ابن جمال
محفلین
سیریلس اورخواتین
ہندوستان میں ٹیلی ویژن کی ابتدایونیسکو کے ایک پائلٹ پروجکٹ سے ہوئی۔ اس پروجیکٹ کا مقصد یہ معلوم کرناتھا کہ یہاں کے پسماندہ طبقے کی تعلیم وترقی میں ٹیلی ویژن کس حد تک مددگار ہوسکتاہے۔ اس کیلئے یونیسکو نے ہزار ڈالر کی امداد بھی دی تھی اس کے پروگرام ساٹھ منٹ کے ہوتے تھے جنہیں ہفتے میں دوبارپیش کیاجاتاتھا۔ یہ پروگرام تعلیمی، معلوماتی اورتفریحی نقطہ نظر کو ذہن میں رکھ کر تیار کئے جاتے تھے۔
میں جب دوردرشن کو باہر کے لوگوں کے لئے کھولا گیا توباہری پروڈیوسرس نے ہی ایک سیریل تیار کیاجس کا نام تھا ہم لوگ۔اس سیریلس کو عوام میں بے حد مقبولیت ہوئی ۔اس کے بعد تو سیریلس کی مقبولیت دیکھتے ہوئے درودرشن پر سیریلس کی جھری لگ گئ۔ اورایک کے بعد ایک سریلس بننے لگیاورنجکاری کے بعد تواس میں لگاتار اضافہ اوربرھوتڑی ہوتی جارہی ہے۔نجی یاپرائیویٹ ٹی وی چینلس کی اجازت ملنے کے بعد سے سریلس والے چینلس بھی کافی تعداد میں آئے ہیں اورعوام میں خصوصا خواتین میں بے حد مقبول بھی ہیں۔
سریلس کا اصل مقصد ملک اورمعاشرہ کی حالت کو عوام کے سامنے لانا ہے اوران رویوں کی نشاندہی کرنا ہے جن سے ملک اورسماج بہتری کی جانب گامزن ہوسکے۔ لیکن یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سیریلس نے اپنا اصل مقصد فوت کردیاہے اوراب بجائے اس کے کہ سیریلس ملک اورمعاشرہ کے حق میں سود مند ثابت ہوتا۔مضر اورخطرناک ثابت ہورہاہے۔اوراس سے کچے اورمعصوم ذہنوں کو جرم کی ترغیب مل رہی ہے۔ ایسے واقعات کی کمی نہیں جس میں مجرم یا مجرمہ نے اعتراف کیاہوکہ کسی سیریل کو دیکھ کر جرم کا خیال آیاتھا۔
موجودہ سریلس جو دکھائے جارہے ہیں ان میں بہت سی خرابیاں درآئی ہیں۔جن میں سے چند ترتیب وار ذکر کی جاتی ہیں۔
(1)موجودہ سیریلس کی سب سے بڑی اوربنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں کہیں بھی مقصدیت نہیں ہے۔کہانیاں ایسی ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔کہانی کو خواہ مخواہ اوربلاضرورت لمبااورطویل کیاجاتاہے۔ بعض سریلس توایسے بھی ہیں جو دس سال سے چل رہے ہیں۔طوالت اورکہانی کو دور تک کھینچنے کی کوشش میں بسااوقات کہانی میں ربط اورتسلسل ختم ہوجاتاہے اوربلاضرورت نئے نئے کردار سامنے آتے رہتے ہیں۔
(2)اس میں صرف امیر اوربالائی طبقہ کی زندگی پیش کی جاتی ہے۔ جب کہ اصل مشکلات کا شکار غریب لوگ ہیں۔ ان کی زندگیوں پر ان کو درپیش مشکلات پر کوئی سیریل نہیں ہے۔کسی صنعت کار ،بزنس مین اوربجاج وغیرہ کو ہی سریلس پر دکھاجارہاہے۔ ان کہانیوں میں عام آدمی کہیں باقی نہیں ہے۔ اگر کوئی عام فرد سریلس میں اپنے اردگرد کو دیکھنا اورجھانکنا چاہے گاتواسے ناکامی ہاتھ لگے گی ۔اس میں آپ کو کہانی کی ضرورت کے لحاظ سے چپراسی ،موچی ،دربان،اورچھوٹے چھوٹے نوکر وغیرہ مل جائیں گے لیکن ان پر کوئی سریلس ہویہ نہیں ملے گا۔
(3)سنسنی خیزی اس درجہ کی ہوتی ہے اورمعمولی باتوں کو اتنابڑھاچڑھاکر پیش کیاجاتاہے کہ بسااوقات سنسنی خیزی بڑی مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی چائے لے کر آرہاہے تواسے دکھانے میں تین منٹ صرف کریں گے اوربیک گرانڈ سانڈ ایسا دیں گے جیسے ویٹر اورنوکر نہیں کوئی بہت بڑا قاتل اورکرمنل آرہاہے۔گلاس ہاتھ سے چھوٹ کر گرگیا تو زمین وآسمان ہلنے لگیں گے۔کوئی غیر متوقع فرد آگیا تو قیامت برپاہوگئی اورچار زاویے سے اداکاروں کی صورت دکھائی جائے گی۔
(4)سیریلس کی پیش کشی ایسی ہوتی ہے کہ اس سے نوجوان اورکچے ذہن جرم کی راہ پر نکل پڑتے ہیں۔ہرسیریل میں یہ ضرور دکھاجاجاتاہیان کے ولن اپنے مقصد کو پانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ انہیں کسی بھی جرم سے پرہیز نہیں ہے۔ چاہے کسی کی جان لینی پڑی یا پھر کسی کی آبرو اورعصمت کو داغ لگانا پڑے۔پھر اس میں جرم کی ہر باریکی کوبہت تفصیل سے دیکھایاجاتاہے ۔اتنی تفصیل سے کہ ہر ایک کے ذہن میں آسانی سے گھرکرجائے۔جرم کو انجام دینے کیلئے نت نئے طریقے بتائے جاتے ہیں اوربتایاجاتاہے کہ کس طرح اپنے گھروالوں ،بزرگوں اوراساتذہ کو بے وقوف بنایاجاسکتاہے۔ یا کس طرح ان سے کوئی بات چھپائی جاسکتی ہے۔بعض سیریلس ایسے ہیں جو سی آئی ڈی کے نام وغیرہ سے چلتی ہیں اوراس میں جرم کے بڑے واقعات کو ٹی وی پرتفصیل سے دیکھایاجاتاہے کہ کس طرح مجرم نے جرم کو انجام دیا اورکس غلطی کی بنا پر وہ پولس کی گرفت میں آیا۔ ایسے پروگرام بھی معاشرہ اوربچوں کے حق میں اچھے نہیں ہیں۔
(5)دولت کی بے تحاشا نمائش اوراسراف وفضول خرچی کا اظہار سیریلیوں کی پہچان بن چکاہے۔ نئی ساڑیاں، نئے فرنیچر اورنئے گہنے اورزیورات وغیرہ ہر سیریل کا ایک لازمی جز ہے۔ اب عورتیں زیورات سیریل دیکھ کر پسند کرتی ہیں سنار کی دوکان پر نہیں۔ سنار کی اور جیولری کی دوکان پر فرمائش ہوتی ہے کہ ہمیں فلاں سیریل کی فلاں ایکٹریس کے زیور جیسا گہنا چاہئے۔فرنیچر کا انتخاب بھی سیریل دیکھ کر ہوتاہے۔اورساڑیاں تو اب سریلس کے ایکٹرس کے نام پر بھی آنے لگی ہیں۔اورسریلس کے ایکٹریس والی ساڑیاں پہنناایک سماجی رتبہ اوروقار کی علامت بن گیاہے۔
(6)ان سیریلس کا ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی ہوا ہے کہ اس سے ازدواجی زندگی بے حد متاثر ہونے لگی ہے۔ ان سیریلوں اوران کے وقفہ میں دکھائے جانے والے اشتہارات کے ذریعہ قناعت اورصبر عنقا ہوگئی ہے اب تو ضد یہ ہے کہ جو شئے کا اشتہار دکھایاگیاہے اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا ہے۔اس کیلئے چاہے جرم کرناپڑے۔ شوہر کورشوت لینی پڑے۔ بیٹوں کو غلط کام کرنا پڑے ۔چاہے کچھ بھی ہو لیکن جوشئے ٹی وی پر آئی ہے وہ ضرور حاصل کرنی ہے۔ اس دور کاایک بڑا فتنہ کنزیومر ازم ہے۔ یعنی انسان کی زندگی بقول اکبر الہ آبادی پہلے یہ تھی ""بی اے ہوئے پنشن ملی اورمرگئے""لیکن اب توتعلیم کی غرض وغایت اورزندگی کا مقصد بھی صرف شاپنگ ہی رہ گیاہے۔ فانی نے کہاتھا
فریب جلوہ اورکتنامکمل اے معاذاللہ
بڑی مشکل سے دل کو بزم عالم سے اٹھاپایا
اب اس کی جگہ یہ پڑھاجائے تو بیجانہ ہوگاکہ ""بڑی مشکل سے دل کو بزم شاپنگ سے اٹھایا""
(7)ان تمام سیریلوں میں ایک قدر مشترک یہ ضرور ہوتی ہے کہ جس طرح فلموں میں کوئی مرد ولن ہوتاہے اسی طرح ان سریلوں میں کوئی عورت منفی کردار میں ہوتی ہے۔عورتوں کا منفی کردار اس قدر گندہ اوربراہوتاہے کہ پرانے زمانے کے مرد ولن بھی جن کاموں کوکرنے کی ہمت جٹانہیں پاتے تھے اب سیریلس کی خواتین ولن آسانی سے کرگزرتی ہیں۔انہیں صرف اپنے غلط اوربے ہودہ مقصد سے غرض ہوتی ہے۔ اوروہ اس کیلئے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار ہوتی ہین۔ قتل تومعمولی بات ہے۔ اگر اپنی عصمت بھی دا پر لگانی پڑے تو انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔جہاں گھریلو رشتوں کے بارے میں سریلس ہوتے ہیں تو وہاں خواتین ولن کی ایک ایک چال دکھائی جاتی ہے کہ کس طرح گھر پر قبضہ کرنا ہے۔ شوہر کو مٹھی میں رکھناہے۔ساس اورسسر کی خدمت کے بجائے ان سے اپنی خدمت کرانی ہے اورسسرالی رشتہ داروں سے عزیزوں کے بجائے نوکروں والا سلوک کیسے کیاجاے۔جب لڑکیاں یہ سب دیکھیں گی تو کیا وہ ان سے متاثر نہیں ہوں گی اوراپنی زندگی میں انہیں حربوں اورطریقوں کو اپنانے کی کوشش نہیں کریں گی جو ٹی وی میں دکھایاگیاہے۔
(سریلس میں دھیرے دھیرے جس طرح عریانی اورفحش مناظر بڑھتے جارہے ہیں وہ ایک بڑا خطرہ ہے۔ کیونکہ سیریلس کو عموما گھریلوتفریح کا ذریعہ سمجھاجاتاہے اورخاندان بھر کے لوگ خصوصا خواتین ماں بیٹی اوربہو اورگھر کی دیگر رشتہ دار خواتین ساتھ مل کر دیکھتی ہیں۔ اسے دیکھنے والوں میں ساٹھ سال کی نانی دادی،سال کی بیٹی اوربہو اورپانچ دس سال کی بیٹی اورنواسی وغیرہ بھی ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھیں توسیریلس میں فحش مناظر کا ہونا گھریلو اورسماجی اقدار کیلئے بہت مضر ہے۔ اوراس کواگر ابھی سے روکانہ گیا تواس کے برے اثرات دور تک ہمارا تعاقب کریں گے۔
(9)اگر چہ سیریل کا اصل مقصد معاشرہ کی عکاسی کرنا ،اس میں درآئی برائیوں کی نشاندہی کرنااورملک وقوم کو نیاراستہ دکھانا ہے لیکن آج کل سریلس میں حقیقت سے گریز اوردیومالائی کہانیوں کی طرح فوق الفطرت کردار نظرآتے ہیں اگر کوئی براہے تواتنا براہیکہ شیطان بھی اس سے پناہ مانگنے میں اپنی عافیت سمجھے۔ دنیا بھر کی تمام برائیاں اس کے اندر دکھائی جاتی ہیں۔ اوراگر کسی کو اچھے روپ میں دکھایاجاتاہے توپھراتنااچھادکھایاجاتاہے کہ وہ کوئی عام انسان نہ ہوکر فرشتے ہیں جو زمین پر اترآئے ہیں۔ جب کہ درحقیقت ان سیریلس کااصل مقصد معاشرہ اورسماج کی منظرکشی اوراس کی برائیوں کو سامنے لاکر بہتری کے راستے دکھانا ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ سریلس ایسے واقعات پر مبنی ہوں جو کہ حقیقت سے قریب تر ہو،جس کا ہمیں اپنی زندگی میں روز سامناکرناپڑتاہے جس سے سماج میں سدھارآسکے۔لیکن تجارتی مفادات ان چینلوں پر اورسریلس بنانے والوں پر اتنے زیادہ غالب آگئے ہیں کہ ان کو سماج اورمعاشرہ کی بہتری اوربھلائی سے کوئی غرض نہیں ہے۔وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح سے ان کی ٹی آرپی بڑھے۔ اشتہارات زیادہ ملیں۔اشتہارات کے نرخ زیادہ ہوں۔اوران کا نفع ساہوکار کے پیٹ کی طرح بڑھتارہے۔اگر سماج تباہ ہوتاہے توہوتارہے۔ بچوں بچیوں کے اخلاق خراب ہوتے ہیں ان کی بلا سے۔گھرٹوٹ رہے ہوں خاندان اوررشتے بکھررہے ہوں،انسانی سماج اوراقدار ملیامیٹ ہورہے ہوں تو ہوتے رہیں مگر ان کا تجارتی منافع برقرار رہے۔ ٹی آرپی میں اضافہ ہوتارہے ان کے اشتہارات کانرخ بڑھتارہے۔
اب وقت آچکاہے کہ عوام اورحکومت سیریلوں کے پروڈیوسرس پر اخلاقی لگام لگائے اورانہیں تہذیب واخلاق کا پابند بنائے۔پروڈیوسروں کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑدینے کابراانجام آج ہم سب معاشرے میں دیکھ رہے ہیں اورپتہ نہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے آگے ہمیں کیاکیادیکھنے پڑیں۔
محوحیرت ہوں کہ دنیاکیاسے کیاہوجائے گی
ہندوستان میں ٹیلی ویژن کی ابتدایونیسکو کے ایک پائلٹ پروجکٹ سے ہوئی۔ اس پروجیکٹ کا مقصد یہ معلوم کرناتھا کہ یہاں کے پسماندہ طبقے کی تعلیم وترقی میں ٹیلی ویژن کس حد تک مددگار ہوسکتاہے۔ اس کیلئے یونیسکو نے ہزار ڈالر کی امداد بھی دی تھی اس کے پروگرام ساٹھ منٹ کے ہوتے تھے جنہیں ہفتے میں دوبارپیش کیاجاتاتھا۔ یہ پروگرام تعلیمی، معلوماتی اورتفریحی نقطہ نظر کو ذہن میں رکھ کر تیار کئے جاتے تھے۔
میں جب دوردرشن کو باہر کے لوگوں کے لئے کھولا گیا توباہری پروڈیوسرس نے ہی ایک سیریل تیار کیاجس کا نام تھا ہم لوگ۔اس سیریلس کو عوام میں بے حد مقبولیت ہوئی ۔اس کے بعد تو سیریلس کی مقبولیت دیکھتے ہوئے درودرشن پر سیریلس کی جھری لگ گئ۔ اورایک کے بعد ایک سریلس بننے لگیاورنجکاری کے بعد تواس میں لگاتار اضافہ اوربرھوتڑی ہوتی جارہی ہے۔نجی یاپرائیویٹ ٹی وی چینلس کی اجازت ملنے کے بعد سے سریلس والے چینلس بھی کافی تعداد میں آئے ہیں اورعوام میں خصوصا خواتین میں بے حد مقبول بھی ہیں۔
سریلس کا اصل مقصد ملک اورمعاشرہ کی حالت کو عوام کے سامنے لانا ہے اوران رویوں کی نشاندہی کرنا ہے جن سے ملک اورسماج بہتری کی جانب گامزن ہوسکے۔ لیکن یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سیریلس نے اپنا اصل مقصد فوت کردیاہے اوراب بجائے اس کے کہ سیریلس ملک اورمعاشرہ کے حق میں سود مند ثابت ہوتا۔مضر اورخطرناک ثابت ہورہاہے۔اوراس سے کچے اورمعصوم ذہنوں کو جرم کی ترغیب مل رہی ہے۔ ایسے واقعات کی کمی نہیں جس میں مجرم یا مجرمہ نے اعتراف کیاہوکہ کسی سیریل کو دیکھ کر جرم کا خیال آیاتھا۔
موجودہ سریلس جو دکھائے جارہے ہیں ان میں بہت سی خرابیاں درآئی ہیں۔جن میں سے چند ترتیب وار ذکر کی جاتی ہیں۔
(1)موجودہ سیریلس کی سب سے بڑی اوربنیادی خامی یہ ہے کہ اس میں کہیں بھی مقصدیت نہیں ہے۔کہانیاں ایسی ہیں جس کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔کہانی کو خواہ مخواہ اوربلاضرورت لمبااورطویل کیاجاتاہے۔ بعض سریلس توایسے بھی ہیں جو دس سال سے چل رہے ہیں۔طوالت اورکہانی کو دور تک کھینچنے کی کوشش میں بسااوقات کہانی میں ربط اورتسلسل ختم ہوجاتاہے اوربلاضرورت نئے نئے کردار سامنے آتے رہتے ہیں۔
(2)اس میں صرف امیر اوربالائی طبقہ کی زندگی پیش کی جاتی ہے۔ جب کہ اصل مشکلات کا شکار غریب لوگ ہیں۔ ان کی زندگیوں پر ان کو درپیش مشکلات پر کوئی سیریل نہیں ہے۔کسی صنعت کار ،بزنس مین اوربجاج وغیرہ کو ہی سریلس پر دکھاجارہاہے۔ ان کہانیوں میں عام آدمی کہیں باقی نہیں ہے۔ اگر کوئی عام فرد سریلس میں اپنے اردگرد کو دیکھنا اورجھانکنا چاہے گاتواسے ناکامی ہاتھ لگے گی ۔اس میں آپ کو کہانی کی ضرورت کے لحاظ سے چپراسی ،موچی ،دربان،اورچھوٹے چھوٹے نوکر وغیرہ مل جائیں گے لیکن ان پر کوئی سریلس ہویہ نہیں ملے گا۔
(3)سنسنی خیزی اس درجہ کی ہوتی ہے اورمعمولی باتوں کو اتنابڑھاچڑھاکر پیش کیاجاتاہے کہ بسااوقات سنسنی خیزی بڑی مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی چائے لے کر آرہاہے تواسے دکھانے میں تین منٹ صرف کریں گے اوربیک گرانڈ سانڈ ایسا دیں گے جیسے ویٹر اورنوکر نہیں کوئی بہت بڑا قاتل اورکرمنل آرہاہے۔گلاس ہاتھ سے چھوٹ کر گرگیا تو زمین وآسمان ہلنے لگیں گے۔کوئی غیر متوقع فرد آگیا تو قیامت برپاہوگئی اورچار زاویے سے اداکاروں کی صورت دکھائی جائے گی۔
(4)سیریلس کی پیش کشی ایسی ہوتی ہے کہ اس سے نوجوان اورکچے ذہن جرم کی راہ پر نکل پڑتے ہیں۔ہرسیریل میں یہ ضرور دکھاجاجاتاہیان کے ولن اپنے مقصد کو پانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ انہیں کسی بھی جرم سے پرہیز نہیں ہے۔ چاہے کسی کی جان لینی پڑی یا پھر کسی کی آبرو اورعصمت کو داغ لگانا پڑے۔پھر اس میں جرم کی ہر باریکی کوبہت تفصیل سے دیکھایاجاتاہے ۔اتنی تفصیل سے کہ ہر ایک کے ذہن میں آسانی سے گھرکرجائے۔جرم کو انجام دینے کیلئے نت نئے طریقے بتائے جاتے ہیں اوربتایاجاتاہے کہ کس طرح اپنے گھروالوں ،بزرگوں اوراساتذہ کو بے وقوف بنایاجاسکتاہے۔ یا کس طرح ان سے کوئی بات چھپائی جاسکتی ہے۔بعض سیریلس ایسے ہیں جو سی آئی ڈی کے نام وغیرہ سے چلتی ہیں اوراس میں جرم کے بڑے واقعات کو ٹی وی پرتفصیل سے دیکھایاجاتاہے کہ کس طرح مجرم نے جرم کو انجام دیا اورکس غلطی کی بنا پر وہ پولس کی گرفت میں آیا۔ ایسے پروگرام بھی معاشرہ اوربچوں کے حق میں اچھے نہیں ہیں۔
(5)دولت کی بے تحاشا نمائش اوراسراف وفضول خرچی کا اظہار سیریلیوں کی پہچان بن چکاہے۔ نئی ساڑیاں، نئے فرنیچر اورنئے گہنے اورزیورات وغیرہ ہر سیریل کا ایک لازمی جز ہے۔ اب عورتیں زیورات سیریل دیکھ کر پسند کرتی ہیں سنار کی دوکان پر نہیں۔ سنار کی اور جیولری کی دوکان پر فرمائش ہوتی ہے کہ ہمیں فلاں سیریل کی فلاں ایکٹریس کے زیور جیسا گہنا چاہئے۔فرنیچر کا انتخاب بھی سیریل دیکھ کر ہوتاہے۔اورساڑیاں تو اب سریلس کے ایکٹرس کے نام پر بھی آنے لگی ہیں۔اورسریلس کے ایکٹریس والی ساڑیاں پہنناایک سماجی رتبہ اوروقار کی علامت بن گیاہے۔
(6)ان سیریلس کا ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی ہوا ہے کہ اس سے ازدواجی زندگی بے حد متاثر ہونے لگی ہے۔ ان سیریلوں اوران کے وقفہ میں دکھائے جانے والے اشتہارات کے ذریعہ قناعت اورصبر عنقا ہوگئی ہے اب تو ضد یہ ہے کہ جو شئے کا اشتہار دکھایاگیاہے اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا ہے۔اس کیلئے چاہے جرم کرناپڑے۔ شوہر کورشوت لینی پڑے۔ بیٹوں کو غلط کام کرنا پڑے ۔چاہے کچھ بھی ہو لیکن جوشئے ٹی وی پر آئی ہے وہ ضرور حاصل کرنی ہے۔ اس دور کاایک بڑا فتنہ کنزیومر ازم ہے۔ یعنی انسان کی زندگی بقول اکبر الہ آبادی پہلے یہ تھی ""بی اے ہوئے پنشن ملی اورمرگئے""لیکن اب توتعلیم کی غرض وغایت اورزندگی کا مقصد بھی صرف شاپنگ ہی رہ گیاہے۔ فانی نے کہاتھا
فریب جلوہ اورکتنامکمل اے معاذاللہ
بڑی مشکل سے دل کو بزم عالم سے اٹھاپایا
اب اس کی جگہ یہ پڑھاجائے تو بیجانہ ہوگاکہ ""بڑی مشکل سے دل کو بزم شاپنگ سے اٹھایا""
(7)ان تمام سیریلوں میں ایک قدر مشترک یہ ضرور ہوتی ہے کہ جس طرح فلموں میں کوئی مرد ولن ہوتاہے اسی طرح ان سریلوں میں کوئی عورت منفی کردار میں ہوتی ہے۔عورتوں کا منفی کردار اس قدر گندہ اوربراہوتاہے کہ پرانے زمانے کے مرد ولن بھی جن کاموں کوکرنے کی ہمت جٹانہیں پاتے تھے اب سیریلس کی خواتین ولن آسانی سے کرگزرتی ہیں۔انہیں صرف اپنے غلط اوربے ہودہ مقصد سے غرض ہوتی ہے۔ اوروہ اس کیلئے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار ہوتی ہین۔ قتل تومعمولی بات ہے۔ اگر اپنی عصمت بھی دا پر لگانی پڑے تو انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔جہاں گھریلو رشتوں کے بارے میں سریلس ہوتے ہیں تو وہاں خواتین ولن کی ایک ایک چال دکھائی جاتی ہے کہ کس طرح گھر پر قبضہ کرنا ہے۔ شوہر کو مٹھی میں رکھناہے۔ساس اورسسر کی خدمت کے بجائے ان سے اپنی خدمت کرانی ہے اورسسرالی رشتہ داروں سے عزیزوں کے بجائے نوکروں والا سلوک کیسے کیاجاے۔جب لڑکیاں یہ سب دیکھیں گی تو کیا وہ ان سے متاثر نہیں ہوں گی اوراپنی زندگی میں انہیں حربوں اورطریقوں کو اپنانے کی کوشش نہیں کریں گی جو ٹی وی میں دکھایاگیاہے۔
(سریلس میں دھیرے دھیرے جس طرح عریانی اورفحش مناظر بڑھتے جارہے ہیں وہ ایک بڑا خطرہ ہے۔ کیونکہ سیریلس کو عموما گھریلوتفریح کا ذریعہ سمجھاجاتاہے اورخاندان بھر کے لوگ خصوصا خواتین ماں بیٹی اوربہو اورگھر کی دیگر رشتہ دار خواتین ساتھ مل کر دیکھتی ہیں۔ اسے دیکھنے والوں میں ساٹھ سال کی نانی دادی،سال کی بیٹی اوربہو اورپانچ دس سال کی بیٹی اورنواسی وغیرہ بھی ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھیں توسیریلس میں فحش مناظر کا ہونا گھریلو اورسماجی اقدار کیلئے بہت مضر ہے۔ اوراس کواگر ابھی سے روکانہ گیا تواس کے برے اثرات دور تک ہمارا تعاقب کریں گے۔
(9)اگر چہ سیریل کا اصل مقصد معاشرہ کی عکاسی کرنا ،اس میں درآئی برائیوں کی نشاندہی کرنااورملک وقوم کو نیاراستہ دکھانا ہے لیکن آج کل سریلس میں حقیقت سے گریز اوردیومالائی کہانیوں کی طرح فوق الفطرت کردار نظرآتے ہیں اگر کوئی براہے تواتنا براہیکہ شیطان بھی اس سے پناہ مانگنے میں اپنی عافیت سمجھے۔ دنیا بھر کی تمام برائیاں اس کے اندر دکھائی جاتی ہیں۔ اوراگر کسی کو اچھے روپ میں دکھایاجاتاہے توپھراتنااچھادکھایاجاتاہے کہ وہ کوئی عام انسان نہ ہوکر فرشتے ہیں جو زمین پر اترآئے ہیں۔ جب کہ درحقیقت ان سیریلس کااصل مقصد معاشرہ اورسماج کی منظرکشی اوراس کی برائیوں کو سامنے لاکر بہتری کے راستے دکھانا ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ سریلس ایسے واقعات پر مبنی ہوں جو کہ حقیقت سے قریب تر ہو،جس کا ہمیں اپنی زندگی میں روز سامناکرناپڑتاہے جس سے سماج میں سدھارآسکے۔لیکن تجارتی مفادات ان چینلوں پر اورسریلس بنانے والوں پر اتنے زیادہ غالب آگئے ہیں کہ ان کو سماج اورمعاشرہ کی بہتری اوربھلائی سے کوئی غرض نہیں ہے۔وہ بس یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح سے ان کی ٹی آرپی بڑھے۔ اشتہارات زیادہ ملیں۔اشتہارات کے نرخ زیادہ ہوں۔اوران کا نفع ساہوکار کے پیٹ کی طرح بڑھتارہے۔اگر سماج تباہ ہوتاہے توہوتارہے۔ بچوں بچیوں کے اخلاق خراب ہوتے ہیں ان کی بلا سے۔گھرٹوٹ رہے ہوں خاندان اوررشتے بکھررہے ہوں،انسانی سماج اوراقدار ملیامیٹ ہورہے ہوں تو ہوتے رہیں مگر ان کا تجارتی منافع برقرار رہے۔ ٹی آرپی میں اضافہ ہوتارہے ان کے اشتہارات کانرخ بڑھتارہے۔
اب وقت آچکاہے کہ عوام اورحکومت سیریلوں کے پروڈیوسرس پر اخلاقی لگام لگائے اورانہیں تہذیب واخلاق کا پابند بنائے۔پروڈیوسروں کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑدینے کابراانجام آج ہم سب معاشرے میں دیکھ رہے ہیں اورپتہ نہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے آگے ہمیں کیاکیادیکھنے پڑیں۔
محوحیرت ہوں کہ دنیاکیاسے کیاہوجائے گی