سید زبیر
محفلین
خوابوں کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے
پھر وہی رنگ بہ صد طور جلائے بھی گئے
انہی شہروں کو شتابی سے لپیٹا بھی گیا
جو عجب شوق فراخی سے بچھائے بھی گئے
بزمِ شوق کا کسی کی کیا کہیں کیا حال جہاں
دل جلائے بھی گئے اور بجھائے بھی گئے
پشت مٹی سے لگی جس میں ہماری لوگو!
اسی دنگل میں ہمیں داؤ سکھائے بھی گئے
یادِ ایام کہ اک محفل جاں تھی کہ جہاں
ہاتھ کھینچے بھی گئے اور ملائے بھی گئے
ہم کہ جس شہر میں تھے سوگ نشینِ احوال
روز اس شہر میں ہم دھوم مچائے بھی گئے
یاد مت رکھیو روداد ہماری ہر گز
ہم تھے وہ تاج محل ، جون ، جو ڈھائے بھی گئے
جون ایلیا :