حسان خان
لائبریرین
گر قابلِ ملال نیَم، شاد کن مرا
ویران اگر نمیکنی، آباد کن مرا
(صائب)
اگر میں آزردگی کے قابل نہیں ہوں، تو مجھے شاد (ہی) کر دو؛ اگر مجھے ویران نہیں کرتے، تو مجھے آباد (ہی) کر دو۔
ویران اگر نمیکنی، آباد کن مرا
(صائب)
اگر میں آزردگی کے قابل نہیں ہوں، تو مجھے شاد (ہی) کر دو؛ اگر مجھے ویران نہیں کرتے، تو مجھے آباد (ہی) کر دو۔
خندان اگر نمیکنی، گریان مکن مرا
آباد اگر نمیکنی، ویران مکن مرا
اگر تم مجھے خنداں نہیں کرتے تو مجھے گریاں (بھی) مت کرو؛ اگر تم مجھے آباد نہیں کرتے تو مجھے ویران (بھی) مت کرو۔
آباد اگر نمیکنی، ویران مکن مرا
اگر تم مجھے خنداں نہیں کرتے تو مجھے گریاں (بھی) مت کرو؛ اگر تم مجھے آباد نہیں کرتے تو مجھے ویران (بھی) مت کرو۔
خوشبخت اگر نمیکنی، از بخت دم مزن
شادان اگر نمیکنی، نالان مکن مرا
اگر مجھے خوش بخت نہیں کر سکتے تو بخت کی باتیں (بھی) مت کرو؛ اگر تم مجھے شاداں نہیں کرتے تو مجھے نالاں (بھی) مت کرو۔
شادان اگر نمیکنی، نالان مکن مرا
اگر مجھے خوش بخت نہیں کر سکتے تو بخت کی باتیں (بھی) مت کرو؛ اگر تم مجھے شاداں نہیں کرتے تو مجھے نالاں (بھی) مت کرو۔
در چارسوی زندگی تا کوی زندگی
رهبان اگر نمیشوی، سرسان مکن مرا
زندگی کے چوراہے پر زندگی کے کوچے تک اگر تم میرے رہبر نہیں بنتے تو مجھے سرگرداں و آوارہ (بھی) مت کرو۔
رهبان اگر نمیشوی، سرسان مکن مرا
زندگی کے چوراہے پر زندگی کے کوچے تک اگر تم میرے رہبر نہیں بنتے تو مجھے سرگرداں و آوارہ (بھی) مت کرو۔
حیرانِ دل نبودهای یک لحظه خود به خود
با لاف و با گزافها حیران مکن مرا
تم ایک لمحے بھی خود بخود اور اپنے ارادے سے سرگشتۂ دل نہیں رہے ہو (لہٰذا) اپنی (عاشقی کی) لاف زنیوں سے مجھے حیران مت کرو (یا حیران کرنے کی کوشش مت کرو)۔
[لاف زنی = ڈینگیں مارنا]
با لاف و با گزافها حیران مکن مرا
تم ایک لمحے بھی خود بخود اور اپنے ارادے سے سرگشتۂ دل نہیں رہے ہو (لہٰذا) اپنی (عاشقی کی) لاف زنیوں سے مجھے حیران مت کرو (یا حیران کرنے کی کوشش مت کرو)۔
[لاف زنی = ڈینگیں مارنا]
جانت تهیست از غمِ جانسوزِ عاشقی
دستِ تهی تو این همه دستان مکن مرا
تمہاری جان عاشقی کے غمِ جاں سوز سے خالی ہے؛ (لہٰذا) اپنے تہی ہاتھوں کے ساتھ مجھے یہ سب فریب مت دو۔
دنیا ندیده، وعدهٔ دنیا مده به من
دریا ندیده، تشنهٔ طوفان مکن مرا
دنیا دیکھے بغیر مجھ سے وعدۂ دنیا مت کرو؛ دریا دیکھے بغیر مجھے تشنۂ طوفاں مت کرو۔
دستِ تهی تو این همه دستان مکن مرا
تمہاری جان عاشقی کے غمِ جاں سوز سے خالی ہے؛ (لہٰذا) اپنے تہی ہاتھوں کے ساتھ مجھے یہ سب فریب مت دو۔
دنیا ندیده، وعدهٔ دنیا مده به من
دریا ندیده، تشنهٔ طوفان مکن مرا
دنیا دیکھے بغیر مجھ سے وعدۂ دنیا مت کرو؛ دریا دیکھے بغیر مجھے تشنۂ طوفاں مت کرو۔
(لایق شیرعلی)
۴ دسمبر ۱۹۸۲ء
۴ دسمبر ۱۹۸۲ء
آخری تدوین: