یاسر شاہ
محفلین
مرچوں کا فساد
کم کھانے والا گناہوں سے بسہولت بچ سکتا ہے جیسے بڈھا زنا سے آسانی کے ساتھ بچ سکتا ہے - غور سے دیکھا جائے تو سب گناہ زیادہ کھانے ہی کی طرف لوٹتے ہیں -جیسے مولوی سالار بخش صاحب وعظ میں گناہوں کی فہرست گنوا کر فرمایا کرتے تھے کہ یہ سب فساد مرچوں کا ہے -ان کے نزدیک سب گناہ مرچوں ہی کی وجہ سے ہوتے تھے ،لوگ تو اس کو ہنسی میں اڑاتے ہیں مگر میں نے اس کلام کی یہ تاویل کی ہے کہ مرچ سے کھانا لذیذ ہو جاتا ہے اور لذّت کی وجہ سے بہت کھایا جاتا ہے اور بہت کھانا گناہوں کا سبب ہے-اس طرح مرچوں کو اس فساد میں دخل ہو گیا -
خیر مرچوں کا فساد ہو یا نہ ہو لیکن یہ کلام محقق ہے کہ اکثر گناہ زیادہ کھانے سے ہوتےہیں -یہ ساری باتیں مستی ہی میں سوجھتی ہیں کہ کسی کو گھور لیا ،کسی کو چھیڑ دیا -کسی کے عاشق ہوگئے -بھوکے کو یہ مستیاں نہیں سوجھتیں -جس کے گھر میں سال بھر کا غلہ بھرا ہوا ہو وہ تو عورتوں ہی کو گھورے گا اور کیا کرے گا کیونکہ معاش کی طرف سے بے فکری ہے ،کام کچھ ہے نہیں تو اب انھی قصوں میں وقت گزارتے ہیں، ہاں اگر کبھی ان مستوں پر مقدّمات ہو جاتے ہیں ،اس وقت ساری مستی نکل جاتی ہے ،اب نہ کسی کو گھورنے کی مہلت ہے، نہ عشق ظاہر کرنے کی ہمت ہے -ہر وقت مقدّمے کی فکر لگی رہتی ہے اور اس فکر میں کھانا پینا اور سونا بھی حرام ہو جاتا ہے -
اسی لیے بزرگوں نے لکھا ہے کہ انسان کو بے کار نہ رہنا چاہیے -کسی نہ کسی کام میں لگا رہنا چاہیے ،دین کا کام نہ ہو سکے تو دنیا ہی کے کسی مباح کام میں لگا رہے کیونکہ مشغولی میں نفس کو مستی نہیں سوجھتی ،توجہ کام کی طرف رہتی ہے اور بے کاری میں چاروں طرف ذہن دوڑتا ہے ،اس راز کو حکّام نے بھی سمجھا ہے -چنانچہ جو لوگ معطل و بیکار رہتے ہیں ،پولیس زیادہ تر انھی کی نگہداشت میں رہتی ہے اور ایسے ہی لوگوں کا نام آوارہ گردوں میں لکھا رہتا ہے اور جب کوئی واردات ہوتی ہے ایسے ہی لوگوں کو پکڑا جاتا ہے تو گویا حکّام کے نزدیک بھی بے کاری بدمعاشی کا سبب ہے -اور ظاہر بات ہے کہ جس شخص کو کوئی دھندہ ہوگا وہ فضول پھندوں میں کیا خاک پھنسے گا -اسے اپنے کام ہی سے فرصت نہ ہوگی -جس کو ہر روز گھاس کھودنے کی فکر ہے وہ عورتوں کو کہاں گھورنے جائے گا اور یہاں سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے ساتھ کسی فکر کا لگا ہونا بڑی نعمت ہے -یہ بہت سے گناہوں کا وقایہ ہے خواہ دنیا ہی کا فکر ہو -پس غریبوں کو اس نعمت پر شکر کرنا چاہیے کہ حق تعالیٰ نے ان کو بے فکری نہیں دی -امیروں کو دیکھ دیکھ کر غریبوں کی رال ٹپکتی ہے کہ ہائے ہم بھی ایسے ہی بے فکر ہوتے مگر یہ خبر نہیں کہ وہ اس بے فکری سے سینکڑوں گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں -اور تم روٹی کی فکر میں ہزاروں گناہوں سے بچے ہوئے ہو -
خوب کہا ہے :
آنکس کہ تو نگرت نمی گرداند
او مصلحت تو از تو بہتر داند
(جو ذات پاک تجھے امیر نہیں بناتی وہ تیری مصلحت کو تجھ سے زیادہ بہتر جانتی ہے )
زیادہ کھانے میں علاوہ اس نقصان کے کہ وہ گناہوں کا سبب ہوتا ہے اور بھی بہت نقصان ہیں ،چنانچہ اگر کوئی شخص ہمت کر کے گناہوں سے بچا بھی رہے تو یہ نقصان تو اسے بھی ہوگا کہ نیند زیادہ آئے گی -کم کھانے میں نیند کم آتی ہے -پیٹ تن کر جب سوؤ گے تو نیند بھی تن کر آئے گی اور کچھ بھوک رکھ کر کھاؤ گے تو رات میں دو تین دفعہ خود بخود آنکھ کھل جائے گی کیونکہ نیند سے وہ تھوڑا بہت کھانا بھی جو کھایا تھا جلدی ہضم ہو جائے گا پھر جب پیٹ کمر سے لگ جائے گا تو ایک کروٹ پر لیٹا نہ جائے گا-بار بار کروٹیں بدلو گے اور کئی بار آنکھ کھل کھل جائے گی پھر چونکہ یہ مسلمان ہے ،اس لیے ذکر الله میں لگ جائے گا اور سوچے گا کہ یہ وقت اور کسی کام کا تو ہے نہیں اور صبح ہونے میں دیر ہے تو بیکار کیوں جاگیں لاؤ کچھ الله الله ہی کر لو تو کم کھانے والے کو طاعات کی توفیق زیادہ ہوتی ہے اور زیادہ کھانے والا تو صبح کو بھی مشکل سے اٹھے گا ،اس لیے اس شخص کی طاعات بہت کم ہوں گی اور اگر بہت کھانے والا اتفاق سے کسی رات کو جاگ بھی گیا تو کھانے کا کسل ایسا ہوتا ہے کہ اس کو چار پائی سے اٹھنے کی ہمت نہیں ہوتی اور اگر اٹھ بھی گیا اور وضو کر کے نماز یا ذکر میں لگ گیا تو تھوڑی دیر میں نیند کے جھونکے ایسے آئیں گے کہ سجدہ میں پڑ کر خبر بھی نہ رہے گی یا گردن جھکا کر سوتا رہے گا -
شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ ایک نصرانی بادشاہ نے حضور صلّی الله علیہ وسلّم کی خدمت میں ایک طبیب کو بھیجا تھا کہ یہ مدینہ والوں کا علاج کیا کرے گا ،آپ نے طبیب کو واپس کر دیا اور فرمایا کہ ہم لوگ بغیر بھوک کے کھاتے نہیں ہیں اور بھوک رکھ کر کھانا چھوڑ دیتے ہیں اس لیے ہم کو طبیب کی ضرورت نہیں -
واقعی اس دستور العمل پر عمل کر کے دیکھیے سب بیماریاں خود ہی بھاگ جائیں گی ،کبھی اتفاقی طور پر بیماری آ جائے تو اور بات ہے لیکن مجموعہ امراض تو نہ ہوگا مگر آج کل لوگوں کی عادت یہ ہے کہ بھوک لگنے کا کھانا کھانے میں انتظار نہیں کرتے بلکہ اکثر وقت آنے کی رعایت سے کھاتے ہیں کہ کھانا گرم گرم ہے دیر میں کھائیں گے تو ٹھنڈا ہو جائے گا لاؤ ابھی کھا لیں -جی ہاں اس وقت کھانا تو گرم ہے مگر کھانے والا سرد ہی ہو جائے گا کیونکہ بے بھوک کھانے سے حرارت غریزیہ منتفی ہو جاتی ہے معدہ میں تداخل ہو جاتا ہے پہلا کھانا ابھی ہضم نہیں ہوا تھا کہ دوسرا اور پہنچ گیا اب معدہ پریشان ہوتا ہے کہ کسے ہضم کروں
اور خصوصا یہ امراء کے مشیر اپنے پیٹ بھرنے کے لیے انھیں رائے دیتے ہیں کہ نہیں حضور کچھ تو کھا لیجیے ،فاقہ کرنا اچھا نہیں ،تھوڑا بہت کھا کر نمک سلیمانی استعمال کر لیجیے گا یا سوڈے کی بوتل پی لیجیے گا سب ہضم ہو جائے گا -اس پر چاروں طرف سے تائید ہوتی ہے -کثرت رائے کے بعد وہ کھانا آتا ہے -رئیس صاحب تو دو چار ہی لقمے کھاتے ہیں باقی سب ان مشیروں کے پیٹوں میں اترتا ہے پھر اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ رئیس صاحب کا معدہ بھاڑے کا ٹٹو ہو جاتا ہے کہ بدون نمک سلیمانی یا سوڈے کی بوتل کے کھانا ہضم ہی نہیں کر سکتا -بعضے یہ تدبیر کرتے ہیں کہ سالن میں لیموں نچوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں حضور اب کھائیے ،دیکھیے کیسا مزہ آ گیا ہے -لیموں نچوڑنے سے رئیس صاحب کی بھی رال ٹپک پڑتی ہے اور وہ جوں توں کھا لیتے ہیں -
لیموں نچوڑنے پر مجھے ایک لیموں نچوڑ کی حکایت یاد آئی ایک شخص کی عادت تھی کہ وہ سرائے میں بیٹھا رہتا تھا اور دو تین لیموں اپنے پاس رکھتا تھا جب کوئی ذی ثروت مسافر سرائے میں کھانا کھانے بیٹھتا یہ جا کر اس کے پیالے میں لیموں نچوڑ دیتا کہ دیکھیے حضور اس سے سالن کیسا مزہ دار ہو گیا ہے اس کے بعد یا تو وہی ان کو بلا لیتا یا یہ خود ہی کھانے لگتے ،لوگ مروت سے کچھ نہ کہتے اور یہ مفت سفت پیٹ بھر لیا کرتا تھا ،ایک مرتبہ کوئی مسافر دل جلا بھی آ ٹھہرا اس کے پیالے میں جو اس نے لیموں نچوڑا اور ساتھ کھانا شروع کیا تو اس نے زور سے ایک دھپ رسید کیا تو یہ لیموں نچوڑ کیا کہتا ہے کہ میرے ابّا جان بھی مجھے یوں ہی مار مار کر کھلایا کرتے تھے ،آپ نے وہ زمانہ یاد دلا دیا اور بے حیا پھر بھی کھانے سے نہ رکا ،مسافر بھی خاموش ہورہا کہ جب اس نے مجھے باپ بنا لیا تو اب کیا کہوں -واقعی یہ پیٹ بھی سب کچھ کرا دیتا ہے ،کھانے کے حریص کو نہ حیا رہے نہ شرم -
خطبات حکیم الامّت؛ جلد ٣٠ (خیر الاعمال) وعظ :تقلیل الطعام بصورة الصیام ،صفحہ ٨٥