جاسمن
لائبریرین
ایک خبر کے مطابق خلیل الرحمان قمر صاحب، ہمایوں سعید کو لے کر ارطغل جیسا ڈراما بنانے کے خواہاں ہیں. خبر کنفرم نہیں ہے. البتہ اگر اپنے خلیل قمر صاحب "دیریلیش ارطغل" ہی لکھتے تو کیسا لکھتے؟ آئیے ایک پیروڈی ہوجائے اس بارے میں)
.
ڈرامے کا نام:
"میں ہاری ارطغل"
سین: ان ڈور/آؤٹ ڈور
وقت: رات... کائی قبیلہ میں ارطغل کا خیمہ.
ارطغل اپنے خیمہ میں کھڑا ہے اس کے ہاتھ میں ایک چاندی کا بُندہ ہے جسےوہ غور سےدیکھ رہا ہے.
فلیش بیک میں بلیک اینڈ وائیٹ سین چلتا ہے کہ کیسے حلیمہ سلطان کو صلیبی لشکر سے بچاتے ہوئے اس کا یہ بُندہ ارطغل کی زرہ سے اٹک گیا تھا. اس دوران بیک گراونڈ میں میوزک چلتا ہے
" پانی برسا ہے...دل کیوں دھڑکا ہے"
یادوں کا سین ختم ہوتا ہے.
ارطغل کو اپنے پیچھے سے حلیمہ سلطان کی آواز سنائی دیتی ہے.
حلیمہ : سنو!
ارطغل: کہو
حلیمہ: مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے
ارطغل: (بُندہ ہتھیلی میں چھپاکے مڑتا ہے) کہو
حلیمہ: امیر عزیز نے مجھے شادی کا پیغام بھیجا ہے
ارطغل: یہ تو میں جانتا ہوں
حلیمہ: جانتی ہوں...مگر کیا تم یہ جانتے ہو کہ اس پیغام پر میرا جواب کیا ہے؟
ارطغل: تمہارا جواب جاننے کی ضرورت نہیں ہے مجھے.
حلیمہ: وہ کیوں؟
ارطغرل: ابا کہتے ہیں کہ بے وفاؤں کے جواب اور ارادے ان کی آنکھوں سے ہی پتہ چل جاتے ہیں
حلیمہ: سنو ارطغل.. مجھے غلط مت سمجھنا.. لیکن میں اس خانہ بدوش زندگی سے تنگ آگئی ہوں.. میں محلوں میں پلی بڑھی ہوں میری زندگی وہیں ہے.
(بیک گراؤنڈ میوزک: میرا یہ بھرم تھا میرے پاس تم ہو)
ارطغل اس کے پاس آتا ہے اور اس کاہاتھ پکڑ کر اس پر اس کا بُندہ رکھ دیتا ہے.
حلیمہ: حیران ہوکر: یہ کیا ہے؟
ارطغل: یہ وہی ہے جو تم یہاں لینے آئی تھی. یعنی میرا جواب.
حلیمہ: آئی ایم سوری ارطغل لیکن...
ارطغل: ڈونٹ بی سوری حلیمہ... اٹس ناٹ یور فالٹ.. ایکچوئلی.. دا فالٹ از ان آور سٹارز.
حلیمہ آگے بڑھتی ہے اور ہاتھ میں پکڑا بُندہ ارطغل کو دے دیتی ہے اور کہتی ہے
حلیمہ: یہ تم رکھ لو.... دو ٹَکے کا بُندہ ہے تم جیسے بَندے کو دینا مناسب تو نہیں ہے لیکن... مجھے دراصل امیر عزیز نے سونے کا بنوادیا ہے. سو اب یہ میرے لئے بے کار ہے
ارطغل بُندے کو پکڑتا ہے اور کہتا ہے: ابا کہتے ہیں جس چیز سے محبت نکل جائے وہ بے کار ہوجاتی ہے
حلیمہ: تمہارے ابا کی جب کتاب چھپے تو مجھے امیر عزیز کے محل میں گفٹ ضرور بھجوانا.
(بیک گراؤنڈ میوزک: محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا)
ارطغرل اپنی آنسو بھری آنکھوں کو صاف کرتا خیمے سے باہر نکل آتا ہے.. باہر حلیمہ کا چھوٹا بھائی دندور کھڑا ہے وہ ارطغل کو دیکھ کر کہتا ہے.
ارطغل بھائی! ایک سچا مسلمان مجاہد جس کی صبح میدان کارزار میں تلواروں کی چھاؤں تلے کافروں کے نرخرے کاٹتے ہوِئے طلوع ہوتی ہو. دن بھر نعرہ تکبیر اور دشمنوں کے خون کے چھینٹوں میں بسر ہو.. اور رات اپنے جسم کے زخم گنتے ہوئے گزرے.. اس مجاہد کی آنکھوں میں یوں بے وجہ آنسو کیسے؟
ارطغل: ابا کہتے ہیں کہ محبت کرنے والے کی بیوفائی، کافر کی تلوار کے زخم سے زیادہ گہرا زخم دیتی ہے.
بچہ: آہ..... میرے ابا بھی کہتے ہیں
Love is a drama of contradictions.
ارطغرل: حیرانی سے: لیکن یہ تو فرانز کافکا کی کوٹیشن ہے جو ہمارے زمانے کے بہت بعد پیدا ہوگا وہ تمہارے ابا کیسے ہوسکتے ہیں
بچہ: پتہ نہیں.. لیکن میرا اس سین میں یہی ڈائیلاگ تھا.
ایک جانب سے گل دارو آتا ہے: ارطغل! تمہیں "ابا" (سلیمان شاہ) نے کھانے پہ بلوایا ہے
ارطغل: بھائی... ابا سے جاکے کہو کہ ... ابا کہتے ہیں جب دل پہ بے وفائی کا نزول ہوتا ہے تو معدے سے بھوک اڑ جایا کرتی ہے
گل دارو: ارطغل.. سنبھالو خود کو.. یہ وقت عشق و محبت میں رونے پیٹنے کا نہیں ہے.. کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہمیں آج طیوطیش اور استاد اعظم کی سرکوبی کے لئے فرنگیوں کے قلعے کی طرف جانا ہے؟
ارطغل: اپنے گھوڑے پہ بیٹھتے ہوئے: ان کی سرکوبی کے لئے اب مجھے تلوار کی ضرورت نہیں بھائی!....... ابا کہتے ہیں کہ بے وفاؤں کی بدعاوں میں بہت اثر ہوتا ہے. میں حلیمہ سلطان اور امیر عزیز کی شادی میں شرکت کے لئے نیا سوٹ سلوانے جارہا ہوں. ولیمہ ہوتے ہی صلیبیوں کے لِئے بد دعا کروں گا.میری بد دعاوں سے ان کا قلعہ نیست و نابود ہوجائے گا.
گل دارو: بد دعا کے لئے ولیمے تک کا انتظار کیوں؟
ارطغرل: کیونکہ تب تک امید کی آخری کرن بجھ چکی ہو.. عشق کی میت دفنا کے فاتحہ پڑھی جاچکی ہوگی اور یہ دو ٹکے کا دل.. پوری طرح ٹوٹ چکا ہوگا.
یہ کہہ کے ارطغل گھوڑا دوڑا لے جاتا ہے. خیمہ کے اندر حلیمہ سلطان آنکھوں کو میچتی ہے. جس سے اس کے ضبط کئے ہوئے آنسو ٹپک جاتے ہیں پھر وہ لہراکے زمین پہ گرتی ہے اور بے ہوش ہوجاتی ہے.
اس دوران بیک گراؤنڈ میوزک چلتا رہتا ہے
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو چند کلیاں مانگی تھیں کانٹوں کا ہار ملا
اور پھر پردہ گرتا ہے😊😊
تحریر : سلیمان سعید
.
ڈرامے کا نام:
"میں ہاری ارطغل"
سین: ان ڈور/آؤٹ ڈور
وقت: رات... کائی قبیلہ میں ارطغل کا خیمہ.
ارطغل اپنے خیمہ میں کھڑا ہے اس کے ہاتھ میں ایک چاندی کا بُندہ ہے جسےوہ غور سےدیکھ رہا ہے.
فلیش بیک میں بلیک اینڈ وائیٹ سین چلتا ہے کہ کیسے حلیمہ سلطان کو صلیبی لشکر سے بچاتے ہوئے اس کا یہ بُندہ ارطغل کی زرہ سے اٹک گیا تھا. اس دوران بیک گراونڈ میں میوزک چلتا ہے
" پانی برسا ہے...دل کیوں دھڑکا ہے"
یادوں کا سین ختم ہوتا ہے.
ارطغل کو اپنے پیچھے سے حلیمہ سلطان کی آواز سنائی دیتی ہے.
حلیمہ : سنو!
ارطغل: کہو
حلیمہ: مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے
ارطغل: (بُندہ ہتھیلی میں چھپاکے مڑتا ہے) کہو
حلیمہ: امیر عزیز نے مجھے شادی کا پیغام بھیجا ہے
ارطغل: یہ تو میں جانتا ہوں
حلیمہ: جانتی ہوں...مگر کیا تم یہ جانتے ہو کہ اس پیغام پر میرا جواب کیا ہے؟
ارطغل: تمہارا جواب جاننے کی ضرورت نہیں ہے مجھے.
حلیمہ: وہ کیوں؟
ارطغرل: ابا کہتے ہیں کہ بے وفاؤں کے جواب اور ارادے ان کی آنکھوں سے ہی پتہ چل جاتے ہیں
حلیمہ: سنو ارطغل.. مجھے غلط مت سمجھنا.. لیکن میں اس خانہ بدوش زندگی سے تنگ آگئی ہوں.. میں محلوں میں پلی بڑھی ہوں میری زندگی وہیں ہے.
(بیک گراؤنڈ میوزک: میرا یہ بھرم تھا میرے پاس تم ہو)
ارطغل اس کے پاس آتا ہے اور اس کاہاتھ پکڑ کر اس پر اس کا بُندہ رکھ دیتا ہے.
حلیمہ: حیران ہوکر: یہ کیا ہے؟
ارطغل: یہ وہی ہے جو تم یہاں لینے آئی تھی. یعنی میرا جواب.
حلیمہ: آئی ایم سوری ارطغل لیکن...
ارطغل: ڈونٹ بی سوری حلیمہ... اٹس ناٹ یور فالٹ.. ایکچوئلی.. دا فالٹ از ان آور سٹارز.
حلیمہ آگے بڑھتی ہے اور ہاتھ میں پکڑا بُندہ ارطغل کو دے دیتی ہے اور کہتی ہے
حلیمہ: یہ تم رکھ لو.... دو ٹَکے کا بُندہ ہے تم جیسے بَندے کو دینا مناسب تو نہیں ہے لیکن... مجھے دراصل امیر عزیز نے سونے کا بنوادیا ہے. سو اب یہ میرے لئے بے کار ہے
ارطغل بُندے کو پکڑتا ہے اور کہتا ہے: ابا کہتے ہیں جس چیز سے محبت نکل جائے وہ بے کار ہوجاتی ہے
حلیمہ: تمہارے ابا کی جب کتاب چھپے تو مجھے امیر عزیز کے محل میں گفٹ ضرور بھجوانا.
(بیک گراؤنڈ میوزک: محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا)
ارطغرل اپنی آنسو بھری آنکھوں کو صاف کرتا خیمے سے باہر نکل آتا ہے.. باہر حلیمہ کا چھوٹا بھائی دندور کھڑا ہے وہ ارطغل کو دیکھ کر کہتا ہے.
ارطغل بھائی! ایک سچا مسلمان مجاہد جس کی صبح میدان کارزار میں تلواروں کی چھاؤں تلے کافروں کے نرخرے کاٹتے ہوِئے طلوع ہوتی ہو. دن بھر نعرہ تکبیر اور دشمنوں کے خون کے چھینٹوں میں بسر ہو.. اور رات اپنے جسم کے زخم گنتے ہوئے گزرے.. اس مجاہد کی آنکھوں میں یوں بے وجہ آنسو کیسے؟
ارطغل: ابا کہتے ہیں کہ محبت کرنے والے کی بیوفائی، کافر کی تلوار کے زخم سے زیادہ گہرا زخم دیتی ہے.
بچہ: آہ..... میرے ابا بھی کہتے ہیں
Love is a drama of contradictions.
ارطغرل: حیرانی سے: لیکن یہ تو فرانز کافکا کی کوٹیشن ہے جو ہمارے زمانے کے بہت بعد پیدا ہوگا وہ تمہارے ابا کیسے ہوسکتے ہیں
بچہ: پتہ نہیں.. لیکن میرا اس سین میں یہی ڈائیلاگ تھا.
ایک جانب سے گل دارو آتا ہے: ارطغل! تمہیں "ابا" (سلیمان شاہ) نے کھانے پہ بلوایا ہے
ارطغل: بھائی... ابا سے جاکے کہو کہ ... ابا کہتے ہیں جب دل پہ بے وفائی کا نزول ہوتا ہے تو معدے سے بھوک اڑ جایا کرتی ہے
گل دارو: ارطغل.. سنبھالو خود کو.. یہ وقت عشق و محبت میں رونے پیٹنے کا نہیں ہے.. کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہمیں آج طیوطیش اور استاد اعظم کی سرکوبی کے لئے فرنگیوں کے قلعے کی طرف جانا ہے؟
ارطغل: اپنے گھوڑے پہ بیٹھتے ہوئے: ان کی سرکوبی کے لئے اب مجھے تلوار کی ضرورت نہیں بھائی!....... ابا کہتے ہیں کہ بے وفاؤں کی بدعاوں میں بہت اثر ہوتا ہے. میں حلیمہ سلطان اور امیر عزیز کی شادی میں شرکت کے لئے نیا سوٹ سلوانے جارہا ہوں. ولیمہ ہوتے ہی صلیبیوں کے لِئے بد دعا کروں گا.میری بد دعاوں سے ان کا قلعہ نیست و نابود ہوجائے گا.
گل دارو: بد دعا کے لئے ولیمے تک کا انتظار کیوں؟
ارطغرل: کیونکہ تب تک امید کی آخری کرن بجھ چکی ہو.. عشق کی میت دفنا کے فاتحہ پڑھی جاچکی ہوگی اور یہ دو ٹکے کا دل.. پوری طرح ٹوٹ چکا ہوگا.
یہ کہہ کے ارطغل گھوڑا دوڑا لے جاتا ہے. خیمہ کے اندر حلیمہ سلطان آنکھوں کو میچتی ہے. جس سے اس کے ضبط کئے ہوئے آنسو ٹپک جاتے ہیں پھر وہ لہراکے زمین پہ گرتی ہے اور بے ہوش ہوجاتی ہے.
اس دوران بیک گراؤنڈ میوزک چلتا رہتا ہے
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو چند کلیاں مانگی تھیں کانٹوں کا ہار ملا
اور پھر پردہ گرتا ہے😊😊
تحریر : سلیمان سعید