فخرنوید
محفلین
خلیفہ کسے کہتے ہیں؟
اب ےہاںدوباتےں قابل غورہےں کہ خلےفہ کس کو کہتے ہےں اوراللہ نے ساری مخلوق مےں صرف انسان کوخلےفہ کےوںبناےا؟
قارئےن محترم!لفظ خلےفہ خَل±فµ سے بناہے اورخَلِے±فَةµبروزن فَعِے±لَةµخلےفہ کالفظی معنی ہے پےچھے آنے والا،نائب ،قائم مقام ،جانشےن ۔ جوکسی کی نےابت مےں اس والے کام کرنے والا ہواسکو اسکا خلےفہ کہاجاتاہے۔اگرانسان کے اندرےہ صلاحےت ہی نہ ہو کہ اللہ کے تمام امورِ حکمت اورجملہ کمالات بندے سے ظاہر ہوں تواس کو خلےفہ بنانے کا مطلب ہی ظاہر نہےں ہوتا۔اس منصب کےلئے انسان کے انتخاب کی وجہ ےہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے علاوہ جتنی مخلوق ہے اسکی استعداد ،علم اور اس کادائرہ عمل محدودہے اورجس کی محدودےت کاےہ عالم ہووہ اس ذات پاک کا خلےفہ نہےں بن سکتاجسکا علم،ارادہ ،احکام اورتصرف غےرمحدود ہے ۔لےکن انسان جوا بتداءمےں ضعےف بھی ہے اور جہولبھی ، اس مےں وہ استعداد رکھ دی گئی ہے اورعقل وفہم کی وہ قوتےں و دےعت فرمادی گئی ہےں جن کے تصرفات کی حد نہےں۔اس لئے جملہ مخلوقات میںسے صرف ےہی اےک مخلوق اےسی ہے جو منصب خلافت کی اہلےت رکھتی ہے....جبکہ علماءربانےےننے اس مشت خاک مےں پنہاں توانائےوںسے جےسے پردہ اٹھاےا ہے اسکی گردراہ کو بھی نفسےات انسانی کے ماہرےن نہےںپہنچ سکے۔(ضےاءالقرآن ۱/۶۴)
بندہ کمالات خداوندی کامظہرہے چاہے اس کا اظہارمعجزہ کی صورت مےں ہوےا کرامت کیصورت مےں یہ کمالات قدرت اگرنبی کے ہاتھ سے ظاہرہوں تو معجزہ ہے اور کسی ولی کے ہاتھوں سے اللہ کاکمال ظاہر ہوتو اسکا نام کرامت ہے۔
انسان کوخلیفہ کیوں بنایاگیا....؟
اب سوال یہ ہے کہ اللہ نے جنات کواپناخلیفہ کےوںنہےں بنایاحالانکہ وہ بڑی قوت کے مالک تھے....فرشتوںمےں سے کسی کواپناخلیفہ نہیں بنایا حالانکہ وہ بڑے ہی پارسااورحکم پرمامور تھے ....ان سب کو چھوڑکرصرف انسان کواپناخلےفہ بناےا....آخر اس میں حکمت کیاہے؟
اس سوال کاجواب دےتے ہوئے حضرت علامہ قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمة اللہ علےہ ےوںفرماتے ہےں کہ انسان کودووجوہات کی بناءپرےہ شرف ملا
۱۔ خلےفہ سے مراد حضرت آدم علےہ السلام ہےںکےونکہ وہ احکام الہٰےہ اورضوابط کے اجراءاور بندوںکی رشدوہداےت اورمراتب قرب پرفائز کرانے کےلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلےفہ تھے۔ ان کو خلےفہ بنانے کی وجہ ےہ نہےں تھی کہ اللہ رب العزت کو انکی حاجت تھی ....ہرگزنہےںکےونکہ وہ توغنی اوربے نےازہے۔ اسکوکسی شئے کی حاجت نہےں۔
۲۔ حضرت آدم علےہ السلام اس لئے لوگوںکےلئے خلےفہ بنائے گئے کےونکہ وہ حق تعالیٰ سے بلاواسطہ مستفےض نہےں ہو سکتے تھے اورنہ ہی اسکے امرونہی کوبلا وسےلہ اخذکرسکتے تھے۔خلیفہ اول حضرت آدم علےہ السلام ہوئے پھرانکے بعد ہرنبی خداکاخلیفہ ہوا۔(تفیسر مظہری اردو:۶۷)
معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق مےںسب سے افضل اوراعلیٰ مخلوق انسان ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت کی ذمہ داری نہ فرشتوںکو سونپی نہ جنوںکو اورنہ ہی کسی اورمخلوق کو عطافرمائی بلکہ انسان ہی اللہ کاخلےفہ ہے اورانسان کوہی رب نے اپنانائب کہاہے ۔
حقےقت ےہ ہے کہ انسان اےک اےسانسخہ¿ جامعہ ہے جو عناصراربعہ سے مرکب ہوکر ےہ شان رکھتاہے کہ اس کے اندرتمام صلاحےتےں موجود ہےں جوعلےحدہ علےحدہ اللہ کی ہرمخلوق مےں ہےں۔ساری کائنات کی صلاحےتےں سمےٹ کراگر کسی اےک جگہ رکھ دی جائےں تواس کانام انسان ہے ۔فرشتوںکے کمالات لے لےں.... جنوںکی طاقت لے لےں....ہرمخلوق کے اندرجوجوہرقابل ہے ....جوستعدادہے ....جو استطاعت ہے....جوکمال ہے....وہ ہر کمال اللہ نے انسان مےںرکھ کراس کو مجمع الکمالات بنادےاہے۔
انسان کی اجزائے ترکےبی
انسان دوچےزوںسے مرکب ہے اےک اسکی صورت ہے.... اےک اسکی روح ہے ۔ دوسرے لفظوںمےںےوںسمجھےںکہ اےک ہے عالم ناسوت اوراےک ہے عالم ملکوت ۔
انسان کی صورت ، عالم ظاہر کی جامع ہے اورعالم ناسوت سارے کاسارااس صورت کے اندرپوشےدہ ہے ۔اسی طرح عالم ملکوت کی ساری صلاحےتےں انسان کی روح مےں پوشےدہ ہےں۔پھراللہ رب العزت نے انسان کے اندراک جوہر رکھاہے جس کولطےفہ¿ قلب کہتے ہےں۔ عارف کامل حضرت شےخ اسماعےل حقی رحمة اللہ علےہ انسان کی حقےقت پر ےوںرقمطراز ہےں
ان فی الانسان صورة من عالم الشہادة المحسوسة وروحامن عالم الغےب الملکوتیّ غےرالمحسوس وسرّا مستعدالقبول فےض الانوارالالٰھےّة
ےعنی انسان مختلف عناصرسے مرکب ہے ۔اسکی صورت کاتعلق عالم محسوس سے ہے اوراسکی روح کاتعلق عالم غےب ملکوتی سے ہے نےز اس مےں اےک پوشےدہ قوت (لطےفہ قلب) ہے جوانوار ربانی کے فےض کوقبول کرنے کی استعداد رکھتی ہے۔
اب ےہاںدوباتےں قابل غورہےں کہ خلےفہ کس کو کہتے ہےں اوراللہ نے ساری مخلوق مےں صرف انسان کوخلےفہ کےوںبناےا؟
قارئےن محترم!لفظ خلےفہ خَل±فµ سے بناہے اورخَلِے±فَةµبروزن فَعِے±لَةµخلےفہ کالفظی معنی ہے پےچھے آنے والا،نائب ،قائم مقام ،جانشےن ۔ جوکسی کی نےابت مےں اس والے کام کرنے والا ہواسکو اسکا خلےفہ کہاجاتاہے۔اگرانسان کے اندرےہ صلاحےت ہی نہ ہو کہ اللہ کے تمام امورِ حکمت اورجملہ کمالات بندے سے ظاہر ہوں تواس کو خلےفہ بنانے کا مطلب ہی ظاہر نہےں ہوتا۔اس منصب کےلئے انسان کے انتخاب کی وجہ ےہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے علاوہ جتنی مخلوق ہے اسکی استعداد ،علم اور اس کادائرہ عمل محدودہے اورجس کی محدودےت کاےہ عالم ہووہ اس ذات پاک کا خلےفہ نہےں بن سکتاجسکا علم،ارادہ ،احکام اورتصرف غےرمحدود ہے ۔لےکن انسان جوا بتداءمےں ضعےف بھی ہے اور جہولبھی ، اس مےں وہ استعداد رکھ دی گئی ہے اورعقل وفہم کی وہ قوتےں و دےعت فرمادی گئی ہےں جن کے تصرفات کی حد نہےں۔اس لئے جملہ مخلوقات میںسے صرف ےہی اےک مخلوق اےسی ہے جو منصب خلافت کی اہلےت رکھتی ہے....جبکہ علماءربانےےننے اس مشت خاک مےں پنہاں توانائےوںسے جےسے پردہ اٹھاےا ہے اسکی گردراہ کو بھی نفسےات انسانی کے ماہرےن نہےںپہنچ سکے۔(ضےاءالقرآن ۱/۶۴)
بندہ کمالات خداوندی کامظہرہے چاہے اس کا اظہارمعجزہ کی صورت مےں ہوےا کرامت کیصورت مےں یہ کمالات قدرت اگرنبی کے ہاتھ سے ظاہرہوں تو معجزہ ہے اور کسی ولی کے ہاتھوں سے اللہ کاکمال ظاہر ہوتو اسکا نام کرامت ہے۔
انسان کوخلیفہ کیوں بنایاگیا....؟
اب سوال یہ ہے کہ اللہ نے جنات کواپناخلیفہ کےوںنہےں بنایاحالانکہ وہ بڑی قوت کے مالک تھے....فرشتوںمےں سے کسی کواپناخلیفہ نہیں بنایا حالانکہ وہ بڑے ہی پارسااورحکم پرمامور تھے ....ان سب کو چھوڑکرصرف انسان کواپناخلےفہ بناےا....آخر اس میں حکمت کیاہے؟
اس سوال کاجواب دےتے ہوئے حضرت علامہ قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمة اللہ علےہ ےوںفرماتے ہےں کہ انسان کودووجوہات کی بناءپرےہ شرف ملا
۱۔ خلےفہ سے مراد حضرت آدم علےہ السلام ہےںکےونکہ وہ احکام الہٰےہ اورضوابط کے اجراءاور بندوںکی رشدوہداےت اورمراتب قرب پرفائز کرانے کےلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلےفہ تھے۔ ان کو خلےفہ بنانے کی وجہ ےہ نہےں تھی کہ اللہ رب العزت کو انکی حاجت تھی ....ہرگزنہےںکےونکہ وہ توغنی اوربے نےازہے۔ اسکوکسی شئے کی حاجت نہےں۔
۲۔ حضرت آدم علےہ السلام اس لئے لوگوںکےلئے خلےفہ بنائے گئے کےونکہ وہ حق تعالیٰ سے بلاواسطہ مستفےض نہےں ہو سکتے تھے اورنہ ہی اسکے امرونہی کوبلا وسےلہ اخذکرسکتے تھے۔خلیفہ اول حضرت آدم علےہ السلام ہوئے پھرانکے بعد ہرنبی خداکاخلیفہ ہوا۔(تفیسر مظہری اردو:۶۷)
معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق مےںسب سے افضل اوراعلیٰ مخلوق انسان ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت کی ذمہ داری نہ فرشتوںکو سونپی نہ جنوںکو اورنہ ہی کسی اورمخلوق کو عطافرمائی بلکہ انسان ہی اللہ کاخلےفہ ہے اورانسان کوہی رب نے اپنانائب کہاہے ۔
حقےقت ےہ ہے کہ انسان اےک اےسانسخہ¿ جامعہ ہے جو عناصراربعہ سے مرکب ہوکر ےہ شان رکھتاہے کہ اس کے اندرتمام صلاحےتےں موجود ہےں جوعلےحدہ علےحدہ اللہ کی ہرمخلوق مےں ہےں۔ساری کائنات کی صلاحےتےں سمےٹ کراگر کسی اےک جگہ رکھ دی جائےں تواس کانام انسان ہے ۔فرشتوںکے کمالات لے لےں.... جنوںکی طاقت لے لےں....ہرمخلوق کے اندرجوجوہرقابل ہے ....جوستعدادہے ....جو استطاعت ہے....جوکمال ہے....وہ ہر کمال اللہ نے انسان مےںرکھ کراس کو مجمع الکمالات بنادےاہے۔
انسان کی اجزائے ترکےبی
انسان دوچےزوںسے مرکب ہے اےک اسکی صورت ہے.... اےک اسکی روح ہے ۔ دوسرے لفظوںمےںےوںسمجھےںکہ اےک ہے عالم ناسوت اوراےک ہے عالم ملکوت ۔
انسان کی صورت ، عالم ظاہر کی جامع ہے اورعالم ناسوت سارے کاسارااس صورت کے اندرپوشےدہ ہے ۔اسی طرح عالم ملکوت کی ساری صلاحےتےں انسان کی روح مےں پوشےدہ ہےں۔پھراللہ رب العزت نے انسان کے اندراک جوہر رکھاہے جس کولطےفہ¿ قلب کہتے ہےں۔ عارف کامل حضرت شےخ اسماعےل حقی رحمة اللہ علےہ انسان کی حقےقت پر ےوںرقمطراز ہےں
ان فی الانسان صورة من عالم الشہادة المحسوسة وروحامن عالم الغےب الملکوتیّ غےرالمحسوس وسرّا مستعدالقبول فےض الانوارالالٰھےّة
ےعنی انسان مختلف عناصرسے مرکب ہے ۔اسکی صورت کاتعلق عالم محسوس سے ہے اوراسکی روح کاتعلق عالم غےب ملکوتی سے ہے نےز اس مےں اےک پوشےدہ قوت (لطےفہ قلب) ہے جوانوار ربانی کے فےض کوقبول کرنے کی استعداد رکھتی ہے۔