خطاط شفیق الزماں از انور انصاری

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


صفحات کی تقسیم مکمل ہو گئی ۔



صفحہ 1 ---------- شگفتہ
صفحہ 2 ---------- فرحت
صفحہ 3 ---------- نایاب
صفحہ 4 ---------- فہیم
صفحہ 5 ---------- فہیم
صفحہ 6 ---------- فہیم
صفحہ 7 ---------- شمشاد
صفحہ 8 ---------- شمشاد
صفحہ 9 ---------- شمشاد

 

فہیم

لائبریرین
صفحہ 464​


(form) مواد اور ابلاغ کے لحاظ سے ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے وہ اپنے دل کو تسکین فراہم کرتا ہے اور دوسروں کی نگاہوں کو بصیرت عطار کرتا ہے۔
فرمان الٰہی ہے:
آپ (قرآن کریم) پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم عطا فرمایا۔ قرآن کی اس آیت سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قلم کی کیا اہمیت ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ "حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک اس رزق کی زیادہ اہمیت ہے کہ جو انسان اپنے ہاتھ کی مدد سے حاص کرتا ہے۔" اس لحاظ سے قلم اور ہاتھ کے ذریعے سے میسر آنے والا رزق یقیناً ایک باعزت اور باوقار اکل حلال ہے اور یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ خطاطی کرنا اور اس کے ذریعے رزق حاصل کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل ہے اور پھر فن خطاطی وہ پاکیزہ اور لطیف ترین فن ہے جس کے ذریعے اللہ تعالٰی کا پیغام بنی نوع انسان تک پہنچا۔
نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے دور میں خوش خطی اور فن خطاطی کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی غزوہ یا جنگ کے موقع پر مسلمانوں کو فتح حاصل کرنے کے بعد حصور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قید ہوجانے والے قیدیوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ خوشخطی کا فن دو یا چار چار مسلمانوں کو سکھائیں تو ان کو رہا کردیا جائے گا۔ اور لکھنے کا ہنر سکھانا ان کے لیے فدیہ ٹھہرا۔
لٰہذا مسلمانوں نے اسلام کے ابتدائی دور ہی سے اس فن پر خصوصی توجہ دی اور بعد ازاں صحیفہ ربانی کو خوب سے خوب تر لکھنے کی سعی کی اور اس فن کو نہ صرف آگے تک بڑھایا اور اسے جدت عطا کی بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اسلام کے زمانہ عروج میں جو علوم و فنون معرض وجود میں آئے ان میں خطاطی کو بحثیت ایک قدیم فن کے نہایت اہم مقام حاصل ہے۔
دنیا کے تقریباً تمام مسلم ممالک میں دیگر فنون کی طرح خطاطی کو بھی نہایت اہم درجہ دیا جاتا ہے اور وہاں موجود فن کار اس فن میں ہر ممکن طبع آزمائی کرتے ہیں۔
برصغیر میں مغلیہ دور خطاطی اور آرٹ کا عہد زریں کہلاتا تھا۔ اس زمانے میں ہر قسم کے فنکاروں کی خوب حوصلہ افزائی کی جاتی تھی اور مغلیہ دور کے بعض بادشاہوں نے خود بھی خطاطی کے فن کو سیکھا اور اس کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت برصغیر کے ساتھ ساتھ ترکی، ایران، مصر، افغانستان، سعودی عرب، اردن، عراق، الجزائر، سوریا، یمن اور دیگر اسلامی ممالک میں اس فن کو اعلٰی مقام حاصل ہے اور فن کار بڑی عرق ریزی سے مسلمانوں کے اس عظیم ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے اور اس کی نوک پلک سنوارنے میں مسلسل کوشاں ہیں۔
سر زمیں ححاز سے نکل کر یہ فن ترقی کرتا ہوا مشرق، مغرب، شمال، جنوب کے متضاد تہذیبی دائروں میں پہنچا تو مقامی ثقافتی اور جمالیاتی اقدار بھی اس فن میں نمایاں ہونے لگیں، اسی طرح قرآنی تعلیمات کے ساتھ ساتھ برصغیر میں خطاطی کی آمد نے اس خط کو ایک نئی صنف سے روشناس کرایا اور اسلام نے اسے ایک فنی اور دینی قدر (value) کے طور پر باضابطہ پروان چڑھایا اور مسلمان فن کاروں نے خوب خوب جوہر دکھلائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج فن خطاطی مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی دستاویزی شہادت فراہم کرتا ہے اور یہ عظیم فن قرآنی خطاطی کی عظمت سے لیکر تعمیراتی عظمت کے وسیع و پر شکوہ سلسلوں تک پھیلا ہوا ہے۔
اسلام نے محض روحانی اقدار کو نئی معنویت ہی عطا نہیں کی بلکہ ٹھوس سماجی اور ثقافتی معمولات میں ایک
 

نایاب

لائبریرین
(463)

گیا کہ کون سا فن پارہ استاذ حامد کا ہے اور کونسا شفیق کا ۔ یہاں تک کہ استاذ حامد کے خاص ترک شاگردوں حافظ قرآن رفیعی اور مصطفے اقدمیر نے شفیق صاحب کے لکھے ہوئے طغرے کو استاذ حامد کا طغراء قرار دے دیا ۔ اور اس کی ڈرائنگ کی تلاش میں شفیق صاحب تک پہنچ گئے ۔ اس موقع پر شفیق صاحب نے انہیں بتایا کہ میں پاکستانی ہوں اور استاذ حامد کا روحانی طور پر شاگرد ہوں ۔ متذکرہ دونوں ترک فنکار شفیق صاحب کی شخصیت اور ان کے فن سے بے انتہا متاثر ہوئے ۔
احساسات ، مشاہدات جذبات ، فیضان و بشارت ، عشق و محبت ، دراصل یہ وہ عوامل ہیں جن پر چل کر فنکار زندگی کی حقیقتوں کی نقاب کشائی کا فریضہ انجام دیتا ہے ۔ ان راہوں پر چلنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں فنکار تو بہت ہیں لیکن تخلیق کار بہت کم ۔
جاج برنارڈشا نے کہا کہ ایک آدمی جو صرف ہاتھ سے کام کرتا ہے مزدور کہلاتا ہے ۔ ایک آدمی جو ہاتھ اور دل سے کام کرتا ہے کاریگر کہلاتا ہے ۔ اور ایک آدمی جو ہاتھ ، دل اور دماغ سے کام کرتا ہے ایک تخلیق کار کہلاتا ہے ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہاتھ ، دل اور دماغ کا رشتہ اور ہم آہنگی کسی تخلیق کار کے لئے کتنی اہم و ضروری ہے ۔
دنیا کے تمام فنون مثلأادب ، مصوری ، مجسمہ سازی ، رقص ، موسیقی ، اور خطاطی وغیرہ انسانی جذبات و احساسات کے اظہار کے موثر ترین ذرائع ہیں ۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس ملک کے در و دیوار اور چمک دمک سے نہیں لگایا جاتا ۔ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ ملک آرٹ ، ادب و کلچر ، فنون لطیفہ ، اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے کتنا ترقی یافتہ ہے ۔ اس ملک کے رہنے والے ان سب چیزوں میں کس قدر دلچسپی رکھتے ہیں اور حکومت فن اور فنکاروں کی سرپرستی کے ضمن میں کیا کارنامہ سر انجام دیتی ہے ۔ آرٹ ، ادب و ثقافت جہاں اس ملک کی پہچان بنتے ہیں ۔ وہیں فنون لطیفہ کے یہ شعبے اس ملک کی تعمیروترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
سطح زمین پر وہ لوگ کتنے سچے ہیں جو زمین کی روح سے پیار کرتے ہیں ۔ اور وہ لوگ کتنے بدقسمت ہیں جو زمین پر رہتے ہوئے بھی اس کی روح سے کوسوں دور ہیں ۔ میرے خیال میں زمین کی روح سے پیار کرنے کا مطلب اس سرزمین کی تہذیب و ثقافت اور فنون لطیفہ سے رشتہ استوار کرنے ۔ اس سے محبت کرنے کا نام ہے ۔ اور فن کی خدمت کرنا ہی دراصل زمین کی روح سے پیار کرنا ہے ۔ " وفاداری بشرط استواری " پر عمل پیرا ہونا آسان نہیں ۔ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے ۔ دنیا میں ایسے افراد بہت کم ملتے ہیں ۔ صرف وہی افراد جو زمین کی روح سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں اور فن کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں ۔ یقینأ وہ منزل مراد پا لیتے ہیں ۔ گو کہ انہیں اپنی منزل کا تعین کرنے اور صحیح راستہ پر گامزن ہونے کے لئے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ مصائب و آلام سے نبردآزما ہوتے ہوئے اپنی متعین منزل کی جانب رواں دواں ہو جاتے ہیں ۔
دنیا بھر میں کامیاب ترین فن کاروں اور تخلیق کاروں کی کہانیاں تقریبأ ایک جیسی ہوتی ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ فن کار عشرت کی بجائے عسرت کی زندگی گزارتا ہے ۔ اور مصائب و آلام کی بھٹی میں تپ کر ہی کندن بنتا ہے ۔ آج ہم اس مضمون اور انٹرویو میں پاکستان کے ایک ایسے ہی فن کار کے حوالے سے گفتگو کریں گے جس نے بہت کم عرصہ میں فن خطاطی میں پاکستان اور اسلامی دنیا میں اپنا ایک منفرد اور ممتاز مقام بنا لیا ہے ۔ شفیق الزماں کے فن پر گفتگو سے پہلے فن خطاطی سے متعلق تھوڑی سی معلومات نذر قارئین ہیں ۔
فن خطاطی ایک ایسا فن ہے جو روح اسلام سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ۔ یہ اپنی علمی حیثیت ، ہیئت
 

فہیم

لائبریرین
465​

انقلاب برپا کرکے انسان کو تہذیبی سطح پر زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی دیا ہے۔ قدیم مسلم ثقافتی سرمائے میں اس فن کے بیش بہا نمونے جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ خطاطی کا فن اس حسن کی ایک ایسی جامع تصویر پیش کرتا ہے جس کی بدولت ہم مسلم فکر میں ہیئت اور تخیل کی ارتقائی جھلک دیکھ سکتے ہپیں۔
سلطنت عثمانیہ سے لیکر آج تک ترکوں نے دیگر مسلم ریاستوں کی نسبت اس فن پر سب سے زیادہ توجہ دی اور آج مصر، عراق، سوریا، اور دیگر ملکوں کی طرح ترکی میں یہ فن بام عروج تک پہنچا۔ یہاں تک بہت نامور اساتذہ فن پیدا ہوئے جن کو انگلیوں پر نہین گنا جاسکتا۔
برصغیر میں جب فن خطاطی کے حوالے سے بات کی جائے تو دہلی، لکھنؤ اور لاہور کا حوالہ پہلی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی یہ متذکرہ علمی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز رہے ہیں، اور ان شہروں میں خصوصیت کے ساتھ ساتھ علم، ادب آرٹ اور کلچر کے فروغ اور پھلنے پھولنے کے بہتر مواقع حاصل تھے۔
عصر جدید میں بنیادی خطاطی کے حوالے سے اس کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کے ضمن میں اساتذہ کی فہرست میں کئی نام آتے ہیں، جن میں تاج الدین زریں رقم (مرحوم) عبدالمجید پروین رقم (مرحوم) محمد یوسف دہلوی (مرحوم) الماس رقم (مرحوم) بعد کے فن کاروں میں حافظ محمد یوسف سدیدی (مرحوم) صدارتی ایوارڈ یافتہ عبدالمجید دہلوی صدارتی ایوارڈ یافتہ صوفی خورشیدی عالم خورشید رقم ابن مفلہ ایوارڈ یافتہ سید حسین نفیس رقم، ایم ایم شریف آرٹسٹ (مرحوم) محمد اعظم منور رقم، محمود اللہ صدیقی (مرحوم) شریف گلزار اور رشید رستم قلم (مرحوم) کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان میں اپنے اپنے طور پر ان تمام اساتذہ اور فن کاروں نے فن خطاطی کے فروغ کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اس فن کو فروغ دینے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا لیکن جہاں تک عربی خطاطی کا تعلق ہے دیگر مسلم ممالک میں ہونے والی خطاطی کے مقابلے میں اپنا کام ان کے مد مقابل نہ لاسکے۔ یہاں کے اکثر فن کاروں نے نستعلیق پر زیادہ محنت کی اور اس کو ہی پروان چڑھایا۔ پاکستان میں ہونے والی خطاطی اور اس کے ارتقاء کے بتدریج سفر کے بارے میں آئندہ کسی وقت قلم اٹھاؤں گا کیونکہ پاکستان بننے کے فوراً بعد کے متعدد آرٹسٹوں اور فن کاروں نے بینادی خطاطی سے ہٹ کر رنگوں اور برشوں کی مدد سے اسلامی خطاطی کی جو عوام الناس میں مقبول بھی ہوئی۔ اس طرح پاکستان میں دو طرح کی خطاطی ہونے لگی۔ بنیادی خطاطی کے چونکہ ہر خط مسلمہ اور طے شدہ اصول و قواعد اور ضابطے کے ہوتے ہیں اور ان کو انہی حدود میں رہ کر لکھا جاتا ہے تاہم مصوروں اور دیگر فن کاروں کی بنائی اور خطاطی کے کوئی ضابطے اور اصول نہیں ہیں اور فن کار اس کو جس طرح چاہتا ہے رنگوں اور برش کی مدد سے لکھتا ہے۔
پاکستان میں بعد کے آنے والی نسل کے فن کاروں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن ایک فن کار نے بڑی تیزی سے نہ صرف پاکستان میں نمایا مقام پیدا کیا بلکہ عرب دنیا میں بھی اپنے نام کا سکہ جمادیا اس کا نام شفیق الزماں ہے۔ انہوں نے اپنی تقریباً ۲۰ سالہ ریاضت اور دنیا کے عظیم خطاطوں کے فن پاروں کی مدد سے نسخ، نستعلیق، دیوانی، کوفی اور سب سے مشکل ترین خط ثلث میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ خطاطی پر جن فنکاروں کی اجارہ داری تھی وہ انگشت بدنداں رہ گئے۔ یہاں تک کہ ترکی کے عظیم اور ماہر خطاطوں نے ان کے فن کو تسلیم کرلیا اور آج ان کے لیے شفیق الزماں صاحب کے مقام کا تعین کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
سب سے پہلے شفیق الزماں کا نام اس وقت سامنے آیا جب ۱۹۸۶ء میں حکومت سعودیہ عرب کی جانب سے
 

فہیم

لائبریرین
466​

ایک مقابلہ خطاطی منعقد ہوا۔ مقابلے کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ شریک مقابلہ کسی فن کار نے اپنے شہ پارے پر نام نہیں لکھا تھا، لٰہذا مقابلے میں کسی قسم کی سفارش یا جانبداری کا خطرہ نہیں تھا۔ اس پروگرام میں شفیق صاحب نے بھی حصہ لیا۔ خوش قسمتی سے تمام فن کاروں کے مقابلے میں شفیق کے فن پارے کو سب سے بہتر قرار دے دیا گیا۔ جب نمائش کے منتظمین اور منصفین کو اس بات کا علم ہوا کہ یہ کسی پاکستانی فن کار کا کام ہے تو انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور شفیق صاحب سے دوبارہ لکھنے کی درخواست کی اور انہوں نے حاضرین کی موجودگی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس طرح انہیں اول انعام کا مستحق قرار دیا گیا اور دس ہزار ریال کی خطیر رقم انہیں اس اعزاز کے ساتھ پیش کی گئی کہ پورے سعودی عرب میں اس معیار کی عربی خطاطی کرنے والا کوئی دوسرا نہیں۔ اس موقع پر سعودی عرب کے ذرائع ابلاغ اور قومی اخباروں نے ان کے نام کو نمایاں طور پر اجاگر کیا۔
دوسری مرتبہ ۱۹۸۷ء میں ان کا نام اس وقت سامنے آیا جب ادارہ ثقافت پاکستان کی جانب سے لاہور میں قومی نمائش میں شفیق صاحب کے فن پارے کو جو کہ خط ثلث معکوس میں تھا دوسرے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔
شفیق صاحب مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مسجدی نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں فن خطاطی کے ذریعے تزئین و آرائش کے سلسلے میں فن کاروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومت سعودیہ عرب نے ایک مقابلہ خطاطی کا اہتمام کیا، جس میں ترکی، لبنانی، مصری، فلسطینی، سورین، یمنی، انڈین اور پاکستانی فن کاروں نے حصہ لے کر طبع آزمائی کی۔
شفیق کو سعودی عرب کے ایک مقتدر عرب دوست نے مقابلے کے لیے آمادہ کرلیا۔ اس مقابلے میں چار سو کے قریب ماہر اساتذہ فن شریک تھے۔ جو فن کار مدینہ میں بالمشافہ موجود نہیں تھے ان کا کام ان کے ملکوں سے سعودی عرب پہنچ چکا تھا اس مقابلہ خطاطی میں ترکی کے تمام ججوں اور محمکہ اوقاف کے فیصلے کے مطابق شفیق صاحب کو سب سے مستند خطاط قرار دیا تھا۔ یہ بات جہاں پاکستان اور پاکستانی فن کاروں کے لیے باعثِ افتخار ہے کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہلی مرتبہ کسی پاکستانی خطاط کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا ہے وہیں خود شفیق صاحب کے لیے بھی باعثِ اعزاز ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کو یہ سعادت عطا فرمائی کہ وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم اور رحمت اللعلمین کے دررِ اقدس پر فن خطاطی کی اعلٰی ترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے ان کو گلہائے عقیدت پیش کریں اور قلبی سکون کے ساتھ دین و دنیا کی فلاح حاصل کریں۔ یوں تاریخ میں یہ بات رقم ہوگئی کہ حرم میں جہاں ترکوں اور عربوں نے اپنے فن کے ذریعے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں چار چاند لگائے وہیں پاکستان کے ایک نو عمر مگر کہنہ مشق فن کار شفیق الزماں کو بھی اپنا فن پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بلاشبہ ہم اس بیناد پر شفیق الزماں صاحب کو اسلامی دنیا میں اپنی نوعیت کا منفرد اور باوقار سفیر قرار دے سکتے ہیں۔
یہ اعزاز حاصل کرکے انہوں نے جس طرح اپنے وطن عزیز کا نام روشن کیا بقول شخصے " اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں۔"
ایں سعادت بزور بازو نیست
شفیق الزماں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو خطاطی کا کام کر ہی رہے ہیں اس کے علاوہ پاکستان میں کراچی ایئر پورٹ پر مسجد بخاری میں انہوں نے کافی کام کیا ہے۔ سعودی عرب کے شیخ محمد الانصاری نے شفیق صاحب کے کام سے متاثر ہوکر مسجد قبا کے قریب تعمیر ہونے والی مسجد احسان میں خطاطی کا تمام کام کرنے کی درخواست کی۔ جسے شفیق صاحب نے بڑی محنت لگن اور خوش اسلوبی سے کیا۔
ایک سوال کے جواب میں شفیق صاحب نے بتایا کہ اس وقت دنیا میں مندرجہ ذیل مروجہ خطوط زیادہ مستعمل ہیں اور فن کار ان ہی خطوط پر طبع آزمائی کرتے ہوئے عبور حاصل کرتے ہیں:
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

فرحت ، شمشاد بھائی ، نایاب بھائی ، فہیم ، آپ سب کا بہت شکریہ تقریباً چوبیس گھنٹوں میں مکمل ہو گئی تمام ٹائپنگ ۔

 

الف نظامی

لائبریرین
خطاط شفیق الزماں از انور انصاری

لگ بھگ دو سال قبل مسجد نبوی میں خطاطی کے لیے ایک بہت ہی اعلٰی پائے کے خطاط کی ضرورت کے پیش نظر حکومت سعودی عرب اور محکمہ اوقاف مدینہ منورہ نے دنیا بھر کے خطاط فنکاروں کے درمیان ایک مقابلہ کا اہتمام کیا ۔ ترکی ، عربی ، مصری ، فلسطینی ، سورین اور برصغیر پاک و ہند کے فنکاروں نے اس مقابلے میں حصہ لیا ۔ ترکی سے براہ راست بہت سے خطاطوں نے اپنے نمونے بھیج کر اس مقابلے میں خصوصی طور پر طبع آزمائی کی ۔ اس مقابلے کے سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ چونکہ مقابلہ میں شریک کسی بھی فنکار کے فن پارے پر فنکار کا نام درج نہیں تھا اس لیے کسی سفارش یا شخصی جانبداری کا خدشہ نہیں تھا ۔ سب کو اس بات پر مکمل یقین تھا کہ جس فنکار کا کام سب سے اچھا ہو گا اور اس بات کا اہل ہو گا کہ وہ مسجد نبوی میں اپنے جوہر دکھا سکے ، اسی کو منتخب کیا جائے گا لہٰذا تمام فنکار اس کے نتیجے کا انتظار کرنے لگے ۔

خوش قسمتی سے منصف اعلی ممتاز ترک استاذ احمد ضیاء الدین ابراہیم سمیت تمام منصفین اور محکمہ اوقاف کے فیصلے کے مطابق شفیق صاحب کے فن پارے کو کسی ترک استاذ کا فن پارہ سمجھ کر سب سے بہتر قرار دے دیا گیا ۔ بعد میں تمام ججوں اور محکمہ اوقاف کو یہ جان کر ازحد مسرت بھی ہوئی اور تعجب بھی ہوا کہ یہ کسی پاکستانی خطاط کا کام ہے ۔ اس کے بعد شفیق الزماں کو مسجد نبوی میں خطاطی کے لیے منتخب کر لیا گیا ۔ جب سے اب تک انھوں نے دس گنبدوں میں کام کے علاوہ "باب البقیع" اور "باب الرحمتہ" کے گنبدوں میں خط ثلث میں اپنی خطاطی کا کام مکمل کر لیا ہے اور اب ان دنوں محراب الرسول کے اوپر "ریاض الجنتہ" کے گنبدوں میں خطاطی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔

اب تک محکمہ اوقاف ، مسجد نبوی کے منتظمین اور ترکی کے متعدد اساتذہ شفیق صاحب کی خطاطی سے بے انتہاء متاثر اور خوش ہیں اور شفیق صاحب بھی اپنی خصوصی دلچسپی ، پوری ذمہ داری اور دیانتداری سے مسجد نبوی میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔

خطاط شفیق الزماں

شفیق الزماں 1956 میں چکلالہ (راولپنڈ ی) میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں ان کے والد محترم ولی محمد خاں (مرحوم) پاکستان ایئر فورس (گراؤنڈ مینٹیننس) میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ شفیق صاحب کی پیدائش کے ایک یا دو سال بعد ہی ان کے والد کا تبادلہ کراچی ہو گیا۔ اور وہ اپنے والدین کے ہمراہ کراچی منتقل ہو گئے اور تاحال کھوکھرا پار میں سکونت پذیر ہیں۔ شفیق صاحب اپنے سات بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ سب سے پہلے بڑے بھائی، پھر وہ، اس کے بعد تین بھائی چھوٹے ہیں۔ اس کے علاوہ شفیق صاحب کی دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں۔ ملیر ہی میں انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ ابتداء ہی سے انہیں خوش خطی لکھنے کا بہت شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صاف اور خوشخط لکھ کر تمام امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرتے رہے۔ اسکول کے زمانے میں وہ ایک ممتاز طالب علم کے طور پر سامنے آئے اور طالب علم دوستوں اور اساتذہ میں یکساں طور پر مقبول رہے۔ اسکول کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور طور پر حصہ لیتے تھے۔ تصویری اور خطاطی کے مقابلوں میں کئی بار انعامات حاصل کر کے اسکول کا نام روشن کیا۔ گھر میں دینی ماحول کی وجہ سے والدین نے ہمیشہ شفیق صاحب کی لکھی ہوئی خطاطی کی حوصلہ افزائی کی اور رفتہ رفتہ خود شفیق صاحب کو فنِ خطاطی سے اس قدر لگاؤ اور رغبت میں جنون کی سی کیفیت پیدا ہو گئی کہ وہ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ اس کے بعد 1976ء میں شفیق صاحب کی شادی ہو گئی اور ماشاءاللہ اب وہ دو بچوں کے والد ہیں۔
اپنے فن کی پیاس بجھانے کے لئے سب سے پہلے انہوں نے پینٹر کا کام شروع کیا اور ہر طرح کے سائن بورڈ بنانے لگے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ بندر روڈ پر کسی کمپنی کا سائن بورڈ عربی میں بنا رہے تھے کہ اتفاق سے وہاں ایک عرب کا گزر ہوا۔ وہ عرب ان کی خطاطی سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے شفیق صاحب کو سعودی عرب میں عربی لکھنے کے لئے ملازمت کی پیش کش کی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ اپنے شوق کی تکمیل کے لئے انہوں نے مدینہ منورہ میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ اس طرح انہوں نے چودہ پندرہ سال سعودی عرب میں مختلف کمپنیوں کے لئے عربی خطاطی میں گزار دیئے۔ اس دوران شفیق صاحب نے دنیا بھر کے مستند خطاطوں کے لکھے ہوئے کتبات اور ترکی، مصری، سورین کتابوں کی مدد سے عربی خطاطی سیکھنے کا عمل جاری رکھا۔ اب وہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ عربی کے تمام مروجہ خطوط بڑی آسانی سے لکھ لیتے ہیں۔ وہ رقعہ، دیوانی، کوفی، نستعلیق (ایرانی)، نسخ، اجازہ، اور طغراء کے علاوہ خطوں کے بادشاہ " خط ثلث" کو بڑی خوبصورتی اور چابکدستی سے لکھتے ہیں اور آج انہوں نے اس فن میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی دنیا میں وہ نام پیدا کر لیا ہے کہ جس کا لوگ صرف خواب دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے دنیائے خطاطی کے عظیم ترین استاد حامد الآمدی (مرحوم) کے اسلوب کو اپنایا ہے اور اپنے لکھے ہوئے طغروں میں اتنی مہارت اور جاذبیت پیدا کر لی کہ دونوں کے فن پاروں میں فیصلہ کرنا ناممکن ہوگیا کہ کون سا فن پارہ استاذ حامد کا ہے اور کونسا شفیق کا ۔ یہاں تک کہ استاذ حامد کے خاص ترک شاگردوں حافظ قرآن رفیعی اور مصطفے اقدمیر نے شفیق صاحب کے لکھے ہوئے طغرے کو استاذ حامد کا طغراء قرار دے دیا ۔ اور اس کی ڈرائنگ کی تلاش میں شفیق صاحب تک پہنچ گئے ۔ اس موقع پر شفیق صاحب نے انہیں بتایا کہ میں پاکستانی ہوں اور استاذ حامد کا روحانی طور پر شاگرد ہوں ۔ متذکرہ دونوں ترک فنکار شفیق صاحب کی شخصیت اور ان کے فن سے بے انتہا متاثر ہوئے ۔
احساسات ، مشاہدات جذبات ، فیضان و بشارت ، عشق و محبت ، دراصل یہ وہ عوامل ہیں جن پر چل کر فنکار زندگی کی حقیقتوں کی نقاب کشائی کا فریضہ انجام دیتا ہے ۔ ان راہوں پر چلنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں فنکار تو بہت ہیں لیکن تخلیق کار بہت کم ۔
جارج برنارڈشا نے کہا کہ ایک آدمی جو صرف ہاتھ سے کام کرتا ہے مزدور کہلاتا ہے ۔ ایک آدمی جو ہاتھ اور دل سے کام کرتا ہے کاریگر کہلاتا ہے ۔ اور ایک آدمی جو ہاتھ ، دل اور دماغ سے کام کرتا ہے ایک تخلیق کار کہلاتا ہے ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہاتھ ، دل اور دماغ کا رشتہ اور ہم آہنگی کسی تخلیق کار کے لئے کتنی اہم و ضروری ہے ۔
دنیا کے تمام فنون مثلاادب ، مصوری ، مجسمہ سازی ، رقص ، موسیقی ، اور خطاطی وغیرہ انسانی جذبات و احساسات کے اظہار کے موثر ترین ذرائع ہیں ۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس ملک کے در و دیوار اور چمک دمک سے نہیں لگایا جاتا ۔ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ ملک آرٹ ، ادب و کلچر ، فنون لطیفہ ، اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے کتنا ترقی یافتہ ہے ۔ اس ملک کے رہنے والے ان سب چیزوں میں کس قدر دلچسپی رکھتے ہیں اور حکومت فن اور فنکاروں کی سرپرستی کے ضمن میں کیا کارنامہ سر انجام دیتی ہے ۔ آرٹ ، ادب و ثقافت جہاں اس ملک کی پہچان بنتے ہیں ۔ وہیں فنون لطیفہ کے یہ شعبے اس ملک کی تعمیروترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
سطح زمین پر وہ لوگ کتنے سچے ہیں جو زمین کی روح سے پیار کرتے ہیں ۔ اور وہ لوگ کتنے بدقسمت ہیں جو زمین پر رہتے ہوئے بھی اس کی روح سے کوسوں دور ہیں ۔ میرے خیال میں زمین کی روح سے پیار کرنے کا مطلب اس سرزمین کی تہذیب و ثقافت اور فنون لطیفہ سے رشتہ استوار کرنے ۔ اس سے محبت کرنے کا نام ہے ۔ اور فن کی خدمت کرنا ہی دراصل زمین کی روح سے پیار کرنا ہے ۔ " وفاداری بشرط استواری " پر عمل پیرا ہونا آسان نہیں ۔ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے ۔ دنیا میں ایسے افراد بہت کم ملتے ہیں ۔ صرف وہی افراد جو زمین کی روح سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں اور فن کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں ۔ یقینا وہ منزل مراد پا لیتے ہیں ۔ گو کہ انہیں اپنی منزل کا تعین کرنے اور صحیح راستہ پر گامزن ہونے کے لئے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ مصائب و آلام سے نبردآزما ہوتے ہوئے اپنی متعین منزل کی جانب رواں دواں ہو جاتے ہیں ۔
دنیا بھر میں کامیاب ترین فن کاروں اور تخلیق کاروں کی کہانیاں تقریبا ایک جیسی ہوتی ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ فن کار عشرت کی بجائے عسرت کی زندگی گزارتا ہے ۔ اور مصائب و آلام کی بھٹی میں تپ کر ہی کندن بنتا ہے ۔ آج ہم اس مضمون اور انٹرویو میں پاکستان کے ایک ایسے ہی فن کار کے حوالے سے گفتگو کریں گے جس نے بہت کم عرصہ میں فن خطاطی میں پاکستان اور اسلامی دنیا میں اپنا ایک منفرد اور ممتاز مقام بنا لیا ہے ۔ شفیق الزماں کے فن پر گفتگو سے پہلے فن خطاطی سے متعلق تھوڑی سی معلومات نذر قارئین ہیں ۔
فن خطاطی ایک ایسا فن ہے جو روح اسلام سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ۔ یہ اپنی علمی حیثیت ، ہیئت (form) مواد اور ابلاغ کے لحاظ سے ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے وہ اپنے دل کو تسکین فراہم کرتا ہے اور دوسروں کی نگاہوں کو بصیرت عطار کرتا ہے۔
فرمان الٰہی ہے:
آپ (قرآن کریم) پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم عطا فرمایا۔ قرآن کی اس آیت سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قلم کی کیا اہمیت ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ "حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک اس رزق کی زیادہ اہمیت ہے کہ جو انسان اپنے ہاتھ کی مدد سے حاص کرتا ہے۔" اس لحاظ سے قلم اور ہاتھ کے ذریعے سے میسر آنے والا رزق یقیناً ایک باعزت اور باوقار اکل حلال ہے اور یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ خطاطی کرنا اور اس کے ذریعے رزق حاصل کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل ہے اور پھر فن خطاطی وہ پاکیزہ اور لطیف ترین فن ہے جس کے ذریعے اللہ تعالٰی کا پیغام بنی نوع انسان تک پہنچا۔
نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے دور میں خوش خطی اور فن خطاطی کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی غزوہ یا جنگ کے موقع پر مسلمانوں کو فتح حاصل کرنے کے بعد حصور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قید ہوجانے والے قیدیوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ خوشخطی کا فن دو یا چار چار مسلمانوں کو سکھائیں تو ان کو رہا کردیا جائے گا۔ اور لکھنے کا ہنر سکھانا ان کے لیے فدیہ ٹھہرا۔
لٰہذا مسلمانوں نے اسلام کے ابتدائی دور ہی سے اس فن پر خصوصی توجہ دی اور بعد ازاں صحیفہ ربانی کو خوب سے خوب تر لکھنے کی سعی کی اور اس فن کو نہ صرف آگے تک بڑھایا اور اسے جدت عطا کی بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اسلام کے زمانہ عروج میں جو علوم و فنون معرض وجود میں آئے ان میں خطاطی کو بحثیت ایک قدیم فن کے نہایت اہم مقام حاصل ہے۔
دنیا کے تقریباً تمام مسلم ممالک میں دیگر فنون کی طرح خطاطی کو بھی نہایت اہم درجہ دیا جاتا ہے اور وہاں موجود فن کار اس فن میں ہر ممکن طبع آزمائی کرتے ہیں۔
برصغیر میں مغلیہ دور خطاطی اور آرٹ کا عہد زریں کہلاتا تھا۔ اس زمانے میں ہر قسم کے فنکاروں کی خوب حوصلہ افزائی کی جاتی تھی اور مغلیہ دور کے بعض بادشاہوں نے خود بھی خطاطی کے فن کو سیکھا اور اس کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت برصغیر کے ساتھ ساتھ ترکی، ایران، مصر، افغانستان، سعودی عرب، اردن، عراق، الجزائر، سوریا، یمن اور دیگر اسلامی ممالک میں اس فن کو اعلٰی مقام حاصل ہے اور فن کار بڑی عرق ریزی سے مسلمانوں کے اس عظیم ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے اور اس کی نوک پلک سنوارنے میں مسلسل کوشاں ہیں۔
سر زمیں ححاز سے نکل کر یہ فن ترقی کرتا ہوا مشرق، مغرب، شمال، جنوب کے متضاد تہذیبی دائروں میں پہنچا تو مقامی ثقافتی اور جمالیاتی اقدار بھی اس فن میں نمایاں ہونے لگیں، اسی طرح قرآنی تعلیمات کے ساتھ ساتھ برصغیر میں خطاطی کی آمد نے اس خط کو ایک نئی صنف سے روشناس کرایا اور اسلام نے اسے ایک فنی اور دینی قدر (value) کے طور پر باضابطہ پروان چڑھایا اور مسلمان فن کاروں نے خوب خوب جوہر دکھلائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج فن خطاطی مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی دستاویزی شہادت فراہم کرتا ہے اور یہ عظیم فن قرآنی خطاطی کی عظمت سے لیکر تعمیراتی عظمت کے وسیع و پر شکوہ سلسلوں تک پھیلا ہوا ہے۔
اسلام نے محض روحانی اقدار کو نئی معنویت ہی عطا نہیں کی بلکہ ٹھوس سماجی اور ثقافتی معمولات میں ایک انقلاب برپا کرکے انسان کو تہذیبی سطح پر زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی دیا ہے۔ قدیم مسلم ثقافتی سرمائے میں اس فن کے بیش بہا نمونے جگہ جگہ بکھرے ہوئے ہیں۔ خطاطی کا فن اس حسن کی ایک ایسی جامع تصویر پیش کرتا ہے جس کی بدولت ہم مسلم فکر میں ہیئت اور تخیل کی ارتقائی جھلک دیکھ سکتے ہپیں۔
سلطنت عثمانیہ سے لیکر آج تک ترکوں نے دیگر مسلم ریاستوں کی نسبت اس فن پر سب سے زیادہ توجہ دی اور آج مصر، عراق، سوریا، اور دیگر ملکوں کی طرح ترکی میں یہ فن بام عروج تک پہنچا۔ یہاں تک بہت نامور اساتذہ فن پیدا ہوئے جن کو انگلیوں پر نہین گنا جاسکتا۔
برصغیر میں جب فن خطاطی کے حوالے سے بات کی جائے تو دہلی، لکھنؤ اور لاہور کا حوالہ پہلی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی یہ متذکرہ علمی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز رہے ہیں، اور ان شہروں میں خصوصیت کے ساتھ ساتھ علم، ادب آرٹ اور کلچر کے فروغ اور پھلنے پھولنے کے بہتر مواقع حاصل تھے۔
عصر جدید میں بنیادی خطاطی کے حوالے سے اس کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کے ضمن میں اساتذہ کی فہرست میں کئی نام آتے ہیں، جن میں تاج الدین زریں رقم (مرحوم) عبدالمجید پروین رقم (مرحوم) محمد یوسف دہلوی (مرحوم) الماس رقم (مرحوم) بعد کے فن کاروں میں حافظ محمد یوسف سدیدی (مرحوم) صدارتی ایوارڈ یافتہ عبدالمجید دہلوی صدارتی ایوارڈ یافتہ صوفی خورشیدی عالم خورشید رقم ابن مفلہ ایوارڈ یافتہ سید حسین نفیس رقم، ایم ایم شریف آرٹسٹ (مرحوم) محمد اعظم منور رقم، محمود اللہ صدیقی (مرحوم) شریف گلزار اور رشید رستم قلم (مرحوم) کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان میں اپنے اپنے طور پر ان تمام اساتذہ اور فن کاروں نے فن خطاطی کے فروغ کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اس فن کو فروغ دینے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا لیکن جہاں تک عربی خطاطی کا تعلق ہے دیگر مسلم ممالک میں ہونے والی خطاطی کے مقابلے میں اپنا کام ان کے مد مقابل نہ لاسکے۔ یہاں کے اکثر فن کاروں نے نستعلیق پر زیادہ محنت کی اور اس کو ہی پروان چڑھایا۔ پاکستان میں ہونے والی خطاطی اور اس کے ارتقاء کے بتدریج سفر کے بارے میں آئندہ کسی وقت قلم اٹھاؤں گا کیونکہ پاکستان بننے کے فوراً بعد کے متعدد آرٹسٹوں اور فن کاروں نے بینادی خطاطی سے ہٹ کر رنگوں اور برشوں کی مدد سے اسلامی خطاطی کی جو عوام الناس میں مقبول بھی ہوئی۔ اس طرح پاکستان میں دو طرح کی خطاطی ہونے لگی۔ بنیادی خطاطی کے چونکہ ہر خط مسلمہ اور طے شدہ اصول و قواعد اور ضابطے کے ہوتے ہیں اور ان کو انہی حدود میں رہ کر لکھا جاتا ہے تاہم مصوروں اور دیگر فن کاروں کی بنائی اور خطاطی کے کوئی ضابطے اور اصول نہیں ہیں اور فن کار اس کو جس طرح چاہتا ہے رنگوں اور برش کی مدد سے لکھتا ہے۔
پاکستان میں بعد کے آنے والی نسل کے فن کاروں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن ایک فن کار نے بڑی تیزی سے نہ صرف پاکستان میں نمایا مقام پیدا کیا بلکہ عرب دنیا میں بھی اپنے نام کا سکہ جمادیا اس کا نام شفیق الزماں ہے۔ انہوں نے اپنی تقریباً ۲۰ سالہ ریاضت اور دنیا کے عظیم خطاطوں کے فن پاروں کی مدد سے نسخ، نستعلیق، دیوانی، کوفی اور سب سے مشکل ترین خط ثلث میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ خطاطی پر جن فنکاروں کی اجارہ داری تھی وہ انگشت بدنداں رہ گئے۔ یہاں تک کہ ترکی کے عظیم اور ماہر خطاطوں نے ان کے فن کو تسلیم کرلیا اور آج ان کے لیے شفیق الزماں صاحب کے مقام کا تعین کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
سب سے پہلے شفیق الزماں کا نام اس وقت سامنے آیا جب ۱۹۸۶ء میں حکومت سعودیہ عرب کی جانب سے
ایک مقابلہ خطاطی منعقد ہوا۔ مقابلے کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ شریک مقابلہ کسی فن کار نے اپنے شہ پارے پر نام نہیں لکھا تھا، لٰہذا مقابلے میں کسی قسم کی سفارش یا جانبداری کا خطرہ نہیں تھا۔ اس پروگرام میں شفیق صاحب نے بھی حصہ لیا۔ خوش قسمتی سے تمام فن کاروں کے مقابلے میں شفیق کے فن پارے کو سب سے بہتر قرار دے دیا گیا۔ جب نمائش کے منتظمین اور منصفین کو اس بات کا علم ہوا کہ یہ کسی پاکستانی فن کار کا کام ہے تو انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور شفیق صاحب سے دوبارہ لکھنے کی درخواست کی اور انہوں نے حاضرین کی موجودگی میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس طرح انہیں اول انعام کا مستحق قرار دیا گیا اور دس ہزار ریال کی خطیر رقم انہیں اس اعزاز کے ساتھ پیش کی گئی کہ پورے سعودی عرب میں اس معیار کی عربی خطاطی کرنے والا کوئی دوسرا نہیں۔ اس موقع پر سعودی عرب کے ذرائع ابلاغ اور قومی اخباروں نے ان کے نام کو نمایاں طور پر اجاگر کیا۔
دوسری مرتبہ ۱۹۸۷ء میں ان کا نام اس وقت سامنے آیا جب ادارہ ثقافت پاکستان کی جانب سے لاہور میں قومی نمائش میں شفیق صاحب کے فن پارے کو جو کہ خط ثلث معکوس میں تھا دوسرے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔
شفیق صاحب مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مسجدی نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں فن خطاطی کے ذریعے تزئین و آرائش کے سلسلے میں فن کاروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومت سعودیہ عرب نے ایک مقابلہ خطاطی کا اہتمام کیا، جس میں ترکی، لبنانی، مصری، فلسطینی، سورین، یمنی، انڈین اور پاکستانی فن کاروں نے حصہ لے کر طبع آزمائی کی۔
شفیق کو سعودی عرب کے ایک مقتدر عرب دوست نے مقابلے کے لیے آمادہ کرلیا۔ اس مقابلے میں چار سو کے قریب ماہر اساتذہ فن شریک تھے۔ جو فن کار مدینہ میں بالمشافہ موجود نہیں تھے ان کا کام ان کے ملکوں سے سعودی عرب پہنچ چکا تھا اس مقابلہ خطاطی میں ترکی کے تمام ججوں اور محمکہ اوقاف کے فیصلے کے مطابق شفیق صاحب کو سب سے مستند خطاط قرار دیا تھا۔ یہ بات جہاں پاکستان اور پاکستانی فن کاروں کے لیے باعثِ افتخار ہے کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہلی مرتبہ کسی پاکستانی خطاط کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا ہے وہیں خود شفیق صاحب کے لیے بھی باعثِ اعزاز ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کو یہ سعادت عطا فرمائی کہ وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم اور رحمت اللعلمین کے دررِ اقدس پر فن خطاطی کی اعلٰی ترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے ان کو گلہائے عقیدت پیش کریں اور قلبی سکون کے ساتھ دین و دنیا کی فلاح حاصل کریں۔ یوں تاریخ میں یہ بات رقم ہوگئی کہ حرم میں جہاں ترکوں اور عربوں نے اپنے فن کے ذریعے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں چار چاند لگائے وہیں پاکستان کے ایک نو عمر مگر کہنہ مشق فن کار شفیق الزماں کو بھی اپنا فن پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بلاشبہ ہم اس بیناد پر شفیق الزماں صاحب کو اسلامی دنیا میں اپنی نوعیت کا منفرد اور باوقار سفیر قرار دے سکتے ہیں۔
یہ اعزاز حاصل کرکے انہوں نے جس طرح اپنے وطن عزیز کا نام روشن کیا بقول شخصے " اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں۔"
ایں سعادت بزور بازو نیست
شفیق الزماں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو خطاطی کا کام کر ہی رہے ہیں اس کے علاوہ پاکستان میں کراچی ایئر پورٹ پر مسجد بخاری میں انہوں نے کافی کام کیا ہے۔ سعودی عرب کے شیخ محمد الانصاری نے شفیق صاحب کے کام سے متاثر ہوکر مسجد قبا کے قریب تعمیر ہونے والی مسجد احسان میں خطاطی کا تمام کام کرنے کی درخواست کی۔ جسے شفیق صاحب نے بڑی محنت لگن اور خوش اسلوبی سے کیا۔
ایک سوال کے جواب میں شفیق صاحب نے بتایا کہ اس وقت دنیا میں مندرجہ ذیل مروجہ خطوط زیادہ مستعمل ہیں اور فن کار ان ہی خطوط پر طبع آزمائی کرتے ہوئے عبور حاصل کرتے ہیں:


1 – خط ثلث، 2 – نسخ (فارسی)، 3 – دیوانی، 4 – جلی دیوانی، 5 – اجازہ، 6 – کوفی (اب تک 120 طرز پر لکھا جاتا ہے)، 7 – رقعہ، 8 – شکستہ، 9 – سنبلی، 10 – خط طغرا وغیرہ۔

ان خطوط میں سب سے مشکل ترین خط "خط ثلث" ہے، اسے تمام خطوط کا بادشاہ کہا جاتا ہے اس خط کو متعدد اساتذہ نے دلہن سے بھی تشبیہ دی ہے۔ جس طرح شادی کے موقع پر کسی دلہن کو بنایا، سجایا اور سنوارا جاتا ہے، اس کا میک اپ کیا جاتا ہے، ماتھے پر جھومر، کانوں میں بالیاں اور ناک میں نتھ پہنائی جاتی ہے، ہاتھوں میں مہندی اور پھولوں کے گجرے پہنائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح خط ثلث کو نئی نویلی دلہن کی طرح سجایا اور سنوارا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا : جہاں تک میرا تعلق ہے میں عربی خطاطی میں اپنے طور پر تمام ہی خطوط لکھتا ہوں لیکن میرا سب سے پسندیدہ خط "ثلث " ہے خط ثلث کی نوک پلک سنوارنے اور اس کی ترش خراش میں دنیا کے متعدد اساتذہ نے اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن ترکی متعدد اساتذہ نے اس خط پر سب سے زیادہ محنت کی، ترکی کے خطاطوں کے جد امجد استاذ مصطفٰے راقم (پیدائش 1171ھ بمطابق 1758 ع ۔ وفات 1241 ھ بمطابق 1826 ع) سے لیکر استاذ حامد الامدی (پیدائش 1309 ھ بمطابق 1891 ع وفات 1402ھ بمطابق 1982 ع) تک تقریباً دو صدی تک اس خط میں طبع آزمائی کی اور یہ خط آج اپنی انتہائی خوبصورت شکل میں اس وقت موجود ہے۔

پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شفیق الزماں نے بتایا کہ ایک مسلم ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں عربی خطاطی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ یہاں لوگوں نے صرف نستعلیق کے خط کو اپنایا اور اس خط کو ایسا بنا دیا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اس طرز کو قبول نہیں کیا جاتا اور یہ خط صرف برصغیر میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ عربی خطاطی میں "خط ثلث" کے حوالے سے صرف اتنا کہوں گا کہ محترم حافظ محمد یوسف سدیدی (مرحوم) نے کچھ توجہ دی اور اپنے طور پر یہ کوشش کی کہ پاکستان میں عربی خطاطی کو فروغ دیا جائے، حالانکہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس ملک میں عربی خطاطی کو فروغ دینے کے لئے سرکاری سطح پر موثر اور ٹھوس اقدام کرے جبکہ حکومت ترکی اس فن کو زندہ رکھنے اور فروغ دینے کے لئے ہر قسم کے اقدام کرتی ہے۔ یہاں ہر دو سال بعد ایک بین الاقوامی خطاطی کا مقابلہ ہوتا ہے جس میں دنیا بھر کے فن کار اپنا کام پیش کرتے ہیں۔ اس طرح ان فن کاروں میں اس فن سے محبت اور مختلف خطور کو خوب سے خوب تر لکھنے کا جذبہ بیدار رہتا ہے۔ اس تمام پروگرام کو حکومت سعودی عرب مالی طور پر مدد فراہم کرتی ہے۔ لاکھوں ڈالر خرچ کر کے اس پروگرام کو منعقد کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ترکی نژاد استاذ احمد ضیا ابراہیم (سعودی نیشنل) اس عالمی مقابلہ خطاطی کو منعقد کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے ہیں اور اس کے منصف اعلٰی اور آرگنائزر کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت سعودی عرب اور جلالتہ الملک خاص طور پر قابل تحسین ہیں کہ جن کی مالی امداد اور کاوشوں سے ان نمائشوں کا اہتمام ہوتا ہے اور فن کاروں کی خوب حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

پاکستان میں عربی خطاطی کو فروغ دینے کے ضمن میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شفیق الزماں نے کہا : میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح دیگر اسلامی ملکوں میں عربی خطاطی کو فروغ دینے کے لئے مختلف ادارے قائم ہیں بالکل اسی طرح یہاں بھی پروگرام بنائے جائیں اور دلچسپی رکھنے والے فن کاروں کو عربی خطاطی کی تربیت دی جائے۔ مثلاً مصر میں مدرسہ تحسین الخطوط قائم ہے۔ بغداد میں فنون الجمیلہ، ترکیہ میں صنایع نفیسہ الاقارمینہ. ایران میں انجمن خوشنویسان۔ ایرا ن اور دیگر اسلامی ممالک میں اس قسم کے ادارے سرکاری سطے پر خدمات انجام دے رہے ہیں جہاں تشنگان فن نہ صرف اپنے علم کی پیاس بجھاتے ہیں بلکہ ان اداروں سے فارغ التحصیل ہو کر معاشرے میں باعزت اور قابل قدر روزگار بھی حاصل کرتے ہیں۔ اگر پاکستان میں اس طرز پر کوئی ادارہ قائم ہو جس میں برادر اسلامی ممالک کے مستند اساتذہ کی خدمات حاصل کر کے یہاں کے فن کاروں کی تربیت کا کوئی معقول انتظام کیا جائے تو میرے خیال میں یہ فن پاکستان میں فروغ اور ترقی پائے گا اور ہم دنیا کے مسل فنکاروں کے مقابلے میں اپنا کام بھی پیش کر سکیں گے۔ یہی ایک ذریعہ رہ جاتا ہے کہ ہم بتدریج یہ فن عام لوگوں میں مقبول بنا سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں پی ٹی وی (صبح کی نشریات) کی جانب سے بچوں کو دس منٹ کا جو پروگرام پیش کیا جاتا ہے وہ ناکافی ہے اور میں یہ بات نہیں مانتا کہ ٹیلیویژن پروگرام کے ذریعے دنیا کا یہ عظیم ترین فن لوگوں کو سکھایا جا سکے۔ اس کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ کوئی اکیڈمی ہو اور فن کار اور فن سیکھنے والے طالب علم دونوں ایک ہی جگہ موجود ہوں۔ استاذ سب طالب علموں کے سامنے لکھتے ہوئے بتائے، اور طالب علم اپنے استاذ کے بتائے ہوئے خطوط کے ذریعے ان کو لکھے۔ بعد میں سب طالب علموں کو استاذ اصلاح دے۔ اس طرح اس کے ذہن و دماغ میں اس لفظ کی صحیح شکل ثبت ہو جائے گی۔ قلم کو پکڑنے اور قرطاس پر لفظوں کو بنانے کا طریقہ بھی باآسانی ذہن نشین ہو جائے گا۔ بہرحال خطاطی کے فروغ کے ضمن میں پی ٹی وی اور جناب رشید بٹ اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ضرور ہیں کہ چلو پاکستان میں کچھ نہ کچھ تو ہو رہا ہے۔

محترم شفیق نے اپنی گفتگو کے دوران بتایا کہ خط ثلث کے حوالے سے میں سب سے زیادہ ترک استاذ محترم حامد الامدی (مرحوم) کے فن، ان کی شخصیت اور ان کے لکھے ہوئے کنبات سے بہت زیادہ متاثر ہوں، یہی وجہ ہے کہ میں نے استاذ حامد کے اسلوب کو اپنایا۔ ان کے خط میں اس قدر فورس لچک اور لفظوں میں اتنی خوبصورتی اور حسن ہے کہ دنیا کے کسی اور فن کار کے فن میں نہیں ہے۔ خط ثلث کے حوالے سے اگر ان کو خطاطی کا امام کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کے علاوہ اگر دیگر مسلم ممالک کے فن کاروں کا تذکرہ نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی۔ اس لئے کہ اپنے اپنے ملکوں میں ان سب فنکاروں نے حقیقتاً اپنی زندگیاں فن کی خدمت میں صرف کر دیں۔

اس ضمن میں ترکی کے مصطفٰے راقم سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ عبد اللہ زھدی، شفیق آفندی، سامی آفندی، محمد لطیف بک، محمد شوقی، مصر میں سید ابراہیم، محمد حسن مکاوی، محمد ابراہیم سالم، سوریا میں علی بدوی الدیرانی، بشیر الدلبی، عثمان طہ، عبیدہ البنکی، عبد الناصر بشعان، ابرہیم رفاعی، نجیب ھواوینی، ماجد خیاط، ایران میں سرفہرست عماد الحسنی، عباس اخویں، ید اللہ کابلی، حجت اللہ کشفی (ماہر شکستہ) محمد وکیل شفیقی (نستعلیق) غلام حسین امیر خانی، افغانستان میں عزیز الدین وکیلی، عراق کے ہاشم البغدادی، عباس بغدادی، یوسف ذنون، صلاح الدین شہرزاد، مہدی جبوری، امریکہ کے نومسلم محمد ذکریا اور مقبول "الخط العربی" کے مصنف محمد طاہر الکردی کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔

محترم شفیق الزمان بہت سی گوناں گوں کوبیوں کے مالک ہیں۔ وہ جہاں ایک بہت بڑے فنکار کے روپ میں سامنے آئے ہیں وہیں ایک شریف النفس انسان کے حوالے سے بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ جو فن کار ایک دفعہ ان سے مل لیتا ہے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ کم گو اور دھیمے لہبے میں ہر وقت مسکرا کر بات کرنے والا یہ فن کار اپنے اندر فن سے محبت اور فن کی خدمت کرنے کا جذبہ لئے آہستہ آہستہ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔
جائےتو ترکی، مصر، ایران، افغانستان، یمن، سوریا اور عراق میں مشکل ہی سے اس پائے کا کوئی فن کار نظر آئے گا۔ شفیق صاحب کا تعلق نئی نسل سے ہے وہ ابھی بالکل نوجوان ہیں اور اس مختصر سے عمر ہی میں انہوں نے انتھک محنت، ریاضت اور فن سے لگن کا وہ ثبوت فراہم کیا ہے کہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ چند برسوں میں فن خطاطی کے افق پر نمودار ہونے والا یہ مہر عالم تاب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکے گا اور اس کی ضوفشانیوں سے نہ صرف پاکستان منور ہو گا بلکہ اس کی ضیا پاشیاں ایک عالم کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔ جن سے کسب نور کر کے انے والی نسل خطاطی کے میدان میں خوب سے خوب تر کی جانب رواں دواں رہے گی۔

شفیق صاحب نے پاکستان میں عربی خطاطی کو فروغ دینے کے لئے بہت سے دلچسپی رکھنے والے خطاطوں کو اپنا شاگرد بنا لیا ہے۔ اس دفعہ پاکستان آمد پر انہوں نے متعدد شاگردوں کو اصلاح بھی دی ہے۔

فن خطاطی سے دلچسپی رکھنے والے قارئین اور دیگر خطاط محترم شفیق الزماں سے مندرجہ ذیل پتوں کے ذریعے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔

سعودی عرب :
شفیق الزماں
(خطاط حرم النبوی صلی اللہ علیہ وسلم الشریف)
پوسٹ بکس نمبر 20039
المدینہ المنورہ – المملکۃ العربیۃ السعودیۃ۔
فون دفتر : 8242588 (سعودی وقت کے مطابق رات 9 بجے کے بعد)

پاکستان :
شفیق الزماں (خطاط)
کورٹر نمبر 10/3-1-d ملیر ایکسٹنشن کالونی۔
کھوکھراپار نمبر 2، کراچی
فون گھر : 200890
 
Top