خطِ نستعلیق کے عظیم استاد؛ حکیم محمد رفیع

الف نظامی

لائبریرین
61.jpg
 
میرے استاد بھی نستعلیق میں بہت ماہر تھے، اور کوئٹہ بھر میں سب سے اچھے استاد مانے جاتے تھے نستعلیق کے۔ میں بس کچھ ماہ ہی شاگردی کر پایا، اور غیر مستقل مزاجی آڑے آ گئی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
خطِ نستعلیق کے عظیم استاد؛ حکیم محمد رفیع
گوجرانوالا کی سرزمین کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں پاک و ہند کے عظیم خطاط ہو گزرے ہیں اور تقسیم ہند سے پہلے کتابت کے لیے پورے ہندوستان سے پبلشر گوجرانوالا کا ہی رخ کرتے تھے۔ خاص طور پر کیلیانوالا گوجرانوالا کا ایک ایسا قصبہ ہے کہ جس میں ایسی خواتین کی بھی کوئی کمی نہیں تھی جو قرآنی و کتابی کتابت کے لیے معروف تھیں۔ ضلع گوجرانوالا سے محمد یوسف دہلوی ، حاجی محمد دین ، سید احمد ایمن آبادی ، خطاطِ مشرق عبد المجید پرویں رقم ، حافظ نور احمد جیسے خطاط ہو گزرے ہیں۔ انہیں اساتذہ میں ایک معروف نام حکیم محمد رفیع کا بھی ہے جن کا خطِ نستعلیق اپنی مثال آپ تھا۔ آپ خطاطِ مشرق عبد المجید پرویں رقم کے ماموں زاد بھائی تھے اور انہیں جناب پرویں رقم کے ساتھ بیٹھ کر مشق کرنے کا موقع بھی ملا۔
حکیم محمد رفیع صاحب نے خطاطی کا فن اپنے والد گرامی میاں امام دین سے حاصل کیا جو اپنے وقت کے قرآنی خطاطی کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ حکیم صاحب نے اپنے گاوں کگو سے ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور دورانِ تعلیم ہی خطاطی کے فن میں مہارت حاصل کی۔ بہت سی روایات ملتی ہیں کہ سکول کے ممتحن ان کا حُسنِ خط دیکھ کر پڑھے بغیر ہی نمبر لگا دیا کرتے تھے۔
حکیم صاحب نے حکمت کی تعلیم طبیہ کالج دہلی سے حاصل کی اور پھر پوری زندگی حکمت کو بطور پیشہ اپنایا۔ حکمت و طب میں بھی آپ خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔وہ بے لوث تھے اور تمام عمر خدمتِ خلق کو ہی زندگی کا مقصد بنایا۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو اور سکھ بھی حکیم صاحب کا احترام کیا کرتے تھے۔
پھول بچو! فنِ خطاطی میں آپ نے بے شمار قطعات لکھے مگر گاوں میں رہنے کی وجہ سے اُن کو وہ شہرت نہ مل سکی جو ان کے ہم عصر خطاطوں کے حصہ میں آئی لیکن فنی مرتبہ کے اعتبار سے آپ کا معیار خط کسی بھی بڑے خطاط سے کم نہ تھا۔ ان کے دائرے ، کرسیاں اور سطر بندی سب ہی اپنی جگہ دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ قلم کو ایک ہی بار لگاتے تھے اور وہ موتیوں کی طرح الفاظ و حروف بناتے ہوئے کاغذ پر چلتا جاتا تھا۔ انہیں نام و نمود سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور بے لوث ہو کر خطاطی کے شائقین کو پوری شفقت سے تربیت دیتے تھے۔
عربی کا ایک مقولہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے " جب میں ایک سطر لکھتا ہوں تو میری زندگی سے ایک سطر کم ہو جاتی ہے" حکیم صاحب اپنی ہر سطر اور لفظ کو پورے خلوص سے لکھتے تھے۔ روایت کے مطابق آپ قلم کا قط بالکل سیدھا رکھتے تھے۔ پورے برصغیر میں آپ کے چاہنے والوں کی ایک کثیر تعاد موجود ہے۔ حکیم صاحب کے فن پاروں کو میوزیم کی زینت ہونا چاہیے تا کہ ان کے حُسنِِ خط کو ایک قومی میراث کے طور پر محفوظ کیا جاسکے۔ مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ارباب اقتدار کو اپنی سرزمین سے کوئی نسبت دکھائی نہیں دیتی وہ غیر ملکی و انگریزی تہذیب و تمدن اور کلچر کے فروغ کے لیے ہر وقت پھرتی سے عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کی توہین ہو رہی ہے۔
پیارے بچو! یہ سرزمین وطن ، یہ قوم آپ کی منتظر ہے کہ کب قوم کے نونہال آزادی کا مفہوم سمجھیں گے اور اپنے پیارے وطن کو اپنے قابل فخر ہنر مندوں اور عظیم لوگوں سے متعارف کروائیں گے۔ خطاطی کو اس کا مناسب مقام دلوانے کے لیے یہ فن آپ کی راہ دیکھ رہا ہے۔
حکیم صاحب نے پوری زندگی خدمت کرتے ہوئے 80 کی دہائی میں وفات پائی اور وہیں اپنے گاوں میں خاک نشیں ہوئے مگر ان کے فن پارے ضلع گوجرانوالا میں پورے پاکستان کے ایک عظیم ورثہ کے طور پر زندہ و پائندہ رہیں گے۔
 
آخری تدوین:
Top