Rashid Ashraf
محفلین
راولپنڈی کے ادبی جریدے چہار سو کا ستمبر۔اکتوبر2011کا شمارہ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ مذکورہ شمارے میں کینیڈا میں مقیم شاعر، ادیب، افسانہ نگار عبداللہ جاوید اور ان کی اہلیہ شہناز خانم عابدی کو قرطاس اعزاز پیش کیا گیا ہے۔ ایک علاحدہ گوشے میں عبداللہ جاوید کے طویل انٹرویو اور افسانے کے علاوہ عبداللہ جاوید کے کمال فن پر اقبال بھٹی، گلزار جاوید، ستیہ پال آنند، صابر وسیم،اے خیام، مبین مرزا، اکرام بریلوی و دیگر کی آراء شامل کی گئی ہیں۔ادبی جریدوں میں مختلف شعراء و ادباء کے فن اور شخصیت پر خصوصی گوشے شامل کرنے کی روایت زور پکڑتی جارہی ہے۔ ہم ایسے گوشہ نشین شخص کے لیے تو یہ گوشے بہت معلوماتی ہوتے ہیں، اس طرح گھر بیٹھے بیٹھے گوشہ گمنامی میں پڑے کسی شاعر یا ادیب سے تعارف ہوجاتا ہے۔لیکن اس مرتبہ اکتوبر2011 میں کراچی میں ا یکسپریس اخبار کے زیر اہتمام منعقد ہوئی عالمی اردو کانفرنس میں بھارت سے آئی ہوئی محترمہ جیلانی بانو کا ان ادبی گوشوں کے بارے میں موقف سخت تھا، ان کے مطابق ادبی جرائد میں ان گوشوں کی تواتر کے ساتھ اشاعت پڑھنے والوں کو اکتاہٹ میں مبتلا کررہی ہے اور یہ تمام معاملہ ذاتی تعلقات کی بنیادوں پر انجام پاتا ہے۔
بعض لوگوں کے خیال سے ادبی گوشوں میں ادباء اور شعراء کو قید کرنے سے بہتر ان کی تصانیف کی تقریب رونمائی ہوٹل وغیرہ میں کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے ، جہاں لذت کام و دہن کا بھی معقول انتظام رہتا ہے۔ فروری 1966 میں شمس الرحمان فاروقی کے جریدے شب خون کی تقریب اجراء بھی الہ آباد کے گذدرنامی ریسٹورنٹ میں منعقد کی گئی تھی۔ اس کی تازہ مثال انیس جون2010 کو ٹورنٹو میں ممتاز ادیبہ شکیلہ رفیق کی آٹھویں کتاب ’وے صورتیں الہی ‘ کی تقریب تعارف ہے جو ٹورنٹو کے’’تندوری چکن ریسٹورنٹ‘‘ میں منعقد کی گئی تھی۔ کتاب میں جنس کے موضوع پر افسانے شامل ہیں ، شاید اسی مناسبت سے یہ تقریب ’تندوری چکن ریسٹورنٹ ‘میں رکھی گئی تھی ۔ کتابیں تو روزانہ درجنوں کے حساب سے شائع ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن ایسی جگہوں پر تقریبات منعقد کرنے کا اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شرکاء کو کتاب کے مندرجات بے شک یاد رہیں یا نہ رہیں، تندوری چکن کا ذائقہ ایک عرصے تک یاد رہتا ہے۔ یہاں ہزاروں میل دور کراچی میں بیٹھ کر ہم نے کتاب پڑھی اور تندوری چکن کا لطف پایا۔ تقریب مذکورہ کا حاصل عابدہ کرامت کا وہ تبصرہ تھا جس میں انہوں نے شکیلہ رفیق کے بارے میں فرمایاکہ ’ ’ وہ منافقت کا دوپٹہ نہیں اوڑھ سکتی اور اگر ضرورتا اوڑھنا ہی پڑے تو اس کے آنچل سے سر نہیں ڈھک سکتی‘‘۔ شکیلہ رفیق صاحبہ نے کب اور کن موقعوں پر ضرورتا منافقت کا دوپٹہ اوڑھا ہے، عابدہ کرامت نے ان کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی۔ اس پر ستم یہ رہا کہ تقریب کے اختتام پر شکیلہ رفیق نے عابدہ کرامت کے بارے میں حاضرین کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ ’اتنا اندر سے تو انہیں ان کے اپنے بھی نہ سمجھ پائے جتنا عابدہ کرامت نے انہیں سمجھا ہے،‘‘
بات ہورہی تھی چہار سو اور عبداللہ جاوید صاحب کی۔ جاوید صاحب کی کتاب بیاد اقبال1968 میں منظر عام پر آئی تھی، شاعری پر طبع آزمائی کا نتیجہ1969 میں موج صد رنگ کی اشاعت کی صورت میں نکلا۔قلم آزمائی کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور2010میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’بھاگتے لمحے‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بعض حاسدوں کا کہنا ہے کہ یہ کتاب بھاگتے ہوئے لکھی گئی ہے اور بھاگتے ہوئے ہی پڑھی جانی چاہیے ۔ اس بھاگ دوڑ میں ہم کہاں سے کہاں نکل گئے، ذکر ہے عبداللہ جاوید اور چہا ر سو کابلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اب چہارسو عبداللہ جاوید کا ہی ذکر ہے۔
جریدے کے ابتدا میں شامل انٹرویو میں جناب گلزار جاوید نے عبداللہ جاوید کے شعر:
لاکھ اڑتی پھرے خلاؤں میں
فکر ہم شاعروں کی زد میں ہے
کا حوالہ دیا اور ان پر الزام لگایا کہ اس بارے میں وہ تعلی کا شکار ہیں۔
جواب میں عبداللہ جاوید نے اپنے دفاع میں خلاؤں میں اڑتی فکر کا ہی سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم شاعروں سے میری مراد اردو میں میر، غالب اور اقبال ہیں، دنیا کی دوسری زبانوں کے اکابر شاعر ہیں، میں ان کی جوتیوں کے آس پاس کہیں ہونے کا عرض گزار ہوں۔‘‘
خلاؤں میں اڑتی فکروں کا ہمہ وقت شاعر کی زد میں رہنا ایک قابل قدر دعوی ہے لیکن ساتھ ہی شاعر کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خلاؤں میں اڑتی ہوئی چیزیں اکثر کشش ثقل سے باہر نکل جاتی ہیں اور شاعر تو ایک طرف رہے، سائنسدانوں کے قابو سے بھی باہر ہوجاتی ہیں۔ امریکیوں نے خلاؤں میں اڑتی پھرتی ایسی چیزوں کو یو ایف او یعنی
Unidentified Flying Object
کا نام دیا ہے۔اردو اور دنیا کی دیگر زبانوں کے اکابر شعراء کی تعداد سینکڑوں میں پہنچتی ہے اور اگر ان کی جوتیوں کو جمع کرلیا جائے تو ہزاروں کی تعداد بنتی ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ ان شعراء کرام کے آس پاس رہنے کی کوشش کی جاتی نہ کہ ان کی ہزارہا جوتیوں کے ۔
بعض لوگوں کے خیال سے ادبی گوشوں میں ادباء اور شعراء کو قید کرنے سے بہتر ان کی تصانیف کی تقریب رونمائی ہوٹل وغیرہ میں کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے ، جہاں لذت کام و دہن کا بھی معقول انتظام رہتا ہے۔ فروری 1966 میں شمس الرحمان فاروقی کے جریدے شب خون کی تقریب اجراء بھی الہ آباد کے گذدرنامی ریسٹورنٹ میں منعقد کی گئی تھی۔ اس کی تازہ مثال انیس جون2010 کو ٹورنٹو میں ممتاز ادیبہ شکیلہ رفیق کی آٹھویں کتاب ’وے صورتیں الہی ‘ کی تقریب تعارف ہے جو ٹورنٹو کے’’تندوری چکن ریسٹورنٹ‘‘ میں منعقد کی گئی تھی۔ کتاب میں جنس کے موضوع پر افسانے شامل ہیں ، شاید اسی مناسبت سے یہ تقریب ’تندوری چکن ریسٹورنٹ ‘میں رکھی گئی تھی ۔ کتابیں تو روزانہ درجنوں کے حساب سے شائع ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن ایسی جگہوں پر تقریبات منعقد کرنے کا اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شرکاء کو کتاب کے مندرجات بے شک یاد رہیں یا نہ رہیں، تندوری چکن کا ذائقہ ایک عرصے تک یاد رہتا ہے۔ یہاں ہزاروں میل دور کراچی میں بیٹھ کر ہم نے کتاب پڑھی اور تندوری چکن کا لطف پایا۔ تقریب مذکورہ کا حاصل عابدہ کرامت کا وہ تبصرہ تھا جس میں انہوں نے شکیلہ رفیق کے بارے میں فرمایاکہ ’ ’ وہ منافقت کا دوپٹہ نہیں اوڑھ سکتی اور اگر ضرورتا اوڑھنا ہی پڑے تو اس کے آنچل سے سر نہیں ڈھک سکتی‘‘۔ شکیلہ رفیق صاحبہ نے کب اور کن موقعوں پر ضرورتا منافقت کا دوپٹہ اوڑھا ہے، عابدہ کرامت نے ان کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی۔ اس پر ستم یہ رہا کہ تقریب کے اختتام پر شکیلہ رفیق نے عابدہ کرامت کے بارے میں حاضرین کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ ’اتنا اندر سے تو انہیں ان کے اپنے بھی نہ سمجھ پائے جتنا عابدہ کرامت نے انہیں سمجھا ہے،‘‘
بات ہورہی تھی چہار سو اور عبداللہ جاوید صاحب کی۔ جاوید صاحب کی کتاب بیاد اقبال1968 میں منظر عام پر آئی تھی، شاعری پر طبع آزمائی کا نتیجہ1969 میں موج صد رنگ کی اشاعت کی صورت میں نکلا۔قلم آزمائی کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور2010میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’بھاگتے لمحے‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بعض حاسدوں کا کہنا ہے کہ یہ کتاب بھاگتے ہوئے لکھی گئی ہے اور بھاگتے ہوئے ہی پڑھی جانی چاہیے ۔ اس بھاگ دوڑ میں ہم کہاں سے کہاں نکل گئے، ذکر ہے عبداللہ جاوید اور چہا ر سو کابلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اب چہارسو عبداللہ جاوید کا ہی ذکر ہے۔
جریدے کے ابتدا میں شامل انٹرویو میں جناب گلزار جاوید نے عبداللہ جاوید کے شعر:
لاکھ اڑتی پھرے خلاؤں میں
فکر ہم شاعروں کی زد میں ہے
کا حوالہ دیا اور ان پر الزام لگایا کہ اس بارے میں وہ تعلی کا شکار ہیں۔
جواب میں عبداللہ جاوید نے اپنے دفاع میں خلاؤں میں اڑتی فکر کا ہی سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم شاعروں سے میری مراد اردو میں میر، غالب اور اقبال ہیں، دنیا کی دوسری زبانوں کے اکابر شاعر ہیں، میں ان کی جوتیوں کے آس پاس کہیں ہونے کا عرض گزار ہوں۔‘‘
خلاؤں میں اڑتی فکروں کا ہمہ وقت شاعر کی زد میں رہنا ایک قابل قدر دعوی ہے لیکن ساتھ ہی شاعر کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خلاؤں میں اڑتی ہوئی چیزیں اکثر کشش ثقل سے باہر نکل جاتی ہیں اور شاعر تو ایک طرف رہے، سائنسدانوں کے قابو سے بھی باہر ہوجاتی ہیں۔ امریکیوں نے خلاؤں میں اڑتی پھرتی ایسی چیزوں کو یو ایف او یعنی
Unidentified Flying Object
کا نام دیا ہے۔اردو اور دنیا کی دیگر زبانوں کے اکابر شعراء کی تعداد سینکڑوں میں پہنچتی ہے اور اگر ان کی جوتیوں کو جمع کرلیا جائے تو ہزاروں کی تعداد بنتی ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ ان شعراء کرام کے آس پاس رہنے کی کوشش کی جاتی نہ کہ ان کی ہزارہا جوتیوں کے ۔
- Hide quoted text -
شاعری درحقیقت ہے کیا ، عبداللہ جاوید اس بارے میں مفاہیم و مطالب کو پانی پانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ شاعری وہ ہے جو لفظوں کے لبالب بھرے ہوئے کوزوں میں ہر عصر کی مکانی و زمانی حقیقتوں کے وجدان کو ممکنہ حد تک لامکانی و لازمانی وجدان کے ارتسامات سے برقیا کر،بوند بوند داخل کرے ‘‘
جناب عبداللہ جاوید نے ٹھیک ہی تو کہا ہے، کوزے میں ہر عصر کی مکانی و زمانی حقیقتوں کو برقیا کر بوند بوند داخل کرنے سے اس قسم کی معنی خیر شاعری وجود میں آتی ہے:
پھول پہ رکھ کر پاؤں
جب واجا نے مونچھ مروڑی
رویا سارا گاؤں
اس کلام سے یہ واضح نہیں ہوا کہ واجا نے درحقیقت اپنی مونچھ مروڑی تھی یا گاؤں والوں کی۔ عبداللہ جاویدکی اس تین سطری نظم کو پڑھ کر گاؤں والوں کے ساتھ ساتھ ان کا قاری بھی بے اختیار رو پڑتا ہے!
اس رجحان ساز انٹرویو میں عبداللہ جاوید مزید کہتے ہیں کہ’ ’ میرے مزاج میں شہرت گریزی اتنی زیادہ ہے کہ جہاں دھماکہ کرنا لازمی تھا، وہاں بھی دھماکہ نہ کیا‘ ‘
جناب عبداللہ جاوید نے دھماکہ نہ کرکے عقل مندی سے کام لیا ہے، صرف پاکستان ہی ایسی جگہ ہے جہاں آپ کہیں ،کسی وقت بھی دھماکہ کرسکتے ہیں، کینیڈا میں اس قسم کی کوشش کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔
عبداللہ جاویدمزید فرماتے ہیں:
’’ میرا پہلا شعری مجموعہ 1969میں شائع ہوا، اس میں شامل نظموں اور غزلوں کو ساٹھ کی دہائی میں منظر عام پر آنے والے دیگر شعری مجموعوں کے مشمولات کے ساتھ رکھ کر دیکھنے پر میں خود بھی اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ میرے پاس بہت کچھ ہٹا ہوا، اجنبی اجنبی سا، نیا نیا سا ہے۔میں نے زبان کو اردو فارسی کی حدود سے ممکنہ حد تک باہر نکال کر اردو ہندی میں ڈھانے کی کوشش کی۔موضوعات میں حسن قاتل کا موضوع میری نظموں کے واسطے سے اردو میں پہنچا۔وقت کے موضوع پر میرے نظریات علامہ اقبال کے سلسلہ روز و شب کی موجودگی میں بھی ایک علیحدہ مقام بنا چکے ہیں‘‘
عبداللہ جاوید1960میں کی گئی اپنی شاعری کو خود ہی اجنبی اجنبی سا قرار دے چکے ہیں۔ جن لوگوں نے جناب عبداللہ جاوید کے پہلے شعری مجموعے کا مطالعہ کیا ہے ان کا یہ خیال ہے کہ آج اکیاون برس گزر جانے بعد بھی یہ’ اجنبیت ‘اسی شان سے قائم ہے۔
گلزار جاوید نے اس انٹرویو میں طرح طرح کے سوالات سے جاوید صاحب کو دق کیے رکھا، چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
۔احباب کی ایک معقول تعداد آپ کے تجربات کی طرف بھی توجہ دلایا کرتی ہے مگر نشان دہی کوئی نہیں کرتا کہ آپ کو کب، کہاں ، کس نوعیت کے تجربات کا وقت میسر رہا ؟
۔آپ کے یہاں الفاظ کا دائرہ اکثر بحور سے وسیع کیوں کر ہوتا ہے ؟
۔کچھ لوگوں کے خیال میں آپ نے اپنی ایک دنیا بنا لی ہے جس سے باہر آنا آپ پسند نہیں کرتے ؟
۔اگر کوئی شخص آپ کے کلام میں طنز، تلخی اور چراندھ کی نشان دہی کرے تو آپ کا جواب کیا ہوگا ؟
۔آپ کو مظہر جان جاناں ، نیاز بریلوی، عبد الحئی تاباںاور میر درد کا سفیر گرداننے والے کس امر کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں ؟
۔آپ کے تخلیقی سفر میں طویل وقفے کی بابت قاری قطعی طور پر کیوں بے خبر ہے ؟
۔ کچھ لوگوں کے خیا ل میں آپ نے اپنی بیگم کو بطور افسانہ نگار تسلیم کرانے کی غرض سے خود کو افسانہ نگاری سے اس وقت تک دور رکھا جب تک بیگم صاحبہ مستند افسانہ نگار تسلیم نہ کرلی گئیں ؟
جناب عبداللہ جاوید ان سوالات سے ہرگز پریشان نہیں ہوئے بلکہ اپنے جوابات سے انہوں نے قاری کو پریشان کردیا، چند متفرق مثالیں ملاحظہ ہوں:
۔میری شاعری، میرے افسانے اورمیری تحریر قاری کو میری اپنی دنیا میں لے آتی ہے، مجھے اور کیا چاہیے۔
۔قاری ہی کو تھوڑا تھوڑا کرکے مجھے سمجھنا پڑے گا،اگر ہر قرات پر قاری مجھ میں کچھ نیا دریافت کرے گا تو اس کو نئی حیرانی اور نئی خوشی ملے گی۔
۔میر درد تکیہ صوفی بزرگ تھے،میں بھی تصوف سے عملی طور پر جڑا ہوں لیکن پورا شاعر ہوں۔میر نے درد کو آدھا شاعر مانا تھا۔
۔میں خود بھی نہایت چھوٹے درجے کا صوفی ہوںاور وہ بھی صوفیائے ملامیہ کے اڑوس پڑوس والا۔
۔مجھے زیادہ سطح کے اوپر اوپر ہی دیکھا اور جانچا جارہا ہے۔
جناب عبداللہ جاوید کا یہ کہنا کہ ’قاری ہی کو تھوڑا تھوڑا کرکے مجھے سمجھنا پڑے گا اگر ہر قرات پر قاری مجھ میں کچھ نیا دریافت کرے گا تو اس کو نئی حیرانی اور نئی خوشی ملے گی‘ ، قاری کو ایک کھٹن امتحان میں ڈالنے کے مترادف ہے۔گویا مظلوم قاری کو دنیا میں اور کوئی کام ہی نہیں ہے، دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قاری کو شاعر پہلی کوشش میں ہرگز سمجھ میں نہیں آئے گا ، اسے اپنی تمام مصروفیات کو پس پشت ڈال کر شاعر کو روزانہ تھوڑا تھوڑا سمجھنا چاہیے، شاید وہ دس بیس سال میں وقفے وقفے سے کچھ سمجھ پائے اور جب جب ایسا ہوگا ، بقول شاعر ، قاری کو ایک نئی حیرت اور نئی خوشی ملے گی، یہاں اس بات کا ڈر لاحق ہوتا نظر آرہا ہے کہ اس قدر ان گنت خوشیاں سمیٹتے سمیٹتے کہیں قاری شادی مرگ کی کیفیت سے دوچار نہ ہوجائے۔