امجد اسلام امجد خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔۔! امجد اسلام امجد

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
خواب ٹوٹ جاتے ہیں​
بھیڑ میں زمانے کی ہاتھ جھوٹ جاتے ہیں​
دوست دار لہجوں میں سلوٹیں سی پڑتی ہیں​
اک ذرا سی رنجش سی​
شک کی زرد ٹہنی پر پھول بدگمانی کے​
اس طرح سے کھلتے ہیں​
زندگی سے پیارے بھی​
اجنبی سے لگتے ہیں' غیر بن کے ملتے ہیں​
عمر بھر کی چاہت کو آسرا نہیں ملتا​
دشتِ بے یقینی میں راستہ نہیں ملتا​
خاموشی کے کے وقفوں میں​
بات ٹوٹ جاتی ہےاور سرا نہیں ملتا​
معذرت کے لفظوں کو روشنی نہیں ملتی​
لذتِ پزیرائی' پھر کبھی نہیں ملتی​
پھول رنگ وعدوں کی منزلیں سکڑتی ہیں​
راہ مڑنے لگتی ہے​
بےرخی کے گارے سے،بے دلی کی مٹی سے​
فاصلے کی اینٹوں سے اینٹ جڑنے لگتی ہے​
خاک اڑنے لگتی ہے​
خوب ٹوٹ جاتے ہیں​
واہموں کے سائے سے'عمر بھر کی محنت کو​
پل میں لُوٹ جاتے ہیں​
اک ذرا سی رنجش سے​
ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں​
بھیڑ میں زمانے کی​
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں​
 
Top