوغلام بنالو۔اس کےوہ مستحق بھی تھےاوراس کاامکان بھی تھا۔مگرخداکےآخری پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نےان میں سےکچھ۔ بھی نہیں کیاآپ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے منہ سےہی جملہ نکلا"آج کے دن تم سے کوئی بازپرس نہیں"کوئی محاسبہ نہیں،جاؤتم سب کورہاکیاجاتاہے۔۔۔"لاتثریب علیکم الیوم اذھبوا انتم الطقاءاس پروہی شخص جوابھی تھوڑی دیرپہلےحضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ پرطعن کررہاتھا،بے اختیار یکایک اٹھااوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنےحاضرہوکرکہااےمحمدصلی اللہ علیہ وسلم میں عتاب بن اسیدہوں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامشہوردشمن:اشھدان لاالہ الااللہ محمدارسول اللہ اس اعلان معافی کانفسیاتی اثریہ ہواکہ عتاب بن اسیدہی نہیں،سارے شہرمکہ نےراتوں رات خوشدلی کےساتھ۔ اسلام قبول کیااورپھرجب دوسال بعدصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی،اوربہت سےقبیلےمرتدبھی ہوئے،توجن لوگوں نےاسلام پربرقراررہ کر،بغیرہچکچائے،اسلام کی خدمت کےلیےخودکوپیش کیا،ان میں سب سےآگےاسی شہرمکہ کےلوگ تھے،جسےمسلمانوں نےبزور،اورقوت کےذریعےسےفتح کیاتھا۔میں اس قصہ کی تکمیل کرتاہوں کہ جب عتاب ابن اسیدنےکلمہ پڑھاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکیاجواب تھا؟جواب یہ تھاکہ میں تمہیں شہرمکہ کاگورنرمقررکرتاہوں۔ایک سیکنڈپہلےکےدشمن کواسی مفتوحہ شہرکامطلق العنان حکمران بناکر،مدینہ واپس جاتےہیں اورمکہ میں اپناایک سپاہی بھی Garrisonکےطورپرنہیں چھوڑتےاوراس پرآپ کوپچھتانابھی نہیں پڑا۔یہ چندباتیں ہیں جوہمیں اس سلسلےمیں پیش نظررکھنی چاہیں۔اسلام دیگرقسم کی دنیاوی اورمادی تحریکوں کی طرح نہیں تھا۔وہ ربانی عنایت تھی جوانسان تک پہنچائی گئی اوراس پرعمل کرنےوالاوہ کردارتھاجس نےتاریخ عالم میں اپنالاثانی نقش چھوڑاہے۔آج بھی جولوگ غیرجانبداری سےمطالعہ کرسکتےہیں وہ اس پرسردھننےپرمجبورہیں۔ان حالات میں میں نہیں سمجھتاکہ مسلمانان مکہ کواہل مکہ کی اطاعت کرنےکی ضرورت تھی؟کیونکہ وہ ایک نئی آئیڈیالوجی پیش کررہےتھےجس میں اہل مکہ کےلیےبھلائی تھی،بشرطیکہ وہ اسےقبول کرتے۔
سوال نمبر3:انٹرنیشنل لاکےتاریخی ارتقاء کےسلسلےمیں آپ نےیونانی اوررومی سلطنتوں کےقوانین کاذکرکیا۔اس سلسلےمیں حضرت سلیمان علیہ السلام کاقوم سباکےساتھ۔ سفارت کاذکرقرآن پاک میں واضح
طورپرملتاہے۔اس ضمن مین اسکاکیامقام ہے؟
جواب:- یونانیوں اوررومیوں کےعلاوہ اوربھی قوموں کےذکرکی ضرورت ہے،ہندوؤں یہودیوں بلکہ ریڈانڈین لوگوں کابھی ذکرآسکتاہے۔ہمارےپاس بہت سی معلومات ہیں۔لیکن وقت کی کمی کی وجہ سےمیں ان کاذکرنہیں کرسکا۔یہودی قانون کےسلسلےمیں حضرت سلیمان علیہ السلام بھی آئيں گے۔یہودی قانون صرف وہ نہیں ہےجوحضرت موسی علیہ ا لسلام کےزمانےمیں تھابلکہ ان کےبعدکی صدیوں میں اس میں تبدیلیاں اوراضافےبھی ہوتےرہے۔لیکن یہودی قانون کاکم از کم موجودتوریت کی اساس پرتاریخ اسلام کےدرخشاں ابواب سےمقابہ نہیں کیاجاسکتا۔کتاب تثنیہ کوآپ پڑھیں،اس میں انکےبیان کےمطابق خداحضرت موسی علیہ السلام کوحکم دیتاہےکہ تم کسی شہرکےقریب پہنچو،اس پرقبضہ کرنےکےلیے،توپہلےوہاں کےلوگوں کےسامنےامن پیش کرو،اگروہ اس کوقبول کرکےاپنےدروازےکھول دیں توشہرمیں فاتحانہ داخل ہوجاؤاورمفتوحہ کےسارےلوگ تمہارےغلام اورتمہارےخراج گزاربنیں گےاورتمہارےخدمت گاررہیں گے۔اس کےبرخلاف اگروہ مقاومت کریں اورتم بعدمیں اس شہرکوتلوارکےزورسےفتح کرلوتووہاں کےکسی متنفس کوزندہ نہ رکھو،مرد،عورت،بچے،بوڑھے،گدھے،اونٹ جانوروغیرہ ان سب کوتہ تیغ کرکےختم کردو۔یہ موسی علیہ السلام کی طرف منسوب قانون ہے۔اس کےبعدحضرت یوشع علیہ السلام کی کتاب توریت ہمیں ملتی ہے،وہاں بھی اسی Genocide کےقانون پرعمل کیاجاتاہے۔ایسی باتیں ملتی ہیں کہ یہودی فلاں شہرمیں گئےاورانھوں نےوہاں کی عورتوں،بوڑھوں،دودھ پیتےبچوں اورجانوروں وغیرہ سب کوقتل کرڈالا۔اس کےبعدحضرت اشموئیل علیہ السلام کی کتاب دیکھیے۔اس میں بھی ہمیں یہی چیزیں ملتی ہیں۔یہ تھاوہ قانون جویہودیوں کےدین نےسکھایا۔شایداسی کااثرہےکہ آج بھی ہم اسرائیل میں وہ بات نہیں پاتے جوایک متمدن قوم میں ہونی چاہیے۔حضرت سلیمان علیہ السلام اورحضرت داؤدعلیہ السلام یقیناپیغمبرتھے۔میں یہ بھی نہیں جانتاکہ موسی علیہ السلام،یوشمع علیہ السلام اوراشموئیل علیہ السلام کی طرف موجودہ توریت میں جوچیزیں منسوب ہیں وہ صحیح بھی ہیں یانہیں،یقینایہودی تاریخ میں بھی انٹرنیشنل لاملتاہے،حالت جنگ میں بھی اورحالت امن بھی۔ظاہرہےکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کاجوتعلق ملکہ سبابلقیس سےرہاوہ اس کی ایک مثال ہے۔وہ حالت امن کےروابط کےسلسلےمیں ورنہ جنگ دونوں میں نہیں ہوئی تھی۔
سوال نمبر4:- آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نےفتنہ ارتدادکےخلاف جہادکےبارےمیں پہلےاجماع ہونےکی رائےظاہرفرمائی تھی۔بخاری شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبیان میں مذکورہےکہ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نےفرمایاکہ جویہ کہےگاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئےہیں اسکی گردن اڑادوں گا۔اس پرحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نےخطبہ دیااورکچھ۔ قرآنی آیات تلاوت کیں۔ اس پرحضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ اوردوسرے تمام صحابہ خاموش ہوگئے۔کیااس واقعہ کوصحابہ کاپہلااجماع قرارنہیں دیاجاسکتاجوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرصحابہ کےمابین ہوا؟
جواب:- میں عرض کروں گاکہ اجماع اسی وقت ہوتاہےجب قرآن وحدیث ساکت ہوں اورجب قرآن کی آیت پیش کی جائےاوراس پرسب سرتسلیم خم کریں تومیں اسےفنی نقطہ نظرسے"اجماع"نہیں کہوں گا۔
سوال نمبر5:- پاکستان میں کچھ۔ لوگوں کاخیال ہے کہ اپنی سوسائٹی کواسلامی رنگ دینےکےلیےاسلامی قانون ضروری ہے۔دوسرےلوگ کہتےہیں کہ جب تک انفرادی اصلاح نہ ہوجائے،اس وقت تک اسلامی قوانین نہ پورےطورپرنافذہوسکتےہیں اورنہ معاشرےکواسلامی رنگ دیاجاسکتاہے۔آپ کی رائےمیں کونساخیال درست ہے؟
جواب:اگرچہ یہ سوال آج کی تقریرسےمتعلق نہیں،بہرحال میں یہ عرض کروں گاکہ اگرہم اسلامی معاشرےکی اصلاح کےبعداسلامی قانون نافذکرناچاہیں تواسکےانتظارمیں قیامت آجائےگی۔اس لیےبیک وقت اصلاح کی کوشش بھی جاری رکھنی چاہیےاوراسلامی قانون بھی نافذکرناچاہیے۔کیونکہ اسلامی قانون بہت سےلوگوں کومجبورکرےگاکہ وہ سزاکےخوف سےنیک بنیں۔مثال کےطورپرچورکےہاتھ۔ کاٹنے کی سزاپربہت سےلوگ اعتراض کرتےہیں اوراسےوحشیانہ قراردیتےہیں۔میں انکی خدمت میں عرض کروں گاکہ اگرہاتھ۔ کاٹنےکی سزانافذکی جائےتومملک کےسارےباشندےبےہاتھ۔ والےنہیں ہوجائيں گے۔ایک یادوآدمیوں کاہاتھ۔ کٹتاہےپھراس سے سب لوگوں کوعبرت حاصل ہوگی اورکسی کوچوری کی جرات نہیں رہےگی۔یہ چیزبہترہےکہ ایک دوآدمیوں کےہاتھ۔ کٹیں پھرسارےلوگ اپنےگھرمیں اطمینان سےسوسکیں۔نہ چوری کاڈرنہ ڈاکےکاخوف،یاوہ صورت جومیں اپنی آنکھوں سےپیرس میں دیکھی ہےکہ چورکواپنےگھرسےبھی زیادہ آسائش سےجیل خانوں میں رکھاجاتاہے۔اس وجہ سےبعض کام میں چوروں کوترغیب مقصودہوتی ہےکہ بجائےمحنت کرکےکمانےکے،جس سےذراتکلیف ہوتی ہے،سرکاری مہمان نوازی کالطف اٹھائیں۔بہرحال عرض کرنایہ ہےکہ میری رائےمیں نفاذقانون اسلامی اورتربیت اسلامی دونوں کاموں کوبیک وقت ہوناچاہیے۔جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےمیں ہواتھا۔اس کےبرخلاف عمل کیاجائےتوہمیں قیامت تک انتظارہی کرناپڑےگا۔
سوال نمبر6:- اسلام میں دوسری ریاست پرجارحیت کرناجائزنہیں لیکن مدینہ کی ریاست جب مضبوط ہوگئی تومکہ پرحملہ کرنےمیں پہل کی گئی ۔ اسکی کیاوجہ تھی؟
جواب:- مکہ پرحملہ کرنےمیں پہل مسلمانوں نےکی تھی،اسکاثبوت آپ کوپیش کرناچاہیےغالباآپ کویادہوگاکہ حدیبیہ مقام پر6ھ میں مسلمانوں اوراہل مکہ کےدرمیان صلح ہوئی تھی،اس میں شرط یہ تھی